... loading ...
مختلف ممالک میں بکھرے ہمارے اہل بیت کا اصرار تھا کہ ویزہ کی معیاد ختم ہوئی ہے تو اس کی تجدید کرالیں۔وہ کم بخت ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گیا تو سختیاں کرے گا۔سو ہم ان کے آستانہ فیض پر تجدید ویزہ کے لیے پہنچ گئے۔ویزہ ہال میں متمنی افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔اردو میں سوال جواب کے لیے تیار درخواست گزار ایک طرف تو دوسری جانب انگریزی پر ہماری طرح نازاں افراد۔ہم سے پہلے مقتل میں ملیر کے نوجوان میر ابصار عالم جعفری کے جانے کی باری تھی۔
حضرت جعفری تنومند ایسے کہ پھنسی پھنسی FCUKْ(French Connection UK-) کی زینب مارکیٹ سے خریدی سیاہ ٹی شرٹ زیب تن کیے ہوئے ۔ ان کے پلے ہوئے ڈولے اور سینے کے مسلز پریناکا چوپڑہ کے بلاؤز کی طرح چسپاں ٹی شرٹ میں سے نمایاں طور پر چھلک رہے تھے۔متجسس تھے کہ ہم انگریزی میں سوال جواب والی قطار میں شامل ہوں گے کہ اردو والی لائن میں لگیں گے۔ہم نے جواب دیا کہ ’’ توُ اپنی فکر کر ناداں قیامت آنے والی ہے‘‘ کہنے لگا کہ پچھلی بار اردو میں انٹرویو دیا تھا کوئی سڑیل پاکستانی تھا۔دوسرے ہی سوال پر ویزہ دینے سے انکاری ہوا اور حکم لگادیا کہ چھ ماہ بعد آنا۔اب کی بار انگریزی میں سوالات کے جواب دوں گا۔
برابر کی لائن میں ایک ادھیڑ عمر کا جوڑا کھڑا تھا۔سانگھڑ کے کسی پنجابی چک سے
آیا تھا۔
مرد نے اعلان کیا کہ وہ پنجابی میں جواب دے گا۔ایسا لگتا تھا کہ جن کپڑوں میں سوئے تھے اسی میں اٹھ کر چلے آئے ہیں اور خدشہ یہی تھا کہ ویزہ ملنے کے بعد امریکا بھی اسی لباس میں جاپہنچیں گے۔ان کے اعلان پر وہاں بلا کے مستعد ، خوش اطوار اور شریں کلام عملے میں کھلبلی مچی اور وہ کسی پنجابی مترجم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ان کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک حسن بلا خیز ڈاکٹرنی تھی جو اسلام آباد کے قریبی مرکز کو چھوڑ کر اس لیے آئی تھی کہ اس کو کہیں سے یہ منترسمجھ میں آیا تھا کہ کراچی میں امریکاکا ویزہ ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں بہت سختیاں ہیں۔ یہ بات اس لیے درست نہ تھی کہ ویزہ کی پالیسی ملک بھرکے لیے بہت یکساں ہوتی ہے ۔اس میں شہر کی تخصیص نہیں ہوتی۔ ہم نے اسے باہر انتظار گاہ میں ہی بتادیا تھا کہ اسے ویزہ نہیں ملے گا۔ وہ انکار کی صورت میں اپنی فیس بچانے کے لیے اپنا کیس اسلام آباد بھجوانے کا کہے۔ دیر تک اپنی اسٹڈیم جیسی بڑی بڑی آنکھوں سے ہمیں ایک نگاہِ بے اعتبار سے دیکھتی رہی گو فیس والے نکتے پر اس کے چہرے کے تاثرات میں رنگ اثبات شامل تھا۔
اردو میں انٹرویو کے لیے ایک گوری کو بٹھایا تھا۔دوسری کھڑکیوں پر مصروفیت ہوتی تو وہ اگلے امیدوار سے انگریزی میں شروع ہوجاتی تھی۔ اس خاتون کو اردو بولتے سنا تو ہمیں اس کے لب و لہجے میں تجلیوں کی وہ ہما ہمی محسوس ہوئی جو کم از کم پاکستان میں تو کسی نجی اور سرکاری ارادے حتی کہ کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ ، طلبا و طالبات کی گفتار میں بھی سنائی نہیں دیتی۔
گمان گزرا کہ آج اگر امراؤ جان زندہ ہوتی اور او لیول میں اردو کا پرچہ دے رہی ہوتی تو ٹیوشن لینے اسی کے پاس آتی۔مثلاً کھڑکی کے قریب درخواست گزار کو آتا دیکھ کر وہ کہتی تھی’’ آئیے ،تشریف لائیے‘‘ کاغذات اور کمپیوٹر پر ایک چھچھلتی(سرسراتی) نگاہ ڈال کر درخواست گزار کی فراہم کردہ تفصیلات کا ایک سمندر ذہن میں سمیٹ لیتی تھی ۔ اس کے بعد ایک ادائے تغافل سے بہت کھنکھناتی ہوئی آواز میں شعیب اختر والا باؤنسر مارتی کہ ’’ آپ امریکا جانے کے کیوں خواہش مند ہیں‘‘ جواب فراہم کردہ تفصیلات کے عین مطابق ہوتا تو وہ پوچھتی کہ ’’ وہاں آپ کے عزیز و اقارب بھی ہیں، قیام کہاں اور کتنے دن کا ہوگا؟‘‘ ’’ تنہا کیوں جارہے ہیں، اہل خانہ کیوں نہیں جارہے۔ آپ کی اہلیہ کیوں ساتھ نہیں جارہی ہیں؟‘‘ بہت کم پاکستانی آخری سوال سن کر یہ کہنے کی ہمت کرسکتے تھے کہ میں اہل ہوں کسی اور کا ، میری اہلیہ کوئی اور ہے۔مطمئن ہوتی تو ویزہ عطا کردیتی ۔نہ ہوتی تو اپنے شیریں لبوں سے اتنی اپنائیت اور لگاؤ سے دوبارہ قسمت آزمائی کی تسلی دیتی۔انکار بار گراں نہیں لگتاتھا ۔اس کی اُ ردو سن کر خاکسار کو یہ احساس دامن گیر ہوا کہ اب اردو اور اسلام پاکستان سے ہجرت کرتے ہیں اور پیچھے مہاجر اور مسلمان رہے جاتے ہیں۔
قیوم نظر کا شعر یاد آگیا کہ ع
تم چلے جاؤ گے رہ جائیں گے سائے باقی
رات بھر اُن سے میرا خون خرابہ ہوگا
پنجابی جوڑے سے مترجم کے توسط سے سوال ہوا کہ ’’آپ کیوں امریکا جانے کے خواہش مند ہیں‘‘ جواب ملا ’’ پتر فوکے نے بلایا ہے‘‘ اس نے اعتراض کیا کہ فوکا نام کی کوئی تفصیل ان کے پاس نہیں‘‘۔ وضاحت کی گئی کہ’’ پتر کا نام محمد فاروق ہے مگر وہ اور سارا چک اسے فوکا ہی کہتا ہے‘‘۔’’ آپ پہلے کبھی پاکستان سے باہر تشریف لے گئے ہیں‘‘۔معصومہ نے پوچھا۔جواب ملا کہ ’’اسی تے کراچی وی پہلی واری ویخیائی۔اینو آکھو کہ اوتھے سانگھڑ وچ وہ دفتر کھولن، اوتہوں وی بوہتی لوک امریکہ جاندے نے( ہم نے تو کراچی بھی پہلی مرتبہ دیکھا ہے اس سے کہو کہ وہاں سانگھڑ میں بھی ایک دفتر کھولیں وہاں سے بھی بہت لوگ امریکا جاتے ہیں)۔ان کا مطالبہ سن کر وہ زور سے ہنسی تو خاکسار کو لگا کہ آندھرا پردیس بھارت میں کسی نے بے احتیاطی سے پٹّو(ریشم) کا تھان کھول دیا ہے۔کہنے لگی “Why Not” وہاں فوکا صاحب کیا کام کرتے ہیں تو جواب ملا ’’ سانوں کی پتہ‘‘ پانچ سال کاویزہ تیسرے سوال پر منظور کرتے ہوئے کہنے لگی کہ’’ ان سے کہو کراچی دیکھ لیا ہے تو ہمارے امریکا پر بھی ایک نظر ڈال لیں‘‘۔اس غیر متوقع عنایت پر بوڑھا باپ اپنی لاتعلق شریک حیات کی طرف دیکھ کرکہنے لگا ’’فوکا صحیح آکھدا ہے کہ اے امریکی لوکی جنتی نے‘‘(فوکا صحیح کہتا ہے یہ امریکی جنتی لوگ ہیں)۔معصومہ نے اس آخری جملے کا ترجمہ مترجم سے ترجمے کا مطالبہ کیا تو وہ انگریزی پر اتر آیا کہنے لگا He says you will go to heaven۔وہ ہنس کر کہنے لگی Tell them I have no plans to die so soon(ان سے کہو کہ فوری طور پر میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں)۔وہ رخصت ہوئے۔اردو والے ختم ہوگئے ۔ (جاری ہے)
امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے صدر ٹرمپ کے چھ مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی کے قانون کی جزوی بحالی کے بعد ان افراد پر امریکی ویزوں کے حصول کے لیے نئی شرائط جمعرات سے نافذ العمل ہو رہی ہیں۔ان شرائط کے تحت ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں اور تمام پناہ گزینوں...
اردو کی قطار ختم ہوئی تو میر ابصار عالم جعفری صاحب کو اس گوری کے سامنے اپنی انگریزی کے جواہر پارے بکھیرنے کے لیے پیش ہونا پڑا ۔ ان کی مسرت دیدنی تھی۔ ان کی پچھلی دفعہ کی کلفت یکسر دور ہوگئی۔بہت پر امید ہوگئے۔ " Your name Sir " جواب ملا’’میر ابصار عالم جعفری ‘‘ وہ کہنے لگی ’...
ہمیں تفویض کردہ کام غیر سرکاری تھا،خالصتاً نجی۔ افسر بڑے اور سرکاری ۔ سب کی عزت بہت کرتے تھے ۔ کا م البتہ ناپ تول کر سوچ سمجھ کر کرتے تھے ۔شریں گفتار ایسے کہ لگتا تھا جہانگیر ترین نے اپنی سندھ والی شوگر ملیں ان کے گلے میں چھپا رکھی ہیں۔ہمیں گھر پر خود فون کیا۔ناشتے کی دعوت دی یہ ...