وجود

... loading ...

وجود

شاہرا ۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2)

هفته 22 اکتوبر 2016 شاہرا ۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2)

نومبر1978ء میں چین کے سربراہ Deng Xiaoping کی ملاقات سنگاپور کے صدر لی کوان یو سے ہوئی تو اُنہوں نے چینی سربراہ کو تین اہم مشورے دیے تھے کہ چین جیسے ملک میں مغربی ممالک کے طرز کی جمہوریت سے پرہیز کریں اور ایک پارٹی کی حکومت کو فروغ دیں۔ دوسرے وہ براہ راست کسی جنگ میں ملوث نہ ہوں اور تیسرے یہ کہ مغرب اور تمام عالم میں روز مرہ کے استعمال کی سستی اشیا کی بہت بڑی منڈی ہے ،اس کو Capture کرو۔
اس حوالے سے کچھ مضحکہ (Meme )بھی سوشل میڈیا پر مسلسل گردش میں رہتی ہیں مگر چین کا مال بک رہا ہے ۔
چینی قیادت نے ان تمام ہدایات کو اپنے طرز حکمرانی کا منتر بنالیا اور اس پر بہت تندہی سے اب تک عمل پیرا ہے۔ہانگ کانگ جس کے معنی چینی زبان میں ایک خوشبو دار بندرگاہ کے ہیں۔چین کے قصبے گوانگ ڈنگ سے ملحق 427 کلومیٹر کا یہ علاقہ انیسویں صدی کی جنگ افیم کے بعد برطانیہ کی نوآبادیاتی کالونی بن گیا تھا۔ چین اپنی طاقت کے زور پر اسے برطانیہ سے بزور طاقت چھین سکتا تھا۔لی کوان یو نے انہیں جو کچھ سمجھایا اس پر انہوں نے سندھی محاورے گھر جا کُکڑ ( گھر کی مرغیاں جو مہمان کے آنے پر کسی وقت بھی ذبح کرسکتے ہیں) کے مطابق لیا۔
برطانیہ کے ساتھ ان کا جو 99 سالہ معاہدہ تھا اس کا احترام کرتے ہوئے 1984میں ایک معاہد�ۂ طریق کار Sino-British Joint Declaration کیا اور ایک دوہرے انتظامی بندوبست میں ’’ ایک ملک دو نظام ‘‘ کے تحت بغیر کسی دقت کے چلا رہے ہیں۔چین سوائے خارجہ تعلقات اور دفاع کے ہانگ کانگ کے دیگر معاملات میں باقی چین سے جداگانہ پالیسی پر عمل پیرا رہتا ہے۔
بھارتی الفا گروپ جس میں پاکستان میں ہندوستان کے سابق سفیر ٹی سی راگھون،ڈاکٹر سدھا رامچندرن اور ان کے ایک بہت ذہین اور سنجیدہ ڈپلومیٹ ملکو لنگارا بہادر کمار جیسے افراد شامل ہیں۔موخر الذکر تو بھارت کو بھی اس منصوبے میں شامل ہوجانے کا کہتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس سے بھارت کے مفادات پر نہ صرف گہری نگاہ رکھی جاسکے گی بلکہ چین جس کا اس وقت واحد مطمح نظر دولت کا حصول ہے وہ پاکستان کی نسبت بھارت کے تعاون کو زیادہ برابری کی سطح پر برتے گا۔ اس گروپ کا یہ خیال ہے کہ چینی مفادات کی پاکستان میں اس غیر معمولی موجودگی کے انہیں یعنی بھارت کو درج ذیل فوائد ہوں گے:
۱۔پائیدار امن اور مشرقی سرحدوں پر مکمل سکون۔یہ ان کے دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی کردے گا اور یوں انہیں سائنس اور دیگر علوم کی ترقی اور غربت کے خاتمے میں بہت مدد ملے گی۔دنیا بھر میں بھارتی Diaspora(تارکین وطن) فنی انتظامی اور طبی ماہرین کی صورت میں اپنا ایک مقام اور حلقۂ اثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔اس وقت بھی دنیا کی تین بہت بڑی کمپنیوں گوگل، کوکا کولا اور مائیکرو سوفٹ کے اعلی ترین عہدے دار بھارتی نژاد ہیں۔دفاعی اخراجات میں کمی ہوگی تو وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ بھارت کی افرادی قوت کو بنیادی یعنیPrimary and Cottage انڈسٹری سے Intermediate and Advance وسطی اور اعلی سطح کی انڈسٹری کی جانب منتقل کرسکیں۔ان کے سامنے جاپان اور امریکاکا ماڈل ہے۔امریکامیں تو چینی مال اتنا فروخت ہوتاہے کہ ایک امریکی تقریر کررہا تھا کہ’’ وہ دن دور نہیں کہ امریکاکی فیکٹریوں پر تالے پڑ جائیں گے۔حاضرین میں سے کسی منچلے نے جملہ کسا کہ تسلی رکھیں یہ تالے بھی چین ہی کے بنے ہوں گے‘‘۔
۲۔ پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی سے چین خود ہی نمٹ لیا کرے گا۔چین کی یہ سرمایہ کاری ایک طرح کا Double- Buffer ثابت ہوگی۔ افغانستان اور پاکستان سے باڑھ پار کرکے آنے والے دہشت گرد چین کے مفادات کی پاسداری کریں گے۔ان کے نوجوانوں کے لیے جب روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تو ان کا مذہبی شدت پسندی سے دھیان ہٹ جائے گا۔
۳۔خام مال کی کمی کے باعث یہ بعید از قیاس نہیں کہ چین بھارت سے جغرافیائی قربت کے تناظر میں مال کی خریداری کرے۔ وسطی ایشیا، چین پاکستان کی نسبت مال کی ترسیل درآمد و برآمد کے معاملے میں بھارت پاکستان کے بجائے براہ راست چین سے بیجنگ میں معاہدے کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔چین اس معاملے میں ایک ذمہ دار تجارتی حلیف کا کردار کرے گا۔
۴۔ مارکیٹ کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا اور طاقتور کرنسی نوٹ کی پیار کی طرح کوئی زبان نہیں ہوتی۔ان دنوں شدید عسکری تحفظات کے باوجود اگر بھارتی ماہرین مختلف حیلے بہانوں سے پنجاب اور سندھ کی فیکٹریوں میں ، بھینس کالونیوں اور سبزی منڈیوں میں ملازم ہیں تو بعید نہیں کہ چین کی یہ فیکٹریاں بھی بھارتی ماہرین کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کریں۔
۵۔بعید نہیں کہ ایران کے پاکستان میں ہمدرد عناصر اور خود پختون اور مقامی آبادی چینیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے الجھن محسوس کرے۔ ان کی دین سے بے گانگی، ہر شے میں اپنے مفاد کو مقامی مفادات پر فوقیت دینا۔ ایک گروپ پاکستان میں اب یہ اعتراضات بھی بہت شد و مد سے اٹھا رہا ہے کہ سی پیک کے سیٹلائیٹ پروجیکٹس میں چینی امداد کی بجائے پاکستانی سرمایہ کیوں لگایا جارہا ہے۔ یہ Booster Projects وہ ہیں جو سی پیک کی معاونت کرتے ہیں۔ وہ سر دست سی پیک کے لیے تو لازم ہیں ،پاکستان کے لیے ان کی فوری افادیت کوئی نہیں۔ ان منصوبوں کو اس وقت شروع کیے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔
یہ عوامل پاکستان اور چین کے تعلقات میں تناؤ کا باعث بنیں گے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی کا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات کے چیئرمین کے طور پرکل کا بیان سامنے رکھا جائے تو ان تمام عوامل کی مشترکہ جھلک دکھائی دیتی ہے۔ایک انگریزی اخبار نے( جس نے پچھلے دنوں سرکار میں بڑی لڑائی کرادی ہے) اس منصوبے کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد نو سے تشبیہ دی ہے۔
ان تمام افکار کے اقلیتی دعوے دار وں کے عین مخالف ایک گروپ اور ہے جس کے سب سے بڑے سرخیل تو خود ہمارے اپنے مودی جی ہیں۔ (جب سے وہ جاتی امرا میںVisa on Arrival پروگرام کے تحت اپنے کثیر التعداد وفد کے ساتھ ہمارے ہر دل عزیز وزیر اعظم سے پگڑی بدل کر گئے ہیں کوئی کم بخت پاکستانی ان کو غیر سمجھنے پر تیار ہی نہیں) ان کے موجودہ اور سابق عسکری ماہرین کی رائے شامل ہے۔ ہم اسے یہاں ورودھی دَّل (عسکریت پسندگروپ ) کہیں گے۔ یہ گروپ وہاں اکثریت میں ہے۔ان کے تحفظات کی فہرست ذرا طویل اور غور طلب ہے:
۱۔وہ یہ کہتے ہیں کہ چین میں ہر اس شے کو (سوائے ٹیبل کے )جس کی پشت آسمان کی جانب ہو چینی کھاجاتے ہیں لہذا بھارتی ماہرین کے لیے ان فیکٹریوں میں جگہ پانا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے اب امیتابھ کا ریکھا سے شادی کرنا۔ایسی سوچ رکھنے والوں کو وہ ذہنی مرگی کا شکار سمجھ کر حقیقت کا جوتا سنگھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔چینیوں سے کوئی کم طاقت والا دیش لابھ نہیں اٹھا سکتا۔انہیں سمجھنا اور ان سے فائدے اٹھانا تقریباً ناممکن ہے۔
۲۔ بھارت تجارت میں تو چین کی برتری کو تسلیم کرتا ہے مگر سن1963 کی جنگ میں ہزیمت کے باوجود دفاعی طور پر اسے اپنا ہم پلہ جانتا ہے۔اس کے تحفظات اس منصوبے کے حوالے سے دفاعی زیادہ ہیں۔ جس طرح آزاد کشمیر کو وہ Pakistan Occupied Kashmirکہتا ہے ۔اسی طرح وہ گلگت بلتستان کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ مانتا ہے وہ دن دور نہیں کہ مودی جی کسی دن پاکستان کو وہی پگڑی جو عالی جناب وزیر اعظم نواز شریف نے پہنائی ہے سر پر باندھ کر Pakistan Occupied Pakistan کہنے لگیں کیونکہ 1947 سے پہلے تو ہم مملکت ہند کا ایک حصہ ہی تھے۔بھارت کو اعتراض ہے کہ یہ شاہراہ اس کے علاقے گلگت سے کیوں گزرتی ہے۔
۳۔ بھارت کا 70 فی صد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ ہم اس سمندری حصے کو بحیرہ عرب کہتے ہیں اور وہ بحیرہ ہند۔ناموں کے اس ہیر پھیر میں وہ اپنی نیوی کے ذریعے ایران کی شراکت سے افریقا تک حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔گوادر میں چینی نیوی کی موجودگی اس کی تیل کی سپلائی کی لائن کاٹ سکتی ہے۔ یہ ایک طرح کا Strangle Hold ( گردن میں بازو ڈال کر بے قابو کرنے کا داؤ) ہوگا جس کا وقت پڑنے پر پاکستان زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔(جاری ہے )


متعلقہ خبریں


سپر پاورز خلا میں تسلط قائم نہ کرنے کا عہد کریں، چین وجود - جمعرات 12 مئی 2022

چین نے کہا ہے کہ سپر پاورز خلا میں تسلط قائم نہ کرنے کا عہد کریں۔ چینی ریڈیو کے مطابق چین کے سفیر برائے تخفیف اسلحہ لی سونگ کی قیادت میں چینی وفد نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے خلا کے لیے ذمہ دارانہ ضابطہ اخلاق کے اوپن ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت کی۔ سفیر لی سونگ نے خلا میں سلامتی ...

سپر پاورز خلا میں تسلط  قائم نہ کرنے کا عہد کریں، چین

چین پاکستان میں 37 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا،ایم او یو پر دستخط ہوگئے ایچ اے نقوی - هفته 23 ستمبر 2017

چین پاکستان میں مشترکہ منصوبوں میں37 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، اس حوالے سے گزشتہ روز ایک تقریب میںایم او یو پر دستخط کردئے گئے ہیں،اس معاہدے کے تحت چین کی مختلف کمپنیاں اپنی ٹیکسٹائل فیکٹریاں چین سے پنجاب منتقل کریں گی،اور اس عمل کے دوران پنجاب منتقل کی جانے والی ہ...

چین پاکستان میں 37 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا،ایم او یو پر دستخط ہوگئے

مودی کابینہ میں تین سال میں تیسری توسیع، نئے سوالات نے سر اُٹھا لیے! شہلا حیات نقوی - جمعه 08 ستمبر 2017

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو اپنی کابینہ میں توسیع کی ہے جس کے تحت 4 وزرا ء کو ترقی دے کر وزیر کابینہ بنایا گیا ہے جبکہ 9نئے وزرا ء نے حلف اٹھایا۔جن وزرا ء کے عہدے میں ترقی ہوئی ہے ان میں نائب وزیر دھرمیندر پردھان، پیوش گویل، مختار عباس نقوی اور نرملا سیتارمن شامل ہ...

مودی کابینہ میں تین سال میں تیسری توسیع، نئے سوالات نے سر اُٹھا لیے!

امریکی سینیٹ میں پاکستان کے ساتھ لالچ اور دباؤ کی دہری پالیسی کی تجویز ایچ اے نقوی - بدھ 02 اگست 2017

امریکی سینیٹ میں پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا دباؤ بڑھانے کے لیے لالچ اور دھمکی کی دہری حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکی سینیٹ نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تعلقات میں پابندیوں کی دھمکیوں اور طویل الم...

امریکی سینیٹ میں پاکستان کے ساتھ لالچ اور دباؤ کی دہری پالیسی کی تجویز

امریکا اورچین تجارتی خسارے پر کنٹرول کیلئے اقدامات پر متفق ہوگئے شہلا حیات نقوی - بدھ 26 جولائی 2017

امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ عالمی سطح پر ایک مثبت پیش رفت سامنے آئی جب امریکا اور عوامی جمہوریہ چین نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی خسارے پر کنٹرول کیلئے اقدامات پر اتفاق رائے کااعلان کیا، دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی عدم توازن اور ت...

امریکا اورچین تجارتی خسارے پر کنٹرول کیلئے اقدامات پر متفق ہوگئے

ہندوستان کے شاہی باورچی خانے وجود - جمعه 21 جولائی 2017

جب کبھی ہندوستان کے شاہی باورچی خانوں اور ان میں تیار کیے گئے شاہی پکوانوں کا ذکر ہوتا ہے تو لکھنؤ، حیدرآباد اور رام پور ہی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی حصوں کے شاہی باورچی خانوں کا ذکر شاذ و نادر ہی سننے یا پڑھنے میں آتا ہے۔جنوبی ہند کے راجا مہاراجہ بھی شمالی ہ...

ہندوستان کے شاہی باورچی خانے

بھارتی صدارتی انتخاب میں رام ناتھ کووند کی نامزدگی ہندو راشٹر کے قیام کی جانب پہلا قدم شہلا حیات نقوی - اتوار 16 جولائی 2017

بھارت میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے گہماگہمی شروع ہوچکی ہے،حکمران بھاریہ جنتا پارٹی کی حزب اختلاف کی جماعتوں کو ساتھ ملانے اور متفقہ صدر لانے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ۔ اس طرح اب پیر17جولائی کوبھارت کے نئے صدر کا انتخاب ہوگا۔بھارت کا یہ صدارتی انتخاب کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حا...

بھارتی صدارتی انتخاب میں رام ناتھ کووند کی نامزدگی ہندو راشٹر کے قیام کی جانب پہلا قدم

بھارت سی پیک کواتھل پتھل کرنے کی سازشوں میں مصروف ! وجود - اتوار 02 جولائی 2017

چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے خطے میں تجارتی روابط قائم کرنے کی بھارتی کوششوں کو ’جغرافیائی سیاسی ضد‘ قرار دیتے ہوئے نئی دہلی پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو مکمل طور پر بائی پاس کرنے کے بجائے اس سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بحال کرے۔ گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم...

بھارت سی پیک کواتھل پتھل کرنے کی سازشوں میں مصروف !

پرتھوی میزائل کا ایک اورتجربہ ‘بھارت دنیا کو ایٹمی تباہ کاری میں جھونکے میں کوشاں وجود - جمعه 23 جون 2017

بھارت نے گزشتہ روز ایک اور پرتھوی میزائل کا تجربہ کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ بھارتی حکمراں اس خطے کو اسلحہ کی دوڑ کامرکز بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور بھارتی حکمراں ہر حال میں اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ بھارتی فوجی ماہرین اور خود بھارتی فوج کے سربراہ جنرل را...

پرتھوی میزائل کا ایک اورتجربہ ‘بھارت دنیا کو ایٹمی تباہ کاری میں جھونکے میں کوشاں

کیاایٹمی ہتھیارپاک بھارت جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لیے بھی مؤثر ہیں؟؟ وجود - هفته 17 جون 2017

دنیا کے جن ممالک نے جوہری ہتھیار بنائے، اْن کا جواز یہی رہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے جوہری ہتھیاروں کے حامل مخالف ممالک کے ساتھ جنگ کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ عرف عام میں اسے نیوکلیئر ڈیٹرنس کہا جاتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔ مثلاً جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک برطانیہ او...

کیاایٹمی ہتھیارپاک بھارت جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لیے بھی مؤثر ہیں؟؟

گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟ وجود - جمعه 02 جون 2017

گوادر کی بندرگاہ تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے، لیکن یہاں کے مچھیروں کو گھر بار اور ذریعہ معاش چھن جانے کا خوف ہے۔بندرگاہ پر کوئی 20کلومیٹر پر واقع گوادر کے مقابلے میں کافی سناٹا ہے، جہاں گہرے پانیوں کی چین کے تعاون سے بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے، جس کے بارے میں کہا جات...

گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟

سی پیک پر رکاوٹ ڈالنے کے بھارتی منصوبے میں تیزی وجود - اتوار 28 مئی 2017

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بچھائے ہوئے جاسوسی اور تخریب کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد تیزہوتا محسوس ہورہاہے اور کلبھوشن کے تنخوا ہ دار بھارتی ایجنٹوں نے اب کلبھوشن کو سزا سے بچانے اور حکومت پاکستان کو اسے رہا کرکے بھارت کے حوالے کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تخریب کاری کی نئی حکمت ...

سی پیک پر رکاوٹ ڈالنے کے بھارتی منصوبے میں تیزی

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر