... loading ...
ہمیں علم تھا کہ شادی کی اس دعوت میں ریان میاں بھی آئیں گے۔وہ چار سال کے ہیں اور ہماری قریبی عزیزہ کے صاحبزادے ہیں۔یہ جوڑا اور ان کے بیٹے ریان میاں نیویارک کی ایک نواحی بستی اسکارس ڈیل میں رہتے ہیں۔اسکارس ڈیل کہنے کو تو ایک گاؤں ہے ۔ 1712ء میں یہاں بارہ لوگ رہتے تھے۔ سات غلام اور پانچ ان کے مالکان۔اب اس کا شمار نیویارک کی بہترین چھوٹی خوش حال بستیوں میں ہوتا ہے۔بیس ہزار کی آبادی والے اس قصبے کی صفائی ستھرائی،اس کی فائر سروس جو خالصتاً رضاکارانہ ہے ۔اس کا ہسپتال اور اس کے اسکول دیکھیں تو لگتا ہے کراچی ایسا دو تین ہزار سال تک بھی شاید نہ ہوپائے۔
ہم نے یہ سوچ کر کہ شادی کی دعوتوں میں کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ بچوں کو جلد بھوک لگتی ہے۔وہ تھوڑا تھوڑا کھاتے رہتے ہیں۔ انہیں دلہن کی رخصتی اور فیملی فوٹو گرافی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہم نے راستے سے ریان میاں کے لیے ڈو نٹس اور کچھ چکن نگٹس بھی خرید لیے۔وہاں اس برگر جوائنٹ پر ایک سندھی ڈرائیور بھی آیا ہوا تھا جو مصر تھا کہ اسے ٹماٹر کے کچھ ایکسٹرا شاشے دیے جائیں۔ سلیزمین نے پوچھا وہ کس لیے؟ تو کہنے لگا کہ’’ بابا اپریزر صاحب کی دوسری شادی ہے ،بچے چھوٹے ہیں۔ کیچ منھ پر بھی بہت مل لیتے ہیں‘‘۔
کھانے پینے کا سامان دیکھا تو ریان میاں بہت خوش ہوئے۔ان کے ماموں بھی اپنی والدہ کے ساتھ ہی جو ریان کی نانی تھیں، ٹیبل پر موجود تھے۔دلہن آئی تو ایک ہاہاکار سی مچی۔سب اسٹیج کی جانب دوڑ پڑے۔ماموں جو کینٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔انہیں بھی دُلہن دیکھنے کا شوق چرایا۔واپس آن کر کہنے لگے دُلہن تو دیکھنے میں اوسط درجے کی ہے۔ قیمتی میک اپ میں بھی تین دن پرانی پیسٹری لگتی ہے۔ مگر اس کا جوڑا غضب کا ہے ۔پتہ چلا کہ ہندوستانی ڈیزائنر منیش ملہوترا نے تیس لاکھ کا بنایا ہے۔ماموں نے اعلان کیا کہ میں دولہا کو بتادوں کہ جوڑا اور دیگر انتظامات کی لاگت اتنی خطیر ہے تو طلاق بھی کچھ سستی نہ ہوگی ۔یہ سن کر وہاں بیٹھی کسی بی بی نے انکشاف کیا کہ ایک سرکاری ملازم کی بیٹی ہے۔ دو دن پہلے Pre-Nupitals(مغرب میں وہ معاہدے جو شادی سے پہلے کیے جاتے ہیں جس میں طلاق کی صورت میں مال و منال کس طرح تقسیم ہوگا۔)دستخط ہوگئے ہیں۔ڈیفنس میں بنگلہ،بچوں کا خرچہ ،ایک پراڈو یا اس مالیت کی گاڑی اور تین لاکھ روپے ماہانہ میاں بیوی کو دیا کرے گا۔
ریان میاں اسکارس ڈیل سے کچھ دور اپنی امی کے ہسپتال کے قریب چرچ کے اسکول میں جاتے ہیں۔ اسکول سے واپسی پر ان کی سکھ نینی پرنیت انہیں لے کر اپنے گھر آجاتی ہے۔یہ جوڑا بٹالہ سے امریکا آگیا۔میاں بھی بہت اچھا انسان ہے۔وہاں گورمکھی کا استاد تھا۔ریان میاں کو یوں اسکول میں مختلف ساتھیوں کی وجہ سے اپنی نینی اور والدین کی وجہ سے چھ زبانیں یعنی انگریزی،میمنی،پنجابی،اردو، تھوڑی سی عربی اور ہسپانوی آتی ہیں۔
ہم نے پوچھا کہ اسکول میں زیادہ مزہ آتا ہے یا گھر پر۔انگریزی میں جواب ملا کہ اسکول ۔ Teachers love us and School is fun ’’وہ کیوں؟‘‘ ہم نے سوال کیا تو کہنے لگے کہ’’ وہاں ہر چیز وقت پر ہوتی ہے۔دوست بھی ہوتے ہیں۔دوپہر کو لنچ میں کیا کچھ ملے گا وہ بھی ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ہم نے پوچھا کہ اُسے لنچ کس دن اچھا لگتا ہے؟ تو کہنے لگے کہ ’’جمعرات اور منگل کے علاوہ ہر دن‘‘۔ ان دنوں کیوں نہیں‘‘۔ تو کہنے لگے کہ میں،امیت اور ہشام (ان کے جین ہندو اور عرب ہم جماعت) آدھا لنچ کھاتے ہیں۔ وہ کیوں؟ منگل کو ہاٹ ڈاگس اور جمعرات کو ہیم برگر ہوتا ہے۔یہ ان تین بچوں کی ماؤں کے لیے ایک مسئلہ تھا ۔ اس کا حل انہوں نے ریان کی امی کے مشورے سے یہ نکالا کہ اسکول کی اُستانی نے انہیں سمجھایا کہ These things are not good for the body system of you three boys. These will make you sick. Because you boys don’t eat these at home( یہ اشیاء تمہارے جسمانی نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں کیوں کہ آپ تینوں یہ اشیا گھر پر نہیں کھاتے)۔
اسکول چونکہ چرچ کے زیر انتظام ہے اس لیے ان تین بچوں کو روزانہ چرچ میں پہلی کلاس سے بھی استثناء حاصل ہے۔ریان میاں کہہ رہے تھے کہ ان کے ساتھی جب ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ چرچ والی کلاس میں کیوں شریک نہیں ہوتے تو وہ کہتے ہیں کہ We must only pray to Allah five times in Arabic and we say بسم اللہ الرحمن الرحیم before our prayers۔ان کو اور ہشام کو اس وقت پڑھانے اردن کی ایک مسلمان خاتون جوBronxville کے قریبی قصبے میں رہتی ہیں، رضاکارنہ خدمت کے طور پر آتی ہیں۔اسکول اور والدین کی یہ مفاہمت اور ان بچوں کے خوش دلانہ سمجھوتے کی جھلک،پاکستان میں آپ کو صرف آصف زرداری اور نواز شریف کی جمہوریت بچانے کی مک مکا پالیسی میں دکھائی دے گی کہیں اور نہیں۔
ہمیں حیدرآباد میں اپنا اسکول پگٹ میموریل یاد آگیا۔پہلے دن ہمیں اسکول داخل کرانے ہماری گلی کی سر سید Over size پڑوسن شیرین سبز علی لے گئی تھی۔وہ خود تو ایک کلاس میں تین سال سے کم رہنے کی عادی نہ تھی لیکن گلی کے بچوں کو دروازوں اور ماؤں کے دامن سے کھینچ کھانچ کر صبح صبح اسکول لے جاتی اور دوپہر کو جب تک وہ بچہ گھر میں واپس نہ چلا جاتا کڑی نگرانی کرتی تھی۔یہ اسکول پروٹسنٹ چرچ کے زیر انتظام تھا ۔یہاں سیالکوٹ اور ڈسکہ کی عیسائی میٹرک پاس لڑکیاں اُستانیاں ہوتی تھیں۔دن گزرتے تو ان کو مختلف کورسز کراکر نرسیں اور بہتر تعلیم یافتہ اُستانیاں بنادیا جاتا۔
والدہ نے ڈھائی روپے شیرین کو دیے تھے جس نے گجراتی میں انہیں اس کا حساب یوں سمجھایا تھا کہ ایک روپیو ایڈمسن پھیس نو، ایک فیس نو، چار آن گریب بچا نو،چار آنہ اڑدھی چھٹی میں لان نو(ایک روپیہ داخلہ فیس کا، ایک ماہانہ فیس کا،چار آنے غریب بچوں کا فنڈ اور چار آنے ہمارے بریک کے وقت چیزیں خرید کے کھانے کے۔
شیرین سبز علی پرنسپل مس دولی چند کے دفتر کے باہر ہمیں کھڑا کرکے اندر چلی گئی۔اتنے میں سسٹر ایلس جو اس دن انتظامی ڈیوٹی پر تھی اور غالباً رات کو سوتی بھی سونٹی لے کر تھی پیچھے کہیں سے آئی اور کس کر ایک سونٹی ہمارے کولہوں پر ایسی رسید کی کہ ہم تلملا اٹھے۔وے ایتھے کیوں کھلوتا ای۔کلاس وچ کیوں نئی گیا۔
یہ اسکول سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔شرین باہر آئی تو ہماری آنکھ میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کر سمجھ گئی۔ چونکہ گلی کے بچوں کی گینگ Mara Salvatrucha (MS13)
شمالی اور جنوبی امریکا کے خطرناک کرمنلز کی گینگ ) کی پھولن دیوی) تھی ،اس نے تسلی دی کہ شام کو یہ ایلس اپن کی گلی سے روج(روز) جاتی ہے۔ابراہیم ماکو ڈام (ماکو ڈام مارواڑی میں میری باری) کو بولوں گی اس کو کس کر ایک پتھرا کمر پر مارے۔ابراہیم ماکو ڈام ہمارے گلی میں مارواڑی ٹھٹیروں ( لوہاروں )کا لڑکا تھا۔وہ اسکول نہیں جاتا تھا بلکہ بھائیوں کے ساتھ بھٹی پر لوہا کوٹتا تھا۔ایسا ہی ہوا ،پتھر لگا تو سسٹر ایلس یا مسیح کہہ کر زمین پر بیٹھ گئی۔دیگر اُستانیا ں گھیرا ڈال کر کھڑی ہوگئیں ، ہم نے گھر سے لا کر پانی پلایا، اماں کو کہہ کر اسے وکس ملوائی تو ہماری گرویدہ ہوگئی۔
ریان میاں کی چرچ کی کلاس سے استثناء یاد ہے نا۔ہمیں اپنی اسمبلی بھی یاد ہے۔جہاں ماضی کی اداکارہ مدھوبالا کی ہم شکل اور گلوکارہ ثریا کی ہم آواز سسڑ جوڈی پنجابی میں بائبل کے گیت کے پڑھا کرتی تھی۔
یسوع چالیس دن تے رات،
پتھر تیرا تکیہ سی،
ہنجو(آنسو) تیرے موتی سن تے
جوڈی تیری باندی سی
( یہ عیسائی عقیدے کی رو سے چالیس دن کے اس قیام کی طرف اشارہ ہے جو حضرت عیسیؑ نے دنیا کے قدیم ترین شہر جیرکو کے دیر القرنطل Monastery of the Temptation میں کیا تھا۔شیطان آپ کو یہاں بہکانے آیا تھا)
ہم چونکہ ریان میاں کی طرح ابتدا ہی سے والدہ کی وجہ سے دین میں وہی عقائد رکھتے تھے جو خالصتاًاسلامی تھے۔ لہذا اس دن لائین میں آگے کھڑے ہونے کے باوجود لب ہلانے سے منکر تھے ۔ سسٹر جوڈی نے ہمارے چہرے کے ناخوشگوار تاثرات اور خاموشی کا بہت سنجیدگی سے نوٹس لیا اور جب اردو کی کلاس لینے آئی تو ہم نشانے پر تھے۔ وہ تو میرے نال یسوع مسیح دی نعت کیوں نئیں پڑی۔ہم نے جب بتایا کہ ہم صرف اپنے نبی مصطفےٰﷺ کی نعت پڑھتے ہیں پوچھنے لگی ’’ا و کیہڑی نعت ہے جو تو پڑدا ہے‘‘ہم نے با ادب ہوکر امیر مینائی کی یہ نعت شروع کی کہ
خلق کے سرور،شافعء محشر،، ﷺ
مرسل داور، خاص پیمبر،،ﷺ
پہلے شعر کے اختتام پر ہی کس کر ایک ایسا چانٹا پڑا کہ گال پر صلیب بن گئی۔سسٹر جوڈی کو بعد میں ہمارے گلی کے مکینک رشید سے عشق ہوا اور وہ اسلام قبول کرکے جوڈی سے جمیلہ بنی تو اس کے گھر پر محلے کے بچے ہر جمعرات کی شام جمع ہوکر نعتیں پڑھتے تھے اور اس کی فرمائش ہوتی تھی کہ ہم وہی نعت پڑھیں!
خلق کے سرور،شافعء محشر،، ﷺ
مرسل داور، خاص پیمبر،،ﷺ