... loading ...
تپتی ہوئی جولائی کی دوپہر میں جب مشرق وسطیٰ کے ریگ زاروں میں چیل بھی انڈا چھوڑ دیتی ہے ہمارا پاکستانی محنت کش بھاری بھرکم بوجھ کمر پر لادے پیٹرو ڈالر کے خزانوں سے اپنے لیے کچرا چن رہا ہوتا ہے۔یہ کچرا بھی اس کے لیے بہت ہے۔پیچھے وہ غربت کی آگ کی ایک جلتی چتاچھوڑکر آیا ہے اور اس کی آگ کو محنت سے کمائے گئے ان ریالوں درہم سے حاصل کی گئی آسودگی کی یہی ایک موہوم سی لہر بجھاسکتی ہے۔وزیرستان کے محسود اور وزیر نوجوان پہاڑی کی چوٹی پر شیشے کی ایک چھوٹی سی بوتل رکھتے اور نیچے سے اپنی بندوق سے نشانا لے کر اس کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ویسے بھی یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کسی انگریز فوجی نے کہا تھا کہ یہ اسی وقت امن سے ہوتے ہیں جب یہ حالت جنگ میں ہوں۔
ساتھ والے بنگلے میں ماسی صفوراں کام کرتی ہے۔ محلے کے بچوں کو جانے کیسے پتہ لگ گیا ہے کہ ماسی صفوراں کو ہندوستانی ڈرامے اور فلمیں بہت پسند ہیں۔ جب اس نے سلمان خان کی فلم دبنگ دیکھی تو وہ اداکارہ سوناکشی سنہا کی بہت بڑی فین بن گئی تھی۔ اسی کے انداز بھی کاپی کرنے لگی تھی۔ اس نے یہ بھی پیش گوئی کردی تھی کہ دیکھنا یہ دبنگ ٹو بھی بنائے گا اور وہ بھی ہٹ ہوگی۔ ہندوستانی فلموں اور ڈراموں کے ہڑُکے کی وجہ سے بچے اسے ماسی چپو رام کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ماسی صفوراں کا قد پانچ فٹ دس انچ ہے،کلائی پکڑ لے تو پولیس والے بھی نہیں چھڑاسکتے۔ اس کے سسر نے اُس پر ایک دفعہ ہاتھ اٹھایا تو اس نے احمد پور شرقیہ کے اس ہتھ چھُٹ مرد کو ایسا جھٹکا دیا کہ اس کو سلپ ڈسک ہوگیا۔دنگا دلیری کی ماہر اس خاتون کی پاکستان میں کوئی قدر نہیں۔نہ ہی ہم نے وزن اٹھانے والے، نشانہ بازوں کو کسی شمار قطار میں رکھا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک جرمن کپتان اس وقت حیرت سے چیخ اٹھا جب اس نے اپنے بحری جہاز سے ایک پختون بوڑھے کو اپنی کمر پر بڑے سائز کا ریفریجرٹر نیچے لے جاتے ہوئے دیکھا۔
آپ نے یہ تفصیلات اگر غور سے پڑھی ہیں تو ہم نے اب تک وزن اٹھانے، نشانہ بازی اور کشتی کی بات کی ہے۔ان تینوں کھیلوں کے اولمپک مقابلوں میں بالترتیب پندرہ، اٹھارہ اور پندرہ گولڈ میڈل ہوتے ہیں یعنی کل ملا کر اڑتالیس۔ سونے کے ان تمغوں کے لیے جب امریکا اپنے کھلاڑیوں کی تربیت کررہا ہوتا ہے تو انہیں Motiviation Gurus یہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ آپ چاندی کا تمغہ نہیں جیتتے بلکہ سونے کا تمغہ کھودیتے ہیں جب کہ ہم ہاکی کے ایک گولڈ میڈل کی ٹمٹاتی ، شکستہ آرزو لیے بیس سے پچیس مردوں کو ادھر سے ادھر بھگا رہے ہوتے ہیں۔ افواج پاکستان کچھ عرصے تک تو اپنے جوانوں کو کھیلوں میں اس قدر اعلی معیار پر تیار کرتی تھیں کہ ان کا ایک ایتھلیٹ لانس نائیک غلام رازق 1958 اور1966ء میں دوڑنے کے ایشیائی مقابلوں میں سونے کا تمغہ لایا تھا۔
اب ان کے ہاں بھی اس حوالے سے کوئی ترجیحات دکھائی نہیں دیتیں حالانکہ کم از کم سوا سو کے قریب سونے کے ایسے تمغے ہیں جو ان کی دسترس سے کچھ دور نہیں بشرطیکہ وہ اس پر توجہ دیں۔ان میں تیر اندازی،ایتھلیٹس، والی بال،باکسنگ، سائیکلینگ ،گھڑ سواری، جمناسٹکس ، تلوار بازی اور اسی قبیل کے دوسرے کم خرچ کھیل شامل ہیں۔
اس کے برعکس سوچئے کہ ایسی ہی غربت کا مارا ملک ایتھوپیا تھا جس نے پہلی دفعہ 1956ء میں اولمپک مقابلوں میں شرکت کی اور لندن اولمپک تک جو اسی سال منعقد ہوئے وہ سونے کے اکیس اور کل ملا کر پینتالیس تمغے جیت چکا ہے۔ان کا پہلا ایتھلیٹ Abebe Bikila روم اولمپک میں سن 1960 ننگے پاؤں دوڑا تھا۔گولڈ میڈل جیتا تو کسی نے نشاندہی کی کہ اس کے پیر میں جوتے کیوں نہیں تو اس کا جواب سب ہی کو لاجواب کرگیا کہ’’ مجھے اپنے ننگے پیروں سے زیادہ ایتھوپیا کا وقار عزیز تھا‘‘۔
وہ محل سے دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔شہنشاہ ہیل سلاسی کے امپریل گارڈ کی ملازمت کے لیے ڈیوٹی پر وقت پر پہنچنے کے لیے ننگے پاؤں دوڑ کر آتا تھا۔اس کی اولمپک میں شمولیت بھی حادثاتی تھی۔اولمپک کے دستے میں Wami Biratu نے جانا تھا۔ وہ عین وقت پر بیمار پڑگیا تو اسے جہاز میں سوار کرادیا گیا یوں وہ افریقا کا پہلا سیاہ فام ایتھلیٹ بنا جس نے افریقاکے دوسرے ایتھلیٹ کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کی۔
کھیلوں کی اس زبوں حالی کی کئی وجوہات ہیں جن میں تین بہت اہم ہیں : پہلی تو یہ کہ ہم Curative Health یعنی تندرستی براستہ علاج پر Preventive Health یعنی علاج براستہ تندرستی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔اس وجہ سے کھیلوں کی سہولتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچلی ہیں۔ آپ اس کا بھیانک نتیجہ یہ دیکھتے ہیں کہ اب ہماری نئی نسل کا سائز بتدریج سیل فون جتنا ہوتا جارہا ہے۔
دوسری یہ کہ کھیل کے میدانوں اور پارکوں پر پچھلے تیس برسوں میں مختلف حیلوں بہانوں سے قبضے جس میں مسجد کا پھیلتی ہوئی تعمیر سے لے کر چائنا کٹنگ سبھی قسم کے حیلے بہانے شامل ہیں۔ تیسرے اسکولوں میں کھیلوں کی سہولت کا مفقود ہونا۔ سرکار نے نئے اسکول اور ہسپتال قائم کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔نجی شعبہ چھوٹے مکانا ت میں اسکول قائم کرکے دولت سمیٹ رہا ہے۔اس کی ساری توجہ یہ ہے کہ جیسے تیسے بچہ میٹرک یا او لیول کا امتحان پاس کرلے۔کھیل کے میدانوں پر بالخصوص مساجد کے نام پر قبضے، سوچئے تو ہم اس عظیم الشان نبی محمد مصطفےٰ ﷺ کی اُمت ہیں جنہوں نے مکہ سے ہجرت کے انتہائی تنگ دست ایام میں بھی مسجد نبوی کے لیے زمین کو پہلے خریدا۔یہ خالی زمین دو انصاری یتیم بھائیوں ساحل اور سہیل بن امر نجاری کی ملکیت تھی اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان سے متصل تھی۔ان دونوں بھائیوں اور ان کے سرپرست معاذ بن عرفہؓ اس امر پر خوش دلی سے رضامند تھے کہ مدینہ میں پہلی مسجد ان کی مفت نذر کی ہوئی زمین پر تعمیر ہو۔یہ بڑی سعادت تھی ، ایک صدقہ جاریہ تھا۔اس کے باوجود آپ نبی ﷺ نے یہ گوارا نہ کیا اور زمین کی اصل قیمت، آپ کے صدیقِ صادق حضرت ابوبکرؓ نے ادا کی۔ایک ہمارے مذہبی جوشیلے ہیں کہ ہر کھلے میدان پر شب خون مارتے ہیں ۔پہلے مسجد بنتی ہے، بعد میں منتظمین کے گھر اس زمین پر بنتے ہیں اور قرابت داروں کے لیے دُکانیں تعمیر ہوجاتی ہیں مگر اس کا کیا جائے کہ وہ من جو پرانا پاپی ہے برسوں میں بھی نمازی نہیں بن پاتا۔
سپریم کورٹ سے ہر برائی کی درستی کی توقع رکھنا تو بہت زیادتی ہوگی مگر سپریم کورٹ اگر اتنا کرلے کہ ہر ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان ، متعلقہ کمشنر اور ہوم سیکرٹری پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی بنادے جو سن 1970سے پہلے کے رفاہی پلاٹوں پر قبضے اور اس کے مختص مقاصد سے انحراف کا جائزہ لے کر انہیں ان کی سابقہ حیثیت پر بحال کردے۔ وہاں بعد میں کوئی اسکول بنا ہو یا ہسپتال، کوئی تاج محل یا سرکاری محل اس کو عوام کے سامنے زمین دوز کردیا جائے اور پلاٹ کی سابقہ حیثیت کو بحال کردیا جائے۔
اسی طرح ہر سرکاری اسکول میں کم از کم دو کھیلوں کی ایک ایک ٹیم ایسی ہو جس کو ایک مقامی صنعت کار کی سرپرستی ہو۔علاقے کی مارکیٹ کمیٹی پر لازم ہو کہ وہ اپنے علاقے میں ایک انڈور جمنازیم نہ صرف قائم کرے بلکہ ان تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں جو ان مارکیٹوں میں مال فروخت کرتی ہے وہ ان جمنازیم کے انتظامات کی ذمہ دار ہوں۔
فوج پر بھی لازم ہے کہ وہ ایک اسپورٹس بٹالین بنائے جہاں وہ کھلاڑی تربیت پائیں جو کم لاگت والے کھیل جن میں انفرادی کارکردگی کا اظہار باآسانی پرکھا جاسکے ان کو فروغ دے۔ان میں دوڑ، مارشل آرٹس، وزن اٹھانا، مختلف انداز کی کشتی جن میں عورتوں مردوں کے کل ملا کر بارہ گولڈ میڈل دستیاب ہیں ،گھڑ سواری جس میں دس سے بارہ میڈلز اور پیراکی جس میں اتنے ہی میڈلز بانٹے جاتے ہیں ان پر توجہ دے۔ دنیا بھر میں جب کوئی کھلاڑی تمغہ جیتتا ہے تو نہ صرف اس کے ملک کا ساری دنیا میں وقار بڑھ جاتا ہے ۔بلکہ اس ملک کا ایک مثبت امیج باہر کی دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ کھیل میں کھلاڑی کی کارکردگی ملک میں میرٹ کی موجودگی اور اس کی دیکھ بھال کی جانب اشارہ کرتی ہے۔دنیا کے مختلف ممالک اپنے ان کھلاڑیوں کو جو گولڈ میڈل جیتتے ہیں نہ صرف خطیر مشاہرہ دیتے ہیں بلکہ انہیں لائف ٹائم پنشن بھی دی جاتی ہے۔