... loading ...
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی ، ہر نقشِ ماسوا کومٹاتی چلی گئی۔ گویا یاد نہ ہوئی ریل گاڑی ہوگئی کہ آتی ہی چلی جا رہی ہے۔ویسے ارود شاعری میں محبوب کی یاد کا آنا اور آتے ہی چلے جانا بہت عام ہے۔ کسی کی یاد میں بیقرار عاشق زار کو کوئی اور کام بھی تو نہیں ہوتا۔ غالب نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ۔ عشق نے غالب نکما کردیا، ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے کس کی یاد آرہی ہے کہ بس یاد کا دم ہی بھرے جا رہا ہوں۔ اصل میں مجھے یاد کسی کی نہیں آرہی بلکہ ہچکیاں آرہی ہیں، یعنی کوئی مجھے یاد کر رہا ہے۔ ہمارے یہاں عام خیال یہی ہے کہ ہچکی آتی ہے تو کوئی یاد کر رہا ہوتا ہے۔بقول شاعر’’مجھے کیوں آج ہچکی آ رہی ہے، کوئی یاد آئی اور ان کو جفا کیا۔۔اس مفروضے کی کسی نے تحقیق کبھی نہیں کی، ویسے بھی ہمارا اور ہمارے اسلاف کا تحقیق سے کیا واسطہ۔ تحقیق کا کام گورے کریں ان ہی کو مبارک، ہم کیوں اس موئی تحقیق میں ہلکان ہوں۔ ہمیں تو بس یہ معلوم ہے کہ کوئی یاد کرے تو ہچکی آتی ہے۔گورے نے کیسی عرق ریزی کے بعد تار برقی ایجاد کیا جس سے جہاں بھر کی خبرذرا سی دیر میں ہزاروں میل دور پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارے شاعروں نے اس ایجاد کو دوکوڑی کا کردیا اور ہچکی کو تار سے بہتر ذریعہ مواصلات قرار دیدیا۔ خبر دیتی ہے یاد کرتا ہے کوئی، جو باندھا ہے ہچکی نے تار آتے آتے۔۔
ایک بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ عاشق زار جس معشوق مجازی کو اتنا یاد کرتے ہیں اس بیچاری کا تو ہچکیاں لے لے کر برا حال ہو جاتا ہوگا اور اہل خانہ و رقیب روسیاہ تک سب کو اس عشق کی خبر ہوجاتی ہوگی لیکن کیونکہ اس بارے میں اردو شاعری بالکل خاموش ہے اس لیے ہم بھی زیادہ نہیں بولتے۔ چلیں واپس آتے ہیں ہچکی کی طرف۔ ویسے ہچکی آنے اور روکنے پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا،آتی ہیں تو آتی چلی جاتی ہیں کبھی کچھ دیر میں رک بھی جاتی ہیں اور کبھی کئی کئی روز بند نہیں ہوتیں اور لوگ آپ سے یہ پوچھ پوچھ کر ہلکان کر دیتے ہیں کہ کون ہے جو اس قدر یاد کر رہا ہے اور اگر آپ خیر سے شادی شدہ ہیں تو بیگم ہر ہچکی پر ایسے دیکھتی ہے کہ گویا کچا ہی چبا جائے گی ساتھ ہی پوچھتی بھی جاتی ہے یہ کون ہے جو آپ جیسے نکمے کو اس قدر یاد کر رہی ہے۔آپ غم نہ کریں کہ بیگمات کے سوال جواب تو ویسے بھی ختم ہونے میں نہیں آتے ،یہ امتحان تو آخری ہچکی تک چلتا ہے۔ ہماری شاعری میں آخری ہچکی کی بہت اہمیت ہے ، کہا گیا ہے کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی۔ایک شاعر نے آخری ہچکی کو کچھاس طرح مضمون میں باندھا ’’ ہجر تھا بار امانت کی طرح، سو یہ غم آخری ہچکی سے اٹھا۔۔‘‘
یہ آخری ہچکی بھی ویسے خوب ہے ، کبھی خیال آتا ہے ہم دنیا کے لیے کس قدر ہلکان ہوتے ہیں ، پیسے کمانے اور بچانے کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے ، اس مہینے کتنا کمایا کتنا خرچ کردیا، کس سے کتنے پیسے لینے ہیں اور کس کو کتنے پیسے دینے ہیں اسی دو اور دو چار کے چکر میں کب عمر کی پونجی ختم ہوجاتی ہے پتا بھی نہیں چلتا پھر ایک آخری ہچکی اور سب ختم۔ یہ آخری ہچکی تو کچھ سوچنے ، کچھ کرنے کی مہلت بھی نہیں دیتی۔ بس سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ،نایہ پیسے، نا یہ سانسیں ،نا یہ باتیں نا کام کاج، نا گاڑی نا گھر سب مٹی میں مل جاتا ہے۔بنکوں میں پڑے لاکھوں روپے ایسے ہی پڑے رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے نظیر نے کہا تھا ، سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔۔بات یاد اور ہچکی سے شروع ہوئی تھی اور کس قدر سنجیدہ ہو گئی۔ زندگی واقعی ایک بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے اس کو ہنسی کھیل نہیں سمجھنا چاہیے۔اپنا خیال رکھنا چاہیے ،صحت پر توجہ دینی چاہیے اور ہاں ہچکی کو کسی کی یاد کا معاملہ سمجھ کر نظر انداز بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ ایک آدھ ہچکی کی تو خیر ہے لیکن مسلسل ہچکی آنا بھی ایک طرح سے بیماری ہے۔ ہچکیاں روکنے کے لئے آپ یہ ٹوٹکے کر سکتے ہیں، ایک لمبی سانس لیں اور اسے کچھ سیکنڈ کے لیے روک کر رکھیں۔ ماہرین کے مطابق جب پھیپھڑوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھر جائے اور ڈایافرام اس کو نکالے تو ہچکی آنا خود بہ خود بند ہو جائے گی۔ہچکی آنے پر فوری طور پر ایک چمچ چینی اورایک چٹکی نمک ایک گلاس پانی میں ملا ئیں اور اس پانی کو تھوڑا تھوڑا اور آہستہ آہستہ پییں۔ ہچکی تھوڑی دیر میں بند ہو جائے گی۔اگر ان ٹوٹکوں کے بعد بھی ہچکی نہ رک رہی ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کر لینا ہی بہتر ہوگا۔۔۔