... loading ...
آنٹی عطیہ کا تذکرہ آپ نے ممتاز مفتی کی الکھ نگری کے انیسویں باب میں پڑھا ہوگا۔وہ فیز ٹو ڈیفنس کراچی کے ہزار گز کے ابتدائی ایام کے بنے ہوئے بنگلے میں رہتی تھیں۔ملازم کوئی نہیں تھا۔ بنگلے کا دروازہ خود ہی کھولتی تھیں۔جب قدرت اللہ شہاب زندہ تھے ان کے پاس باقاعدگی سے آتے تھے۔ صدرایوب خان پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کی رپورٹ جب پہلے چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کو ایوان صدر میں ایم آئی سے موصول ہوئی تو صدر صاحب نے تصدیق اور مزید تفصیلات کے لیے انہیں دوڑایا۔وہ رکشے پرسوارسیدھے باتھ آئی لینڈ(سوچئے صدر کا پرنسپل سیکرٹری۔آئی سی ایس اور کار موجود نہ تھی) آنٹی موصوف کے سرکاری فلیٹ پر پہنچے ۔ ان کے میاں مرکزی حکومت کے سرکاری ملازم تھے۔
آنٹی عطیہ سے بڑی ’’ صاحب کشف ہستی‘‘ ہم نے آج تک کوئی نہیں دیکھی۔ اکثربزرگوں کے ہاں یہ کشف کچھ دقت اور دیر سے کھلتا ہے۔ وہ رات کے کسی پہر مراقبہ کرتے ہیں تو رازِ دروں عیاں ہوتے ہیں ، مستقبل دکھائی پڑتا ہے۔ آنٹی عطیہ موجود کے ہاں یہ سب کچھ عند الطلب تھا( Instant and on Demand)۔سائل سے اس کا اور والدہ کا نام پوچھتیں ، آنکھیں بند کرکے’’ اللہ صمد‘‘ کا ورد کرتیں اور فی الفور جو کچھ پیغام یا منظر کی صورت میں موصول ہوا ہوتا یا دکھائی دیتا، وہ بیان کرنا شروع کردیتی تھیں۔
ہمارے استاد سندھ یونی ورسٹی کے صدر شعبہء اردو ڈاکٹر غلام مصطفے خان کو کشف القبور میں بہت ملکہ تھا ۔وہ اسے بہت سینت سینت کر رکھتے تھے۔ان کے ہاں اخفائے کرامات و اسرار کا یہ اہتمام بزرگوں کی عین طریقت کے مطابق تھا۔اظہار کرامات کو بزرگوں کے ہاں بہت اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔بعض ملفوظات تو اسے حیض الرجال کہتے ہیں ۔ اسے چھپانے کا حکم ہے۔
آنٹی سے ملنے امیر غریب سبھی آتے تھے ۔ سوال جواب کرتے تھے۔ بیگم بھٹو بھی ان کے پاس نومبر 1978 میں آئیں۔یاد رکھیے کہ بھٹو صاحب کو عدالتی قتل کے ایک گھناؤنے منصوبے کے تحت پھانسی 6ماہ بعد یعنی 4 اپریل 1979 کو ہوئی تھی۔
بیگم بھٹو کو فوری مراقبے میں جو کچھ بتایا گیا تو وہ ان کی طبیعت پر بہت گراں گزرا تھا اور وہ وہاں سے بہت رنجور رخصت ہوئی تھیں۔آنٹی نے انہیں مراقبہ کرکے بتایا تھا کہ سخت اندھیرا ہے۔وہ بھٹو صاحب کو ایک کرسی کی جانب بڑھتا دیکھتی ہیں۔ایسا لگتا ہے یہ وزیر اعظم کی کرسی ہے مگر کرسی اور بھٹو صاحب دونوں ہی اندھیرے میں معدوم یعنی فلم کی زبان میں Fade-Out ہوتے جاتے ہیں۔بیگم نصرت بھٹو اس پر کچھ ناخوش ہو کر کہنے لگیں کہ یاسر عرفات، حافظ الاسد، قدافی ،چین کے صدر ڈینگ ژیوا وپینگ اور روسی وزیر اعظم برزینف نے یقین دلایا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جس پر آنٹی نے بہت آہستہ سے کہا
“I tell what I see for the moment.”
آنٹی عطیہ سے اس موصوف نے ایک دن اپنی روحانی تربیت کی درخواست کی تو فرمانے لگیں کہ وہ ایک خاتون ہونے کے ناطے اس سے نہ صرف معذور ہیں بلکہ ان کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک خواب میں انہیں بتادیا گیا ہے کہ ان کا سلسلہ ان کے بعد پاکستان سے کہیں اور افغانستان کے راستے آگے منتقل ہو جائے گا۔البتہ ممکن ہے کہ اسے وارثی سلسلے کے کوئی بزرگ اپنالیں ۔گو اس بارے میں ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ابھی تصویر بہت دھندلی ہے۔
یہ وارثی سلسلہ، چشتی سلسلے کا ایک ذیلی سلسلہ ہے،حضرت وارث علی شاہ ؒ جن کا وصال 1905 میں ہوا ، ہمیشہ ایک زعفرانی رنگ کا احرام بطور لباس پہنے رہتے تھے،جب عزیزوں نے جائداد کا جھگڑا کھڑا کیا تو اپنی سند ایک حوض میں پھینک دی اور دنیا کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ جب اپنے مرشد اعلیٰ حضرت معین الدین چشتی ؒ کے مزار مبارک پہنچے تو پاؤں میں پڑی لکڑی کی کھڑاؤں سمیت مزار کے اندر داخل ہوگئے، خدام نے بہت شور مچایا تو پوچھنے لگے کہ ” انہیں اس پر اعتراض ہے کہ صاحبِ مزار کو؟” خدام نے عرض کیاکہ” صاحب مزار کو بھی یہ بات بھلی نہ لگی ہوگی۔” اس پر آپ نے فرمایا کہ” جس بات سے دوست ناخوش ہو اس کو ترک کرنا ہی بہتر ہے”،یہ کہہ کر کھڑاؤں باہر پھینک دیں اور عمر بھر پیر میں8 جوتی نہیں ڈالی۔سننے میں آیا ہے کہ مشہور بوہری فرقے سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی پینٹر مقبول فدا حسین المعروف بہ ایم۔ایف۔حسین انہیں کی اس روایت کی تقلید میں ننگے پیر گھوما کرتے تھے۔
آنٹی کی اس پیش گوئی کے بارے میں وہ کچھ سرگرداں تھا کہ ایک دن ایک بڑے سے دفتر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا تھا، جہاں کبھی کراچی کے میئر بیٹھا کرتے تھے ۔ فون بجا تو ایک دفتری ساتھی نے اطلاع دی کہ مشہور زمانہ قوالی
’’سرِ لامکاں سے طلب ہوئی
سوئے منتہا وہ چلے نبیؐ
کوئی حد ہے ان کے عروج کی ‘‘
کے خالق حضرت عنبر شاہ وارثی تشریف لائے ہیں۔(مشہور قوال برادران غلام فرید مقبول صابری نے اسے گا کر امر کردیا ہے)۔
دفتری ساتھی انہیں ہمارے دفتر میں لے آیا ۔ اس وقت ان کی عمر اسی برس کے لگ بھگ تھی۔صحت اب بھی اچھی تھی ۔ آنکھوں میں ایک جکڑ لینے والی چمک اور گرفت تھی۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ایسی لاجواب نعت جو تب تک ایک قوالی کا روپ دھار کر بہت شہرت اختیار کرچکی تھی ،اس کے سرزد ہونے کی واردات قلبی کا پوچھا ؟ ارشاد فرمایا وہ ایک دن مسجد نبوی کے صحن میں عشا پڑھ کر بیٹھے تھے ،دل پر یہ بوجھ تھا کہ ایک عمر گزری شاعری کرتے پر رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ طیّبہ پر کچھ ایسا کلام نہ کہہ سکے کہ زبان زدِعام ہو جائے ۔
دل میں بہت سا حسد حضرت امیر خسرو سے بھی تھا کہ دوہے اور گیت،راگ اور ساز ہی ان کی شہرت کے لیے کیا کم تھے کہ وہ دلوں کو گرما نے والی نعت بھی ان سے لکھوادی۔ حسد اور یاس کا یہ معاملہ ہمارے مہمان عنبر شاہ صاحب تک محدود نہ تھا۔ خود امیر خسرو ؔ بھی ایک دن اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیا کے سامنے باب شکوہ کھول کر بیٹھ گئے کہ ایرانی فارسی گو ابو مسلم عبداللہ الشیرازی المعروف بہ حضرت شیخ سعدی نے حیرت ناک طور پربغداد کے مدرسہء نظامیہ کی سیکھی ہوئی عربی میں (جس میں ان کا کوئی اور کلام دستیاب نہیں ) چار مصرعوں کی ایک رباعی (بطرز نعت )لکھی جو ہمہ وقت لوگوں کے گھروں اور محافل میں پڑھی جاتی ہے ۔محبوب الہی یہ سن کر متبسم ہوئے اور آپ نے دعا دی کہ تم بھی کچھ ایسی ہی نعت لکھو گے کہ بعد کے آنے والے رشک کریں گے۔ گو اُس نعت کا مقام تو بہت بلند ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ
نے جو نعت لکھی ہے وہ تو فرشتوں کی محافل میں بھی پڑھی جاتی ہے۔
بلغ العلٰی بکمالہ۔ ( اآپﷺ کے کمالات بہت اعلیٰ مرتبت تھے)
کشف الدجیٰ بجمالہٖ۔ (آپ کے کردار کے جمال سے ظلمت دور ہوگئی)
حسنت جمیع،خصالہٖ۔ (اعلی ترین انسانی خصائل آپ کا وصف تھے)
صلو علیہ و آلہٖ ۔(آپ پراور آپ کے اہل پر سلامتی اور رحمت ہو)
اس تذکرے اور دعا کے بعد روایت ہے کہ امیر خسرو پر کسی شب ایک ایسا عالم طاری ہوا کہ انہوں نے وہ مشہور نعت لکھی کہ
نمی دانم چہ منزل بود،شب جائے کہ من بودم (نہ جانے کیا مقام تھا، جہاں کل شب میں تھا)
بہ ہرسو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم (ہر سو زخمی اہل دل،مانند پروانوں کے تڑپتے تھے)
پری پیکر ،نگارے،سروقدے،لالہ رخسارے (پری پیکر،خوش جمال،سرو قد،شہابی گالوں والے )
سراپا آفت دل بود،شب جائے کہ من بودم (دل تھا کہ ایک مبتلائے آفت تھا، جہاں کل شب میں تھا)
خدا خود میر مجلس بود، اندر لامکاں، خسروؔ (خسروؔ ، اس مجلسِ لامکاں کا میر خدا،خود ہی تھا)
محمد،شمأ محفل بود،شب جائے کہ من بودم (وہاں محمدﷺ محفل میں مانند ایک چراغ کے تھے، کہ جہاں کل شب میں تھا)
حضرت عنبر شاہ وارثی فرمانے لگے کہ یکایک ان کی نگاہ آسمان پر اٹھی، جہاں انہیں یہ الفاظ لکھے دکھائی دیے اور انہوں نے جیب سے ڈائری نکال کر قلمبند کرلیا۔ اگر آپ غور فرمائیں تو امیر خسروؔ کا یاد آنا اور اس حوالے سے حضرت عنبر شاہ وارثی کی یہ فر مائش اور پھر یہ نعت کا وجود میں آنا کہ جس کا ماحول اور جذب وہ شب معراج والاہی ہے جوامیر خسرو کی نعت کا ہے کہ
سہانی رات تھی، اورُ پراثر زمانہ تھا
اثر میں ڈوبا ہوا، جذبِ عاشقانہ تھا
انہیں تو عرش پر محبوب کو بلانا تھا
ہوس تھی دید کی، معراج کا بہانہ تھا
سرلامکاں سے طلب ہوئی
سوئے منتہا وہ چلے نبی
کوئی حد ہے، ان کے عروج کی
رخصت کے وقت کو جب انہوں نے خاکسار کو گلے لگانا چاہا تو طبیعت پر ایک حرص غالب آگیا اور اس نے ایک عجیب سی فرمائش کی کہ ایک تو اس کا قلب جاری ہوجائے(اہل سلوک کے ہاں قلب کا ہمہ وقت ذکر الہی میں مصروف ہونا قلب کا جاری ہونا کہلاتا ہے)اور دوسرا اس کی طبعیت موزوں ہوجائے(یعنی وہ شاعری کرنے لگ جائے)۔ایسا لگا کہ انہیں اس فرمائش پر ایک کرنٹ لگا اور انہوں نے اسے یک لخت اپنے سے جدا کردیا۔اور خاموشی سے چل دیے۔