... loading ...
مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنی بھلی چنگی چلتی ہوئی حکومت کو آخر تنکوں کے سہارے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ وہ کون سا دبا�ؤہے جس کے تحت ، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کاروباری طبقے کو لاہور کے گورنر ہاوس میں بیٹھ کر بتانا ضروری خیال کیا کہ ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ’’ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے بڑے بڑے اداروں کی طرف سے بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ مل گیا ہے‘‘ ۔ اگر یہ ایوارڈ اتنا ہی اہم تھا تو یہی ایوارڈ اسحاق ڈار صاحب کے دستِ راست ، جن کی پاکستانی شہریت کے بارے میں بہت سی افواہیں زیر گردش ہیں، یعنی ہمارے گورنر اسٹیٹ بینک صاحب کو بھی ملا ہے تو ان کا ذکر کرنا کیوں ضروری خیال نہیں کیا گیا۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ اباجان نے بازار سے اپنے لئے ایک عدد ٹوپی خریدی، کندھے پر سوار بچے نے ضد کی ’’میں نے بھی لینی ہے‘‘ تو ایک اسے بھی دلوا دی۔
یہ اور اس طرح کے کسی بھی ایوارڈ کی حیثیت شاید اب پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں رہ گئی۔ سب کام پیسے کا ہے۔ دنیا میں معروف لوگوں کی ایک سالانہ ڈائریکٹری چھپتی ہے، ہو از ہو؟ کوئی بھی شخص ڈیڑھ دو سو ڈالر دے کر اس میں نام چھپوا سکتا ہے۔ ’’ہو از ہو‘‘ نامی اس فراڈ کی مارکیٹنگ کرنے والے اپنے کلائنٹ (یعنی معزز چغد) کو یہ باور کروا دیتے کہ اس کتاب میں ان کے نام (اور پروفائل) کی اشاعت سے بس ان کی شخصیت اور صدرِ امریکہ کی شخصیت میں اہمیت کے حوالے سے دو چار انچ کا فاصلہ رہ جائے گا۔ شروع شروع میں تو اپنا نام اور پتہ چھپوانے کے لئے پاکستانی چغدوں نے ہزاروں ڈالر ادا کرنے میں بھی عار محسوس نہ کی لیکن پھر امریکیوں کی بدقسمتی کہ ان کو ہمارا ایک چنیوٹی شیخ بزنس مین دوست ’ٹکر‘ گیا جس نے صرف سو ڈالر میں نام بھی درج کروایا بلکہ الٹا کافی بھی اس مارکیٹنگ مینیجر کے پلے سے پی۔
ہمیں اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے دوران سب سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی جب کوئی کاروباری شخصیت اس ادارے سے دوسو ڈالر کا ’تھوک‘ لگوا کر آ جاتی اور فرمائش ہوتی کہ چوں کہ ہمارا نام ’ہو از ہو‘ نامی اس فراڈ میں چھپ گیا ہے تو اب تم اس خبرکو اپنے اخبار میں چھاپو تاکہ اہلِ پاکستان پر بھی ہماری عظمت کا سورج طلوع ہو جائے۔ گھنٹوں مغز ماری کر کے اسے یہ باور کروانا پڑتا کہ حضور آپ بیوقوف بن چکے ہیں اور اب اس کی خبر چھپنے پر جن لوگوں کو نہیں پتہ، ان کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آپ کتنے بڑے چغد ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر میں مختلف ادرے ہیں جو پیسے لے کر ایوارڈ دیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر تھکا ہوا اور اپنی سروس کے اعتبار سے گھٹیا ترین بینک ہر سال ’’یورومنی ایوارڈ‘‘ لے آتا ہے۔ اس کا اخبار میں اشتہار بھی دیا جاتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ہم یہ ایوارڈ گزشتہ دس سال سے جیت رہے ہیں۔ یادش بخیر اس طرح کی جعل سازیوں کا راستہ ہماری بینکنگ انڈسٹری کو اللہ بخشے جناب شوکت عزیز صاحب نے دکھایا تھا جواس شعبے کے بہت پرانے اور نامور کھلاڑی تھے۔
ملکی سطح پر اس طرح کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ایف پی سی سی آئی ایکسپورٹ ٹرافی‘‘ ہے جس کا وہ بیس سے پچاس لاکھ کا خرچہ وصول کرتے ہیں یعنی جہاں پر جو گر جائے، اس سے وہ رقم وصول کر کے اسے یہ ٹرافی یا ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ اس کو فیڈریشن کے لوگ ’ڈونیشن ‘ یعنی عطیے کا نام دیتے ہیں۔اگر ایک شعبے میں زیادہ دعویدار آ جائیں تو پھر ’’بزرگ‘‘ صلح صفائی سے معاملہ یوں حل کرواتے ہیں کہ اس سال ایک کو دے دیں، اگلے سال دوسرے فریق کو اور یوں گلشن کا یہ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ یہی کام ایوانِ صنعت و تجارت لاہور اور دیگر مقامی ایوانوں نے بھی شروع کیا بقول شخصے بات یہاں تک جا پہنچی کہ ’’پرانی جوتیوں اور کپڑوں کے بدلے میں ایوارڈ بھی ملنے لگ گئے‘‘۔ حاصل وصول یہ ہوتا ہے کہ جس حکومت کو اپنی کارکردگی کے جھنڈے گاڑنے ہوتے ہیں ، اس کا نمائندہ (صدر یا وزیر اعظم) یہ ایوارڈ دینے کے لئے تشریف لاتا ہے اور اس کے ساتھ ایوارڈ وصول کرنے والے کی ایک تصویر بن جاتی ہے جسے وہ صاحب اپنے ڈ رائنگ روم میں لگا کر آنے جانے والوں پر اپنی کاروباری عظمت کی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں۔ ورنہ دبئی میں اپنے ہیرے جیسی پراڈکٹس کوڑیوں کے مول بھارتیوں کوبیچ آنے والوں کو تو جوتے پڑنے چاہئیں۔
ملک کے اندر واقفانِ حال کو معلوم ہے کہ ان ایوارڈوں کی اہمیت اور ’’ذلت ‘‘ کیا ہوتی ہے۔ اس لئے اسے کوئی قابلِ فخر بات نہیں سمجھا جاتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سدا کے کاروباری وزیر اعظم کو کاروباری افراد میں بیٹھ کر ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ایک باغ و بہار شخصیت پائی ہے۔ وہ ’بندہ جاتا ہے تو جائے فقرہ نہ جائے‘ کے اصول کے بانی مبانی ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے سمدھی کو ’جگت‘ فرمائی تھی لیکن میڈیا منیجر کوڑھ مغز ہونے کے باعث اس کو سمجھ ہی نہ سکا اور اس کی خبر بنوا کر چلوا دی۔ میڈیا منیجر کے کوڑھ مغز ہونے کی تصدیق کچھ یوں بھی ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کی سمری کے لیک ہونے کا الزام بھی جناب کی ذا ت پر آرہا ہے۔
یادش بخیر وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور کی بات ہے کہ انہوں نے الحمرا میں تقریر کے کرتے ہوئے ایک لطیفہ سنا دیا۔ شام کو ان کے اُس وقت کے میڈیا منیجر سارے اخبارات کے دفاتر میں اس ’لطیفے‘ کو رکوانے کے لئے منتیں ترلے کرتے پائے جا رہے تھے۔ جی ہاں اس پر حیران نہ ہو اس وقت میڈیا کی عزت ہوا کرتی تھی تو نتیجہ یہ ہے کہ میاں صاحب آئی ہوئی بات روکنے کے قائل نہیں۔ اس لیے یہ بات بھی اسی اصول کے تحت ان کے منہ سے نکل گئی ہوگی۔تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی مالیاتی ٹیم کو ایسے تنکوں کے سہاروں کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟ ابھی کل ہی تو اسحاق ڈار صاحب نے پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چوبیس ارب ڈالر کی سطح سے پار جا پڑے ہیں۔ اب جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر سے اس قدر بڑھ گئے ہیں ، کیسے بڑھے یہ ایک الگ داستان ہے، تو ایسے میں کیا امریکی ڈالر کی پاک روپے سے شرح تبادلہ کو 104روپے کے آس پاس رکھنے کا کوئی جواز ہے؟ پھر تو روپے کی قیمت ایک سو روپے سے کم ہونا چاہیے۔لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگلے سال جب پاکستان کے ذمے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کا وقت آئے گا تو ڈالر مزید گرایا جائے گا، اور یوں ڈالر کی اس کمی بیشی سے یار لوگوں کی دیہاڑیاں لگیں گی۔
ملکی معیشت کی درماندگی کی جو اہم وجوہات ہیں اور جن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جارہا وہ یہ ہے کہ ملک کی برآمدات میں موجودہ مالی سال کے پہلے تین ماہ میں دس فی صد سے زائد کے حساب سے تنزلی آئی ہے اور برآمدات کے اس زوال میں کمی کے کوئی امکانات مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہے۔ وزیرتجارت اور ان کے خاندان کے مالیاتی مفادات گجرانوالہ شہر کی حدود کی طرح مسلسل پھیلتے جا رہے ہیں لیکن ملک کی برآمدات مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ گرتی برآمدات کو سہارا دینے کے لئے حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ایک پیکیج دینے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں لیکن حکومت بظاہر ایسا کرنے سے بھی گھبرا رہی ہے کہ اس مجوزہ پیکیج کو اقرباپروری کے کھاتے میں ڈال کر کنٹینر پر کھڑے حضرات ان کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اور الزام کا اضافہ نہ کرلیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پنجاب میں صنعتوں کے لئے بجلی کی بندش کی شرح اکتوبر 2015 سے صفر کر دی ہے تواس کا مطلب تو یہ ہے کہ پنجاب میں بھی تمام بند صنعتیں چل پڑی ہیں جو بجلی کی عدم یا کم دستیابی کے باعث کلی یا جزوی طور پر بند پڑی تھی؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بند صنعتیں چل پڑی ہیں تو ان کا نتیجہ برآمدی اعداد و شمار میں ظاہر کیوں نہیں ہو پارہا؟
اُدھر مالی سال کے پہلے انہی تین ماہ کے دوران میں حکومتی محاصل کی وصولی کی شرح میں بھی مسلسل کمی کا رحجان ہے لیکن حکومت کی خواہش ہے کہ اس طرف نہ دیکھا جائے اور صرف اقتصادی راہداری کا وہ خرگوش دیکھا جائے جو اس کے چیف جادوگر، جناب چوہدری احسن اقبال صاحب ہر چوک میں اپنے ہیٹ میں سے نکال کر دکھا تے پائے جارہے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف عمران خان کا کرپشن اور احتساب کا نعرہ اس قدر دلفریب ہے کہ اب عوام اقتصادی راہداری کے خرگوش کی طرف دیکھنا نہیں چاہ رہے۔
مجموعی طور پر آج کی تاریخ میں حکومت کے کھاتوں میں منفی اقتصادی اشاریوں کی شرح مثبت اقتصادی اشاریوں کی نسبت زیادہ ہے تو ایسے میں وزیر اعظم صاحب کا ایسی باتیں کرناہی بنتا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر نیب کی جانب سے قائم کردہ مقدمات اور نیب عدالت کی جانب سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جانے کے بعد بظاہر یہی نظر آتاہے کہ اپنے سمدھی نواز شریف کی طرح انھیں بھی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ۔صورت خواہ کچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ اسحاق ڈار نے اپنے سوا چار سا...
سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نااہلی اورمریم نواز ،کیپٹن صفدر ،حسن اور حسین نواز کے خلاف ریفرنس عدالت میں جمع کرانے کے حوالے سے نیب کو واضح ہدایات کے باوجود ان محکموں میں موجود نواز شریف کے بعض نمک خوار افسران مبینہ طورپر عدالت کے حکم کی سرتابی کرتے ہوئے اب بھی ان کو سزا سے بچانے کے...
سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد اسلام آباد سے لاہور کی جانب گامزن ہیں ، جمہوریت ریلی کی قیادت کرتے ہوئے وہ آج گوجرانوالہ سے لاہور روانہ ہوں گے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف گزشتہ روز مقررہ وقت 10بجے سے حسب معمول ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے جہلم کے...
میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہلی کے خلاف ریلی لے کر دو روز سے سڑکوں پر ہیں ۔ ان کا قافلہ راولپنڈی سے لاہور کی جانب گامزن ہے، نوازشریف ریلی کے دوسرے روز 12 بجے کے قریب راولپنڈی سے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور کی جانب روانہ ہوئے، روانگی سے قبل راولپنڈی پنجاب ہائوس میں ...
نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد مسلسل یہ بات دہرارہے ہیں کہ انھیں فخر ہے کہ ان کو کرپشن کے الزام میں نااہل قرار نہیں دیاگیا بلکہ ان کی معمولی سی بے ضرر سی غلطی ان کی نااہلی کاسبب بنی ۔ اس طرح کی باتیں کرکے دراصل نواز شریف اپنے ماتھے پر لگے سیاہی کے داغ کو چھپان...
ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...
عدالت عظمیٰ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وزیراعظم نوازشریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ نون کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تحفظات کے باوجود تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ ترج...
وزیراعظم نوازشریف کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے تا حیات نااہل قرار دیے جانے کے بعد اب اُن کی سیاسی زندگی کی کتاب بھی مستقل بند ہو نا شروع ہو جائے گی۔ وہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد مسلسل اپنے سیاسی فیصلوں میں ناکام ہوتے چلے گئے اور نوشتہ دیوار پڑھنے میں مسلسل ناکام رہے۔ اُن کے پاس...
پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا وقت بالکل قریب آپہنچا ہے۔ اور اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے قریبی ساتھیوں اور وزراء سے مشاورت شروع کردی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف 27 جولائی (جمعرات) کی شام 4 بجے مالدیپ کا دورہ مکمل کرکے نور خان ائیر بیس پہنچے تھے جہاں ...
وزیراعظم نواز شریف جمعرات کو پاناما پیپرز کے دعوؤں کے مطابق اپنے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوگئے۔وزیراعظم نواز شریف کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات...
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میںاگلے مالی سال 18-2017 ءکا 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا اور اس کے دوسرے دن اسلام آباد میں صحافیوں کے سامنے صفائیاں پیش کرتے ہوئے یہ یقین دہانیاں کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ حکومت بجٹ کی آڑ میں مہنگائی میں اضافہ کرنے نہیں...
وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ ق...