... loading ...
قومی اسمبلی کے مالی معاملات میں 10 کروڑ 10 لاکھ روپے کی بے قاعدگیاں
پاکستان میں گزشتہ 6عشروں سے کرپشن پھل پھول رہی ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد بیوروکریٹس کے ایک چھوٹے سے ٹولے اور ان کے تاجر دوستوں نے کرپشن کو ہوا دی، لیکن اس وقت تک بھی کرپشن ایک حد میں تھی، گزشتہ ایک عشرے کے دوران یا یوں کہئے کہ 2002 میں پرویز مشرف کے سیاسی وجمہوری دور میں کرپشن کو فروغ ملا جبکہ زرداری کے 5سالہ دور میں تو یہ تمام حدود پار کرگئی۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ عوام کرپشن کے ذریعے دولت جمع کرنے اور اسے ادارہ جاتی شکل دینے کے اس عمل کو خاموشی سے نہ صرف برداشت کررہے ہیں بلکہ اس سے بالکل بے پروا ہیں۔
جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے اور خود کو عوام کاخادم ظاہر کرنے والے عوام کی خون پسینے کی کمائی او ر محدود وسائل کو کس بیدردری سے لوٹ رہے ہیں اس کا اندازہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی جانب سے گزشتہ مالی سال اور اس سے پہلے کے سالوں کے قومی اسمبلی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد جاری کی جانے والی رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے ،آڈیٹر جنرل کی اس رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے حسابات کی جانچ پڑتال کے نتیجے میں مالی معاملات میں تقریباً 10 کروڑ 10 لاکھ روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔
رشوت نے اس ملک کے قانونی نظام کو بھی کرپٹ کردیاہے جس کی وجہ سے سرکاری حکام سزاؤں سے بچ نکلتے ہیں،اور اب بھی اقتدار کی غلام گردشوں پر حاوی ہیں، قانون کی حکمرانی کیلیے ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے ،لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا مجرم اپنے پیچھے ثبوت چھوڑ جاتے ہیں کہ انھیں پکڑ لیاجائے؟اور پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن کے بارے میں ثبوت مل گئے ان کا کیاہوا؟ پاکستان اور خاص طورپر سندھ میں تجارتی مفادات کو تحفظ دینے اور مخصوص مفادات کے حصول کیلیے جب بھی ضرورت ہوتی ہے تشدد سے کام لیاجاتاہے۔جرائم پیشہ عناصر قانون کے نام پر ،جمہوریت کے نام پر کارروائیاں کرتے ہیں اور اس میں ان کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مکمل حمایت اورپشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ کیا یہ گھناؤنے کام کرنے کیلیے سرکاری مشینری کو استعمال کرنا قانونی طورپر درست ہے؟ سندھ میں اس کا بے محابہ استعمال جمہوریت کی صریح بے حرمتی ہے۔
ہمارے منتخب نمائندے اور ان کے بیوروکریٹ ساتھی اب مجرموں کو سزا سے بچانے کیلیے ان کی کھل کر سپورٹ کرنے کے درپے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف تحقیقات میں رخنہ اندازی اس عمل کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ لوٹی ہوئی دولت کو اثاثوں میں منتقل کیاجارہاہے اور پولیس موبائلوں اور پولیس اہلکاروں کی تعداد طاقت اور اقتدار کی علامت بن چکی ہے۔ جو ان کے سماجی رتبے میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس صورت حال کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس غیر محدود مالیاتی ذرائع سے یہ لوگ الیکشنز خریدتے ہیں اور مستقبل میں جمہوریت کے نام پر طاقت کااستعمال کرتے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق چار ارکان قومی اسمبلی نے بیرون ملک علاج پر ایک کروڑ 26 لاکھ روپے خرچ کیے، تین ارکان اسمبلی نے نجی اسپتالوں میں علاج کے حوالے سے خرچ کی گئی رقم بلا جواز واپس حاصل کی جبکہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے کئی ارکان اسمبلی کو ہاؤس الاؤنس کی مد میں ناجائز طور پر 8 کروڑ 68 لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کی۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق سابق اسپیکر قومی اسمبلیڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ’ناجائز طور پر بیرون ملک علاج پر آنے والے اخراجات کی رقم واپس مانگی‘۔رپورٹ کے مطابق 1996 میں کابینہ ڈویژن نے فیصلہ کیا تھا کہ اب سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے کی سہولت کو ختم ہونا چاہیے جس کے بعد 2 فروری 1997 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کے حکومتی خرچ پر علاج کے انتظامات کرنے کی پالیسی ختم کردی گئی تھی۔
آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے 6 اگست 2012 کو بیان جاری ہو اکہ ’اس وقت کی اسپیکر قومی اسمبلی نے مطلع کیا کہ ان کے امریکا میں قیام کے دوران کچھ طبی مسائل پیدا ہوگئے جس کے لیے فوری سرجری کی ضرورت تھی لہٰذا وزیر اعظم واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو یہ ہدایات جاری کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں کہ وہ ہسپتال کو ادائیگی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔اس کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے ہیوسٹن میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان کو 27 لاکھ 40 ہزار روپے وزارت برائے خارجہ امور کے چیف اکاؤنٹس آفیسر کے ذریعے ادا کیے‘۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ ادائیگی ماضی میں کیے گئے کابینہ ڈویژن کے فیصلے اور وزیر اعظم کی ہدایات کی خلاف ورزی تھی۔جب اس حوالے سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں کینسر کا عارضہ لاحق تھا اور جب وہ اسپیکر کے عہدے پر تھیں تو علاج پر آنے والے تمام اخراجات خود برداشت کیے۔تاہم انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ’ممکن ہے جب میں بیرون ملک تھی تو حکومت نے بھی میرے علاج پر کچھ پیسے خرچ کیے ہوں اور پانچ سال تک اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر رہتے ہوئے مجھ پر کسی قسم کے الزامات نہیں لگے‘۔فہمیدہ مرزا کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اب تک آڈٹ رپورٹ نہیں پڑھی لہٰذا اس معاملے پر مزید تبصرہ نہیں کرسکوں گی‘۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دسمبر 2011 میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کی رکن اسمبلی بشریٰ رحمٰن کو 43 لاکھ روپے ادا کیے گئے جب امریکا میں انہیں اچانک بائی پاس سرجری کرانی پڑی تھی۔رپورٹ کے مطابق بشریٰ رحمٰن نے وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ بیرون ملک علاج پر خرچ ہونے والی رقم واپس کی جائے اور اس وقت وزارت صحت نے 43 لاکھ روپے کی ادائیگی کے لیے سمری وزیر اعظم کو بھجوائی تھی جس پر وزیر اعظم نے دستخط کردیے تھے۔آڈٹ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ وزارت نے غیر قانونی طور پر یہ سمری وزیر اعظم کو بھیجی اور سفارش کی کہ ’اس معاملے کی مناسب طریقے سے چھان بین کی جاسکتی ہے‘۔اسی طرح تیسری غیر قانونی ادائیگی لندن میں آنکھ کے علاج کرانے والے رکن اسمبلی شہزادہ معین الدین کو 28 لاکھ 60 ہزار روپے کی گئی۔شہزادہ معین الدین چترال کے اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور میں وزیر مملکت برائے سیاحت کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر امور اور گلگت بلتستان کے چیئر میں بھی رہے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں بھی کی جانے والی ادائیگی کابینہ اور وزیر اعظم کے فیصلوں کے خلاف کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2011 میں ق لیگ کی سابق رکن اسمبلی بیگم شہناز شیخ کو 27 لاکھ روپے امریکا میں ریڑھ کی ہڈی کے علاج کے لیے دیے گئے۔آڈٹ کے مطابق شہناز شیخ سرکاری خرچ پر علاج کرنے کا حق نہیں رکھتی تھیں اور انہیں دوہری شہریت رکھنے پر سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل بھی قرار دیا گیا تھا۔قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے 2 نومبر 2012 کو سابق رکن اسمبلی شہناز شیخ سے کہا کہ وہ ادا کی گئی رقم واپس کریں کیوں کہ سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا ہے تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ رقم شہناز شیخ سے واپس لے کر حکومتی خزانے میں جمع کرائی جائے۔
رپورٹ کے مطابق ارکان اسمبلی صاحبزادہ سید مرتضیٰ امین، عبدالوسیم اور کشور زہرہ نے بھی غلط طریقے سے نجی اسپتال میں علاج پر خرچ ہونے والے رقم واپس حاصل کی۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان ارکان اسمبلی کو 16 لاکھ 70 ہزار روپے واپس کیے گئے حالانکہ انہوں نے پاکستان میں غیر مجاز طبی اداروں سے علاج کرایا تھا۔
ہاؤسنگ الاؤنس کی مد میں 8 کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار روپے کی ناجائز ادائیگیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے یہ رقم ارکان اسمبلی کو 14۔2013 کے دوران ادا کی۔آڈٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہاؤسنگ الاؤنسز ان ارکان اسمبلی کو ادا کیے گئے جنہیں پہلے ہی فیڈرل لاجز میں فرنشڈ رہاش گاہ الاٹ کی جاچکی تھی۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ پارلیمنٹ لاجز کا قیام 1974 کے ممبر آف پارلیمنٹ (سیلریز اینڈ الاٗونسز) ایکٹ کے نفاذ کے بعد عمل میں آیا اور موجودہ قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں جس میں ان ارکان پارلیمنٹ کو ہاؤسنگ الاؤنس جاری کرنے کی بات کی گئی ہو جنہیں پہلے ہی پارلیمنٹ لاجز میں گھر الاٹ کی جاچکے ہیں۔آڈٹ میں ہاؤسنگ الاؤنس کی مد میں فیڈرل لاجز میں گھر رکھنے والے ارکان اسمبلی کو جاری کی جانے والی رقم کو قانون کی ’خلاف ورزی‘ قرار دیا اور سفارش کی کہ ان سے 8 کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار روپے واپس لیے جائیں۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ رقم واپس کون لے گا ، اس حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں ، عوام کس سے فریاد کریں گے ، اور کون قومی خزانے کو بیدردری سے لوٹنے والے ان لوگوں کو دوبارہ کم ازکم انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکے گا۔
پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...
وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...
واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...
حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...
کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...
ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...
اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...
ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...
قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...
8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...
عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...