وجود

... loading ...

وجود

شکریہ ابصار عالم

جمعرات 20 اکتوبر 2016 شکریہ ابصار عالم

آج کل کوئی بھی پاکستانی ایف ایم ریڈیو آن کریں تو اس کی آواز کانوں میں پڑتے ہی ایک خوشگوارسی حیرت ہوتی ہے ، کیوں کہ وہاں پر گھٹیا قسم کے (جنسی اور ذو معنی) ساؤتھ انڈیا گانے نہیں بلکہ پاکستانی گانے او ر میوزک چل رہا ہوتا ہے ۔ چوں کہ ہم بھارت کی نقل کی (یا مقابلہ) کی رو میں بہتے ہوئے اب مقامی طور پر اسی طرح کے گانے ہی پروڈیوس کر رہے ہیں، اس لیے آج کل ریڈیو پر ہمیں گزشتہ صدی کی اسی اور نوے کے دہائی کے گانے ہی سننے کو ملتے ہیں جب کہ موجودہ صدی کے گانے توخال ہی ملتے ہیں۔ ہم یہ قطعاً نہیں کہہ رہے کہ پاکستانی گانے سے مراد یہ ہے کہ آپ استاد امانت علی خان، فتح علی خان کی ٹھمریاں یا غزلیں لگا ئیں یا پھر اقبال بانو یا عابدہ پروین یا نسیم بیگم کے نغمات چلائیں ، لیکن اس صدی کے ان پہلے سولہ سالوں میں کیا پاکستانی میوزک انڈسٹری میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوا؟ کیا شازیہ منظور، فریحہ پرویز، صنم ماروی ، حمیرا ارشد، سارہ رضا اور سب سے بڑھ کر نصیبو لال نے کوئی کام نہیں کیا؟ کیا راحت فتح علی خان، سجاد علی، شہزاد رائے اور عاطف ظفر نے کوئی کام نہیں کیا ہوگا؟ لگتا ہے کہ گزشتہ صدی کے پرانے پاکستانی گانے نئی نسل کے لیے چلاکر ہمارے ریڈیو پروڈیوسر پیمرا کے خلاف ایک خاموش احتجاج کر رہے ہیں۔
لیکن اس سب کام کے لیے ہمیں بھارتی وزیر اعظم جناب نریندرا مودی صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کی سربراہی میں سیکولر اور لبرل بھارت میں حکمران ہندو ’’جہادی‘‘ گروہ ’جن سنگھ ‘ کے سنگھ پریوار کی سیاسی شاخ ’بھارتیہ جتنا پارٹی ‘ نے پورے بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی بھارتی فلموں کی نمائش پر عوام کی پرزور فرمائش پرپابندی لگوائی اور یوں ہماری سرکار کو موقع ملا کہ وہ پاکستانی میڈیا پر اندھا دھند چلنے والے بھارتی گانوں، ڈراموں اور فلموں کے بارے میں کچھ سوچ سکے۔ یاد رہے کہ پاکستانی میڈیا پر بھارتی فلموں ، گانوں اور ڈراموں کی یہ مادر پدر آزادی بہادر کمانڈو جناب جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔ کچھ ستم ظریفوں کی اطلاع کے مطابق آئی ایس پی آر کے زیر انتظام پیمرا کے لائسنس کے بغیر چلنے والا سب سے بڑا ریڈیو نیٹ ورک ابھی تک بھارتی نغمے چلا رہا ہے۔ لیکن جب ہم نے چیک کیا تو پتا چلا کہ وہاں پر ایسے پروگرام تو ضرور چل رہے ہیں جو یورپ میں بھی رات بارہ بجے کے بعد چلائے جاتے ہیں لیکن بھارتی نغمات نہیں تھے۔
چلیں اسی بہانے ہماری نئی نسل کو یہ پتہ چلنے کے امکانات پید ا ہوئے ہیں کہ وہ جان سکیں کہ اہلِ پاکستان کے پاس بھی سازو آواز کی دنیا کی کچھ نامور اور تابندہ آوازیں ہوا کرتی تھیں۔ گزشتہ چھ سال کے عرصے کے دوران دو عدد ریڈیو اسٹیشن لگوانے اور چلوانے کے تجربے سے گزرنے کے دوران سب سے زیادہ نازک اور قابلِ رحم مرحلہ وہ ہوا کرتا تھا جب کوئی بھی نو آموز گلوکار آ کر منت سماجت کرتا کہ اُس کا نیا گانا ہم کسی پروگرام میں چلا دیں اور کوئی بھی ریڈیو میزبان اس امر کے لیے تیار نہ ہوا کرتا کہ اس نو آموز پاکستانی گلوکار کو چلانے سے اس کے پروگرام کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔
ویسے ریڈیو میزبان (جوکیز) کی شکل میں ہم نے ایک عجیب و غریب نسل بھی دیکھی جن کی ’’انگریزی کمزور تھی اور اردو نہیں آتی تھی‘‘ اور وہ پھر بھی پاکستان کے ایف ایم ریڈیوز پر پروگرام کرنے پر مُصر ہوتے تھے۔ اور نہ صرف پروگرام کرتے بلکہ بڑے ہِٹ ہوتے اور یہاں سے وہ کسی ٹی وی پروگرام کی میزبانی بھی پکڑ لیتے۔اسٹوڈیو میں بیٹھتے ہی گوگل کر کے دنیا بھر کی معلومات کو چبانے پر آمادہ۔ چوں کہ پاکستانی معاشرے کی بنیادی اور مثبت معلومات آن لائن ہیں نہیں اور ہمارے ملک کے بارے میں جو کچھ آن لائن دستیاب ہے وہ گل مکئی (ملالہ)، مختاراں مائی اور متیرا کی داستانیں ہی ہیں، تو ان کو چبا چبا کر ان ریڈیو جوکیز نے ایک پوری نسل تیار کر دی ہے جنہیں پاکستانی ہونے پر بہت پچھتاوا ہے۔ ان جاہل ریڈیو میزبانوں کا بہت بڑا حصہ تھا جو بھارتی سازوں، سازندوں اور گلوکاروں کی پرستش کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والے کو ’پینڈو‘ خیال کرتے ہیں۔
خاکسار کو اس محاذ پر اپنی شکست تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں ان دو درجن سے زائد مخلوق کے اذہان سے شکست خوردی اور احساسِ کمتری کو ختم نہ کر سکا جنہیں کوک اسٹوڈیو والی ’مومنہ مستحسن ‘ بھی اس لیے اچھی لگتی ہے کہ بھارت سے اس بچی کے بارے میں ’شبھ شبھ‘ کمنٹس آتے ہیں۔ یہ کیسے اذہان ہم نے بنا ڈالے ہیں۔ لیکن اپنی کیبلز پر دن رات بھارتی فلمیں اور گانے سن کر جوان ہونے والے نسل کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ چلتے چلتے بات اب یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ پنجاب حکومت کے زیراہتمام چلنے والے ریڈیو پر بھارتی پنجاب کے گلوکاروں کے گانوں کے پروگرام نشر ہونے لگ گئے جب کہ قومی ادارہ ریڈیو پاکستان بھی اس سے اپنا دامن نہ بچا سکا۔
ان سب ’ٹرولز‘ کے سامنے ہم نے ایک دوسری انتہا کا تجربہ کیا ایک ایسا ریڈیو پروگرام کیا جائے کہ جس میں اس معاشرے، اس کی معاشرت، معیشت اور اقدار کی باتیں ہوں۔ یقین کریں کہ ناقابلِ یقین مقبولیت ملی ۔ ہمارا پروگرام ’دادا پوتا شو‘ سنے بغیر اب بھی ہزاروں لوگوں کا دن نہیں گزرتا۔ لیکن اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ منہ اٹھا کر گھر سے آئے، اسٹوڈیو میں بیٹھ کر کسی ’بھٹکے‘ ہوئے بزرگ کو فون کیا کہ ’سر آج کا موضوع کیا رکھیں؟‘ اور اس نے جو بتایا تو انتہائی لجاجت سے کہا کہ ’’سر اس پر کچھ فرما دیں‘‘۔ بس اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے ،ہر کال کرنے والا اپنی طرف سے ’حسن نثار‘ ہی بنا ہوتا ہے اور حتمی نکتہ یہ کہ ’یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار سیاستدان ہیں‘۔
اس شکست خوردہ ذہنیت کا کوئی علاج نہیں اس کا علاج یہی ہے کہ اس کو نظر انداز کیا جائے اور ان سے اگلی نسل میں کوئی مثبت سوچ ڈالنے کی کوشش کی جائے جو پچھلے بیس سالوں میں اس کے دماغوں میں انڈیل دی گئی ہے۔ اندازہ کریں کہ ریڈیو قائم کرنے کے بیس سال بعد ہمیں خیال آیا ہے کہ اس پے جو کچھ نشر ہوتا ہے اس کو کچھ ریگولیٹ کیا جائے۔ ان بیس سالوں میں ، قانون کی صریحاً خلاف ورزی میں، ہمارے ملک میں چلنے والے ریڈیو چین، امریکا ، بھارت اور دیگر ممالک سے چلائے جانے لگے ہیں۔
بیس سال قبل 1996میں جب پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس وقت کے مردِ اول جناب آصف علی زرداری کو ایک سادہ خط کے ذریعے اس ملک میں پہلا ایف ایم ریڈیو چلانے کا اجازت نامہ دیا اور ایف ایم 100 ہواؤں کے دوش پر گیا تو اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی بھارتی گانا چلا سکے تا آن کہ لاہور سے ایک ٹیکسٹائل مل مالک نے ایف ایم 103 جاری کیا جو بھارتی میوزک کے حوالے سے تمام حدود و قیود پار کر گیا۔ ان صاحب نے ٹیکسٹائل مل بند کر دی اور سارا زور اس ریڈیو کو پھیلانے پر لگا دیا کیوں کہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری والے ریڈیو میں ان کی اربوں روپے والی مل سے زیادہ منافع تھا۔ پھر اس سارے منظر نامے کی انتہا سونے کے تاجروں کا وہ ایف ایم 106.2 تھا جس کا مکمل کنٹرول دبئی میں ہے اور جو صرف میوزک ہی چلاتا تھا اور اس کی گانوں کی فہرستیں تک وہیں سے بن کر آن لائن ٹرانسفر ہوتی رہی ہیں۔
ہم نے پاکستانی ریڈیو کا یہ رونا ہر پلیٹ فارم پر رویا اور جب جناب ہمارے ابصار عالم چیئرمین پیمرا بنے تو ان کے سامنے بھی یہی دکھڑا رویا۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس عہدے پر لات مار دیں گے۔ لات تو انہوں نے اب بھی ماری ہے لیکن بالکل صحیح جگہوں پر اور اس کے نتیجے میں ان پر جو تبریٰ ہو رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
حکومتی اداروں سے ویسے تو کوئی اچھا کام ہوتا نہیں لیکن اگر ہو جائے تو ہم جیسے دانشور اپنی نام نہاد ’غیر جانبداری‘ کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے کسی اقدام کی تعریف یا حمایت کرنے سے احتراز کرتے ہیں کہ کوئی اعلیٰ عہدہ، مفاد یا لفافہ لیے بغیر حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف بھی گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی پر ’’شکریہ ابصارعالم ‘‘ تو کہنا بنتا ہے۔ اللہ کرے اب وہ موقف پر قائم رہیں ۔


متعلقہ خبریں


جیسے کو تیسا؟ وجود - بدھ 19 اکتوبر 2016

ابھی چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا ذکر چھوڑیں۔بات طرزِ فکر کی ہے۔ ہم سوچتے کیسے ہیں؟ ایک قوم کی اپنی اجزائے ترکیبی ہوتی ہے۔ انسانی نسلوں پر ہی کیا موقوف حیوانوں میں بھی کچھ الگ گروہ ہوتے ہیں جن کی عادتیں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ وہ اپنے اپنے ماحول میں زندگی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ا...

جیسے کو تیسا؟

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر