... loading ...
اردو کی قطار ختم ہوئی تو میر ابصار عالم جعفری صاحب کو اس گوری کے سامنے اپنی انگریزی کے جواہر پارے بکھیرنے کے لیے پیش ہونا پڑا ۔ ان کی مسرت دیدنی تھی۔ ان کی پچھلی دفعہ کی کلفت یکسر دور ہوگئی۔بہت پر امید ہوگئے۔
” Your name Sir ”
جواب ملا’’میر ابصار عالم جعفری ‘‘
وہ کہنے لگی ’’Pretty long name‘‘ (امریکی محاورے میں خاصا طویل نام)
پاکستان اور برصغیرکے دیگر ممالک کے لوگوں کا ایک المیہ ہے کہ وہ پہلے اپنی زبان میں سوچتے ہیں ۔اکثریت چونکہ ذہنی طور پر کاہل اور اوائل عمری سے ہی شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی عادی ہوتی ہے لہذا اس کا ترجمہ کرتے وقت انگریزی میں اس کا قریب ترین متبادل لفظ ڈھونڈ کر سامنے والے کے منھ پرکھینچ کرتھپڑ کی طرح رسید کردیتے ہیں۔
ہمارے یہ حضرت میر ابصار عالم جعفری سمجھے Pretty کا مطلب صرف وہی ہوتا ہے جو ملیر کے اسکولوں میں بتایا گیا ہے۔فی الفور وہ اس خوش گمانی میں مبتلا ہوئے کہ وہ ان کے نام میں حسنِ پنہاں ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔باچھیں کھل گئیں فرمانے لگے ’’yes very pretty. my mother keep it for me.‘‘جعفری صاحب نے بھی یہ نام میری والدہ نے رکھا کے مفہوم کو گھسیٹ کر keep تک لے گئے۔
وہ پوچھنے لگی کہ ’’وہ امریکا کیوں جانا چاہتے ہیں؟‘‘
مختصر سا جواب عطا ہوا کہ ’’Learn English‘‘
وہاں سے فوراً دوسرا سوال داغ دیا گیا” What else you wish to learn?” (مزید وہاں اور کیا کچھ سیکھنے کا ارادہ ہے؟)
Computers also”میر ابصار عالم جعفری گویا ہوئے۔
اس کی نگاہ ناز نے فوراً کمپیوٹر اسکرین کا احاطہ کیا اور استفسار کیا گیا۔
” You study here in some university” آپ تو یہاں کسی یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
Yes one of the best univesity in the world حضرت نے اِترا کر جواب دیا۔
کراچی میں اچانک دنیا کی بہترین یونیورسٹی کی موجودگی کا سن کر اس کی ’’موکا‘‘ کافی کی رنگت والی آنکھیں کھڑکی سے باہر نکل آئیں۔
( mocha coffeeْ وہ کافی جس میں دودھ چاکلیٹ اور خاص قسم کے موکا کافی کے دانوں کا سفوف شامل ہوتا ہے)
اس نے پوچھ لیا کہ وہ کون سی “بیسٹ یونیورسٹی ان دا ورلڈ “ہے جس سے وہ ،امریکا اور گوگل سب ہی ناواقف ہیں۔
حضرت میر ابصار عالم جعفری اس ناواقفیت دوراں پر کچھ کبیدہ خاطر ہوئے۔ضلع شرقی کی ایک ایسی نجی جامعہ کا نام لے دیا جو خطیر رقم کے عوض دنیا کے ٹھکرائے طالب علموں کو اپنی آغوش علمی میں سمیٹ لیتی ہے اور جعلی ڈگریاں دینے میں ملکہ رکھتی تھی جس کے ایم بی اے اور کمپویٹر پروگراموں کے ریکٹر اردو کے پی ایچ ڈی سرکاری کالج کے ایک سابق پروفیسر تھے۔
اب وہاں سے دوسرا باؤنسر آیا کہ وہ اتنی عمدہ جامعہ میں اپنا سلسلہء تدریس ادھورا چھوڑ کر امریکا کیوں جاناچاہتے ہیں۔ہم اس موقع پر میر ابصار عالم جعفری کو شک کا فائدہ دیتے ہیں وہ غالباً یہ کہنا چاہتے تھے کہ وہاں اساتذہ کا معیار ان کی قابلیت سے خاصا پست ہے ۔ وہ یقیناً اپنے اساتذہ کی تحقیر نہ چاہتے تھے مگر وہی کم بخت شارٹ کٹ کی عادت آڑے آگئی اور کہنے لگے Teachers are stupid
گوری کے چہرے پر تاثرات کا ایک ناخوشگوار کیفیت کا بادل امڈ آیا اور کہنے لگی “So your teacher are stupid here ”
جعفری صاحب نے اپنی طاقتور انگلیوں سے چٹکی کا اشارہ کیا اور فرمانے لگے کہ ” They have small knowledge, I have big knowledge. I want to make it bigger” (میرے اساتذہ کی علمیت کم ہے میری زیادہ ہے وہاں جاکر میں اپنی علمیت میں مزید اضافے کا خواہشمند ہوں.)
اب اس سلسلۂ سوال و جواب میں نازک موڑ آگیا اور وہ پوچھ بیٹھی کہ ان کی تعلیم کا خرچہ کون اٹھائے گا؟
جعفری صاحب نے انکشاف کیا کہ ان کے والد صاحب ایک مالدار ہستی ہیں۔
وہ پوچھ بیٹھی کہ’’ وہ کیا کرتے ہیں؟‘‘
جواب ملا ” He is E.T.O”( وہ ای۔ٹی ۔او ہیں)
“And what is an E.T.O?” گوری نے پوچھا کہ (ای۔ٹی ۔او کیا ہوتا ہے؟)
“You don’t know what is an E.T.O. Excise and Taxation Officer”(جعفری صاحب جھنجلا کر کہنے لگے آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ ایک ای۔ٹی ۔او کیا ہوتا ہے؟)
“And what is Excise?”گوری کہا ں دم لینے والی تھی پوچھ بیٹھی کہ( یہ ایکسائز کس بلا کو کہتے ہیں؟)
“Stop Drinking.”( شراب پینا بند کرو) غالباً وہ معصوم یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ منشیات کی روک تھام کے سرکاری ملازم ہیں۔خاکسار کو حضرت کی انگریزی سن کر جگر مراد آبادی کا وہ شعر یاد آگیا کہ ع
کیا کہے حالِ دل ،غریب جگرؔ
ٹوٹی پھوٹی زبان ہے، پیارے
کہنے لگی:
“Sir you are telling me to stop drinking.”( آپ مجھے شراب پینے سے روک رہے ہیں۔)
” No my father stop drinking( ترجمے کی رو سے اس کا مطلب وہی تھا جو گوری نے اخذ کیا کہ میرے والد نے شراب پینا چھوڑ دی ہے)
“And he used to drink before”( ایک شرارتی مسکراہٹ سے کہنے لگی تو وہ پہلے جام گھُٹکایا کرتے تھے)
” No baba. He stops other people drinking drugs”(ارے نہیں بابا وہ دوسروں کومنشیات کے استعمال سے روکتے ہیں۔انگریزی میں ڈرگ کے لیے Do اور Take کے الفاظ مستعمل ہیں)
اب سوال ہوا کہ وہ یہ کام کیسے کرتے ہیں۔یہ میر ابصار عالم جعفری کے لیے اپنے والد محترم کی کار کردگی کے اظہار کا سنہری موقع تھا۔
He catches them( وہ انہیں پکڑتے ہیں)
then(پھر)
He arrests them( وہ ان کی گرفتاری ڈالتے ہیں)
then
He talks to them( پھر وہ ان سے گفت و شنید کرتے ہیں)
He first catches them, then he arrests them and then he talks to them
( یہ گوری کے لیے ایک بہت انوکھا انکشاف تھا کہ یہاں پہلے ملزم کو منشیات کے مقدمے میں پکڑا جاتا ہے، پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے پھر گفت و شنید ہوتی ہے۔اس کے ذہن میں اس باب میں سارے حوالے امریکاکے تھے)
” And what does he talks to them?” ( وہ مزید متجسس ہوکر پوچھنے لگی کہ وہ ملزمان سے کیا گفت و شنید کرتے ہیں؟)
Pay me money or go to jail.Karachi jails very bad”‘‘
(رقم ڈھیلی کرو ورنہ جیل جاؤ کراچی کی جیلیں بہت بری ہیں)
اس انکشاف پر گوری نے ان کی ویزہ کی درخواست مسترد کرنے کا اعلان کیا تو میر ابصار عالم تلملا اٹھے اور غصے سے اس کی طرف انگشت شہادت کھینچ کر کہنے لگے کہ ” You are like John Trump”
دوسری طرف سے ہنسی کا ایک فوارہ لہرا کر بلند ہوا اور وہ کہنے لگی ’’ جان نہیں سرکار ڈونلڈ‘‘
ابصار عالم جعفری نے اعلان کیا کہ وہ باہر انتظار گاہ میں منتظر ہوں گے۔وہیں جہاں وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی قاتل مسیحا بھی منتظر تھی۔
ہماری باری آئی لبوں پر کسی دعا کی بجائے ندا فاضلی کا یہ شعر تھا کہ ع
یوں اجالوں سے واسطہ رکھنا
شمع کے پاس ہی ہوا رکھنا
1985 میں ہم نے جب ان کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک بڑی اسکالر شپ دنیا بھر کے مقابلے میں جیتی تھی تو ان کے ویزہ افسر نے ہمارا استقبال فریئر ہال کے سامنے والی عمارت میں صدر دروازے پر کیا تھا ویزہ ٹکٹ اور سفری اخراجات ہاتھوں ہاتھ تھمائے تھے۔
ہم پر ایک نگاہِ پسنددیدگی ڈال کر گوری انگریزی میں معذرت کرتے ہوئے ،منھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی
Sir let me laugh for a moment on Donald joke
ہم نے دھیما سا احتجاج کیا کہ
ظالما اس بے چارے کو ویزہ دے دیا ہوتا تو اپنی موکا کافی کی رنگت والی آنکھوں میں حیرت کا سمندر سمیٹ کر کہنے لگی
” ? “Why Sir(وہ کیوں جناب)
” He is the only Pakistani who made you laugh”ہم نے کہا حضرت وہ واحد پاکستانی ہے جس نے آپ کے لبوں پر یہ مسکراہٹ بکھیری۔
” Sir you don’t know how happy we are here on that account here” جواب ملا’’ آپ کو کیا پتہ کہ اس باب میں ہم یہاں کس قدر خوش رہتے ہیں۔‘‘
And Sir Why do you want to go to USA.
( اور سرکار نے امریکا جانے کی کیوں ٹھان رکھی ہے؟)
You know I learnt recently that Gigi Hadid is single again”‘‘
(ہمیں خبر ملی ہے کہ وہ گی گی حدید اب پھر سنگل ہوچلی ہے)۔آپ کو علم نہ ہو تو ہم بتادیں کہ گی گی حدید کا شمارامریکا کی ٹاپ ماڈلز میں ہوتا ہے۔ والدہ جرمن عیسائی ماڈل یولنڈا اور والد محمد حدید کا تعلق فلسطین سے ہے ۔چھوٹی بہن بیلا بھی ماڈل ہے۔اُن کے تعلقات ہزاروں خواتین کے خوابوں کے شہزادے برطانوی شہری پاکستانی نژاد شہر ہ آفاق گلوکار اور ون ڈائیریکشن بینڈ کے ممبر زین جاوید ملک سے ان دنوں کچھ کشیدہ ہیں۔
Sure Sir America is land of equal opportunities.But let me warn you any man born after Zayn Malik is wastage of humanity ”
اک نگاہِ پسندیدگی و حیرت سے اس نے ہمیں دیکھا اور کہا یقیناًکیوں نہیں امریکایکساں مواقع کی سرزمین ہے لیکن میں آپ کو اتنا جتا دوں کہ زین ملک کے بعد جو بھی مرد پیدا ہوئے ہیں وہ انسانیت کا زیاں ہیں)
ہم نے اس رعایت سے کہ زین ملک پاکستانی نژاد ہیں اسے چھیڑا کہ “Even Pakistani men like him”( وہ مرد بھی جو اس کی طرح پاکستانی ہیں)
وہ ہمارے اس وار پر پینترہ بدل کر کہنے لگی۔
“We are super power and we talk globally”
ہم ایک سپر پاور ہیں اور ہم بین الاقوامی سطح پر گفتگو کرتے ہیں۔
پھر پانچ سال کا ویزہ ہمیں دیتے ہوئے کہنے لگی”Here you go sir for five years . Good luck for Gigi baby” آپ کوکو اللہ گی گی بے بی مبارک کرے۔
[caption id="attachment_41468" align="aligncenter" width="300"] امریکی سفارت خانہ[/caption] مختلف ممالک میں بکھرے ہمارے اہل بیت کا اصرار تھا کہ ویزہ کی معیاد ختم ہوئی ہے تو اس کی تجدید کرالیں۔وہ کم بخت ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گیا تو سختیاں کرے گا۔سو ہم ان کے آستانہ فیض پر تجدید ویزہ...