... loading ...
مارچ 1979 کے مہینے کا آخری دن تھا۔تجر شریف سوپور کے ایک نو جوان محمد اکبر لون جو جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ تھے ،صورہ سری نگر کے دفترِجماعت میں داخل ہوکر سید ھے اس وقت کے امیر جماعت مولانا سعد الدین ؒ کے کمرے میں داخل ہوئے۔ابتدائی سلام و علیک کے بعد لون صاحب نے عرض کیا کہ امیر محترم! میں نے رات کو خواب دیکھا ، کوئی میرے گھر کے دروازے کو کھٹکھٹا رہا ہے ۔ دروازہ کھولا تو باہر ایک انتہائی خوبصورت اور پرکشش نوجوان کوکھڑا پایا،جس نے مجھے موقع دیے بغیر سلام میں پہل کی اور مصا فحے کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے سرخ کپڑوں کا ایک جوڑا پہننے کے لیے دیا ۔میں نے وہ پہن لیا ۔وہ تب تک گھر کے باہر رہے ۔کپڑے پہننے کے بعد میں با ہر نکلا اور ان کے ساتھ کہیں روانہ ہوا ۔راستے میں انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں حسینؓ ہوں،میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔میں ان سے لپٹ گیا ، آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا ، شاید کچھ پوچھنے کی بھی ہمت کرتا لیکن اسی دوران میری آنکھ کھل گئی،چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔مو لانا سعد الدین ؒ جو ایک عالم ،دانشور ،ماہر تعلیم اورمنتظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی شخصیت بھی تھے ،کے دمکتے چمکتے چہرے پر ایک جلالی کیفیت طاری ہوئی ۔محمد اکبر لون کی طر ف نگاہیں جمائیں اور ایک مختصر بات کی کہ تمہارا انتخاب ہوا ہے،مبارک ہو ۔کمرے میں نہ صرف محمد اکبر لون بلکہ وہاں پرموجود دیگر لوگوں کو بھی سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کس انتخاب کی طرف اشا رہ ہے ۔
صرف چند دن گزرے ،4اپریل کی تاریخ تھی ۔پاکستان میں ذوا لفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔کشمیر میں پاکستانی حکمرانوں کے خلاف ایک خوفناک رد عمل دیکھنے میں آیا ۔اس رد عمل کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کشمیری عوام بھٹو کو تحریک آزادی کشمیر کا محسن اور بھارت کا دشمن سمجھتے تھے ۔احتجاج شروع ہوا ،بھارت نواز لابی اور بھارتی ایجنسیاں بھی حرکت میں آگئیں ۔انہوں نے اس احتجاج کا رخ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی طرف یہ تاثر پھیلا کرموڑ دیا کہ اصل میں بھٹو کو جماعت اسلامی پاکستان کی ایما پر جنرل محمد ضیا ء الحق نے قتل کروایا ،حتیٰ کہ یہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں کمال چا لاکی اور مکاری سے بٹھایا گیا کہ جنرل محمد ضیاالحق کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہے ۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جب جنرل ضیا ء الحق ایک ہوائی حادثے میں جا ں بحق ہوئے ،تو اس موقع پر بھی پوری وادی مرد مومن ،مرد حق ضیا ء الحق کے نعروں سے گونج اٹھی ۔۔۔بہر حال یہ الگ موضوع ہے ۔
جماعت کے خلاف اشتعال پیداکرنے والوں نے اپنا کام کردکھایا ۔پوری ریاست میں جماعت کے دفاتر ،ان سے منسلک تعلیمی اداروں ،حتیٰ کہ جماعت کے اراکین کے گھروں پر حملے ہوئے ۔تجر شریف سوپور میں بھی ایک بھاری ہجوم نے جماعت سے وابستہ اسکول پر ہلہ بول دیا ۔اسکول کی لائبریری میں موجود کتابیں باہر پھینکیں ۔جذبات میں یہ خیال بھی نہ رہا کہ اس لا ئبریری میں قرآن پاک کے نسخے اور تفا سیر بھی موجود ہیں ۔محمد اکبر لون نے جو نہی اسکول پر حملے کی خبر سنی ،وہ دوڑتا ہوا آیا اور قرآن پاک اور تفا سیر کو اٹھاتا رہا اور انہیں سینے سے لگا تا رہا ،چومتا رہا اور رو رو کر مجمعے سے کہتا رہا کہ تمہیں کیاہوا ظالمو!قرآن کو بھی نہ بخشو گے۔ مجمعے میں سے کچھ زیادہ ہی پرجوش اور جذباتی نوجوانوں کو محمد اکبر کا رویہ پسند نہ آیا،وہ اس کی طرف لپکے اور لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے اس پر حملہ کیا ۔محمد اکبر جس نے دونوں ہاتھوں سے قرآن پاک کے نسخے سینے سے چمٹائے رکھے تھے ،وار سہتے رہے ،لیکن قرآن کے نسخوں کو اپنی آخری سانس تک علٰیحدہ نہ کرنے کی ٹھان لی۔ اللہ کا کرنا کہ اس بندۂ مو من نے اسی حال میں اپنی جان ،جان آفرین کے سپرد کردی۔انتخاب ہوا تھا اور بندۂ مومن جس کا انتخاب ہوا تھا اس نے بھی اپنا انتخاب سچا ثا بت کرکے دکھا یا ۔ خدا رحمت کنند ایں عا شقان پاک طنیت را
تحریک آزادی کشمیر کی جد وجہد میں بھی کربلا اور امام حسینؓ کے تذکروں کا ایک کلیدی کردار ہے ۔امام حسینؓ کشمیری قوم کے آئیڈ یل ہیں ۔کشمیر کے بچے بچے کو امام حسینؓ کے ساتھ عشق ہے ،عقیدت ہے ،ایسا عشق اور ایسی عقیدت جو مثالی ہے ،تاریخی ہے ۔امامؓ نے جس طرح اس وقت کے یزید کے ساتھ اصولوں پر سمجھوتا کرنے کی بجائے جان دینے کو ترجیح دی ،بالکل اسی نقش قدم اور اسی عمل کو مشعل راہ بنا کے کشمیری قوم قربانیوں کی ایک لا زوال تاریخ رقم کررہی ہے۔دور تک جائیں تو بات لمبی ہو جائیگی ،8جولائی 2016 سے ہی بات شروع کرتے ہیں ۔تب سے وادی کشمیر مسلسل کرفیو کی زد میں ہے۔محاصرے،چھاپے ،خانہ تلا شیاں جاری ہیں ۔جدید اسلحہ سے لیس بھارتی فوجی نہتے لوگوں پرپیلٹ گن سے گولیاں برسا رہے ہیں ،جس کے نتیجے میں سو سے زیادہ افراد شہید ،16000سے زائد زخمی اور 1000سے زائد لوگوں کی بینائی کلی یا جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے ۔5000سے زائد لوگ تعذیب خانوں میں مقید اور ان تمام متاثرین میں بچوں اور بچیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔
تاریخ گواہ ہے اور زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ تب کا یزید مرا ہے اور حسینؓ زندہ ہے ،آج کے یزید بھی مریں گے لیکن ان شا ء اللہ حسینی زندہ رہیں گے۔حسینیت یہی ہے کہ حسینؓ کے نقش پا کو اہمیت دی جائے ۔یزیدوں کے ساتھ سمجھوتااور ان کے احکامات کی تعمیل اور پھر حسینی ہونے کا نعرہ دینا ،امام حسینؓ کی عظیم قربانی کی توہین ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں ۔ان پر اللہ تعالی کی عنا یات ہوتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ کشمیری شہدا کے جنا زوں میں مائیں ،بہنیں شہدا کوپھول ما لائیں پہنا تی ہیں ،دلہا کی طرح سجاتی ہیں اورآزادی کے نغمے اور ترانے گا تے رخصت کرتی ہیں ۔حسینؓ زندہ ہیں ،تاقیامت ان کا مشن زندہ رہے گا اور دنیا میں جہاں کہیں طاغوت اپنی طا قت کے بل پر انسانوں کی آزادی چھیننے کی کوشش کرے گا ،امامؓ کے عاشقوں کو اپنے سامنے وہ مقابلے پرپائے گا ۔آج کئی سالوں بعد تجر شریف کے شہید محمد اکبر لون امام حسینؓ اور کربلا کی وساطت سے یاد آئے۔آنکھیں ضرور نم ہوئیں ۔لیکن ان کی دائمی پر لطف زندگی کا احساس ،ایک مٹھاس بھرا تاثر بھی ذہن میں ابھرا۔اللہ اس تاثر کی لطا فت تا ابد قائم رکھے۔(آمین)
کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...
اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...
امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...
پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات ...
اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو و...
جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...
ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں ب...
فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...
میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئ...
8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔ا...
28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...
کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...