... loading ...
تاریخ گواہ ہے کہ مزاحمت دو طریقوں سے کی جاتی ہے ،عسکری جدوجہداور غیر متشدد انہ طریقہ کار کے ذریعے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر اور ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس آزادی کے حصول کے لیے دونوں طریقہ ہائے کار کو جائز سمجھتے ہیں۔کشمیر ی عوام اپنی آزادی کیلیے دونوں طریقے آزما رہے ہیں ۔کشمیری عوام نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے تاریخ کے ہر دور میں نسل در نسل جدوجہد کی ۔اس جدوجہد میں ہر وہ ظلم سہااور ہر وہ قربانی دی جو ایسے راستوں کا انتخاب کرنے والوں کا مقدر ہوتی ہے۔1947 سے آج تک کشمیر کے عقوبت خانوں اور جیلوں کی دیواریں ایسے بے شمار دیوانوں پر بیتنے والے سلوک کی خاموش گواہ ہیں۔ان دیواروں کے پیچھے ساٹھ برس سے آزادی کے متوالوں کے ساتھ تعزیر کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے ،اس کا ایک فیصد بھی کبھی باہر نہیں آیا۔کیونکہ اول تو جو اس مقتل میں گیا اپنے قدموں پر واپس نہیں آیا ،کوئی خوش نصیب باہر آیا اور اپنی داستان بیان کی بھی تو دنیا نے اس درد کو یا تو سنا ہی نہیں یا سن کر اُڑا دیا۔اس لیے کشمیر کے بیٹوں نے عقوبت خانوں اور جیلوں میں اپنے اقراری جرم یعنی آزادی کی کیا قیمت چکائی اس کا اندازہ دنیا کو پوری طرح نہیں۔
اسی طرح 1947 سے آج تک کشمیر کی کتنی ہی نسلوں نے ظلم کے پنجے سے نکل کر آزاد فضاؤں میں سانس لینے کی خاطر اپنی جنت کو چھوڑکر بیرونی دنیا میں اس امید پر بسیرا کیا کہ جب کشمیر آزاد ہوگا تو وہ شاداں و فرحاں اپنی جنت کو لوٹ جائیں گے لیکن یہ مرحلہ نہ آیا اور ان جلاوطنوں کا عذاب بھی طویل ہوتا چلا گیا۔یوں کشمیریوں کی کئی نسلیں مہاجرت وجلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی رہیں۔اس المیے سے ایک اور داستان نے جنم لیا جو منقسم خاندانوں کی داستان ہے۔
قربانی کی ایک اور شکل جان کی قربانی ہے ۔دنیا کا سارا گورکھ دھنداانسان نے محض اپنی زندگی کو با سہولت اور پر آسائش بنانے کے لیے سجا رکھا ہے ۔لیکن بہت سے دیوانے ایسے ہوتے ہیں جو جان جیسی قیمتی متاع کو اپنے اعلیٰ مقاصد کے آگے ہیچ سمجھتے ہیں اور اعلیٰ مقصد کی خاطر جان کی قربانی سے بھی گریز نہیں کرتے۔کشمیر کی تحریک آزادی میں کئی نسلوں سے دیوانوں کی ایسی کھیپ موجود رہی جن کے لیے حیات سے زیادہ مقصدِ حیات اہم تھا۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کشمیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے سروں کے نذرانے پیش کیے۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ 26 برس کے عرصے میں کشمیر کے طول و عرض میں سات سو سے زیادہ مزار شہدا آباد کردیے۔ہر گاؤں اور ہر قصبے میں ایک نہیں کئی کئی مزار شہدا اس بات کے گواہ ہیں کہ کشمیری نوجوان قربانی دینے کے اس انتہائی جذبے سے سرشار ہیں۔گمنام قبروں میں آسودۂ خاک لا کھوں لوگوں کی داستانیں قربانی کی ایک اور کہانی سنا رہی ہیں۔
8جولائی سے جاری جدوجہد پر ہی طائرانہ نگاہ ڈال دیں ۔صرف 101دنوں میں،100سے زائد شہید ،1000معصوم انسانوں کی آنکھیں کلی یا جزوی طور پر متاثر،15000 سے زائد افرد زخمی ،15000کے قریب افراد گرفتار ، لیکن عزمِ آزادی برقرار ہے ۔ اس جدوجہد کی رفتار میں کمی آسکتی ہے،یہ داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہو سکتی ہے لیکن اسے ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔کیونکہ اس کے ساتھ تاریخ وابستہ ہو کر رہ گئی ہے ۔جواں سال حزب کمانڈر کی شہادت کے بعد اس تحریک نے بھارت کو مسلح جدوجہد سے بھی زیادہ ٹف ٹائم دیا ہے، عوام کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا ہے۔امن کے مصنوعی بند خس و خاشاک کی مانند بہتے چلے گئے ہیں۔وقت کے میر جعفروں اور میر صادقوں کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں ۔
شیخ عبد اللہ نے کشمیر سودا بازی ایکارڈ کے بعد اپنی طرف اٹھنے والی پر امن آوازوں کو خاموش کرنے کیلیے پبلک سیفٹی ایکٹ کا سہارا لیا۔اسی طرح ان کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اور بعد میں آنے والے ریاستی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ نے کشمیریوں کی مزاحمت کو ختم کرنے کیلیے ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ،نیشنل سیکورٹی ایکٹ،ٹاڈا،پوٹااور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورایکٹ جیسے کالے قوانین نافذ کیے۔لیکن صورتحال میں بہتری آنے کے بجائے بھارت کے خلاف کشمیریوں کی نفرت میں اضافہ ہوا۔1947 میں سری نگر میں صرف ایک مزارِ شہداء تھا، جس میں 1931کے شہداء دفن ہیں ،ان شہداء نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد نہیں ہونے دیا۔آج ریاست میں 700سے زائد مزار شہداء ہیں،ہزاروں بے نام قبریں ہیں، دس ہزار سے زائد لاپتا افراد ہیں ،ہزاروں عفت مآب خواتین کے ساتھ بھارتی فورسز کے دست درازیوں کے واقعات ہیں۔کو ئی گھر ایسا نہیں جس نے بھارتی مظالم کا کسی نہ کسی شکل میں سامنا کیا ہو ، وہاں یہ سوچنا اور یہ تصور کرنا کہ بھارتی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور ان کے فوجی قبضے کی موجودگی میں ،کشمیری عوام سکون و اطمینان سے رہیں گے،ایں خیال است و محال است و جنوں۔
2008 تا2010 اور اب 2016میں کشمیریوں کی تیسری نسل نے یہ ثابت کیا کہ ان کے خون میں تحریک آزادی سرایت کرچکی ہے۔
کشمیر کی تحریک کب اپنے منطقی انجام سے دوچار ہو گی ؟ سوال یہ نہیں !!! اصل معاملہ یہ ہے کہ کشمیری عوام اس جدوجہد کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور اس مقصد کی خاطر ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے آمادہ وتیار ہیں۔جس قوم کی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں اپنے پیاروں کی قربانیوں پر ماتم گساری کی بجائے فخر کرنے لگیں وہ قوم جلد یا بدیر اپنی منزل مقصود پا لیتی ہے۔بزور طاقت قبرستان والی خموشی قائم کرکے امن قائم نہیں کیا جاسکتا ۔اس خطے میں تب تک امن قائم نہیں ہوسکتا ،جب تک کشمیری عوام کی رائے کے عین مطا بق انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ورنہ ایک معمولی چنگاری بھی پورے ساؤتھ ایشیا کے خرمن امن کو پل بھر میں راکھ کرسکتی ہے ۔اللہ رحم فرمائے۔
1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام اور ریاستی اسمبلی میں اس کی شرکت کا واحد مقصد یہ تھا کہ آئینی اور پرامن ذرائع استعمال کرکے بھارت کو با عزت طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف راغب کیا جاسکے ۔اس اتحاد میں ریاست کی تمام آزادی پسند تنظیمیں یا ان سے وابستہ افراد شا مل تھے ۔تاریخ سا...
ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...
ایسے وقت میں جب کشمیریوں کی جد وجہد آزادی ایک حساس دور میں داخل ہو رہی ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جنگ کی سرحدوں کو چھو رہی ہے ۔ قوم کی جانب سے اتحاد و یک جہتی اور آزادی کے لیے بے مثال قربانیوں کی داستانِ خونچکاں رقم کرنے والوں کی پشتیبانی جرات مندانہ انداز میں کرنے...