... loading ...
پچھلی قسط میں تامل ایلام کے حلف یافتہ کارکنوں کے لیے دو ہدایات کا ذکر تھا ۔ایک تو ہر واردات کی تصویریں بناؤ،دوسرا تحریک میں شامل ہر خاتون کو اپنی بہن سمجھو۔جس ہدایت پر عمل کرکے ان کی یہ سازش بے نقاب ہوئی وہ یہ تھی کہ تامل اپنی ہر کارروائی کی تصویریں ضرور بناتے تھے جو بعد میں ان کے لیڈرپربھاکرن کو دکھائی جاتی تھیں۔ اب کی دفعہ انہوں نے ایک غریب فوٹوگرافر ہری بابو کو شوبھا فوٹوز اینڈ نیوز ایجنسی کے ذریعے اس کام کے لیے شامل کیا ۔ اس بدنصیب کو یہ علم بھی نہ تھا کا دھانوبیگم نے اپنے لباس کے نیچے خودکش جیکٹ چڑھائی ہوئی ہے۔وہ بے چارہ تو اس خوش فہمی میں رہا کہ دھانو چاہتی ہے کہ یہ تصویر جس میں وہ ہندوستان کے ہونے والے وزیرِاعظم کے گلے میں ہار ڈال رہی ہے بطور ایک یادگار اس کے پاس ہو۔ وہ واردات کے وقت عمدہ شاٹ کی طلب میں بالکل قریب چلا گیا اور ان بدنصیب سولہ لوگوں میں شامل ہوا جو اس واردات میں بشمول راجیو گاندھی کے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
ہلاکت کے بعد اس کا کیمرہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا جس میں ان تمام لوگوں کی تصاویر محفوظ تھیں جو اس واردات کے وقت آس پاس منڈلا رہے تھے ۔
البتہ جس ہدایت کی خلاف ورزی ہوئی وہ یہ تھی کہ تحریک میں شامل خواتین کو بہن سمجھو۔ان دو ہدایات کی پالیسی میں سے ایک تو پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت نے بھی بہت شد و مد سے اپنائے رکھی۔نلینی کے تعلقات اس کے سازش کے ایک اہم رکن بم بنانے کے ماہر موراگن سے ہوگئے جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی۔جب وہ اس قتل کے بعد تروپاٹھی مدراس کی ایک چھوٹی سی بستی میں چھپتے پھرتے تھے نلینی کی طبیعت اپنے حمل کی وجہ سے بہت خراب ہوگئی اور یہیں سے سارا بھانڈا پھوٹا۔ ان کی گرفتاری پر مامور ٹیم کو پہلی لیڈ اس حوالے سے ہی ملی۔گو ٹیم کے بیشتر ممبران نے زندہ گرفتاری کے خوف سے خود کو زہر کا کیپسول( جو ہر وقت ان کے گلے میں بطور لاکٹ لٹکا رہتا تھا ) کھاکر جان دے دی۔نلینی اور موراگن اس ٹیم کے وہ دو ممبران تھے جو تروپاٹھی میں جاکر چھپے۔باقی ٹیم بنگلور کی طرف نکل گئی۔ نلینی کی طبیعت اپنے حمل کےء ابتدئی ایام کی وجہ سے بہت خراب رہنے لگی تھی۔ جب وہ علاج کی غرض سے ایک کلینک پہنچے تو وہاں سے ان کی آمد کی اطلاع ’’ ایس آئی ٹی‘‘ کو مل گئی اور ان دونوں کی گرفتاری سے ٹیم کے ممبران کی شناخت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ان کی گرفتاری پر مامور ٹیم کی کوشش تھی کہ وہ شیواراسن اور ٹیم کے دیگر ممبران کو زندہ گرفتار کریں مگر وہ اس بات سے بھی اچھی طرح باخبر تھے کہ تامل ایلام کے دہشت گرد ہر وقت گلے میں پوٹاشیم سائینائڈ کا ایک کیپسول لٹکائے پھرتے ہیں اور گرفتاری سے بچنے کے لیے اسے وقت پڑنے پر چبا لیتے ہیں اور اپنی جان دے دیتے ہیں۔اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بہت محنت سے یہ پتا چلانے میں کامیاب ہوگئی تھی کہ بنگلور کے ایک قصبے کونان کنٹے میں وہ کہاں چھپی ہوئے ہیں۔ جب ان لوگوں نے رات کے پچھلے پہر میں چھاپا مار کر انہیں گرفتار کرنا چاہا تو ایک عجب بات ہوئی کہ سامنے سڑک پر سے گزرتے کسی ٹرک کا ٹائر ایک دھماکے سے پھٹ گیا جس سے یہ سب بیدار ہوکر چوکنا ہوگئے۔ شیواراسن نے تو اپنے سر پر اپنے ہی پستول سے گولی مار کر اپنا خاتمہ کرلیا۔ شوبھا جو دھانو اور اس کی کزن تھی اور دھانو کے بیک اپ کے طور پر لائی گئی تھی اس نے دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ گلے میں لٹکا زہر کا کیپسول کھالیا اور ہلاک ہوگئی۔ نلینی مگر اپنے آشنا موراگن کے ساتھ گرفتار ہوئی ۔
اُسے کانگریس کے برسراقتدار آجانے کے بعد راجیو گاندھی کی صاحبزادی پریانکا گاندھی نے جیل میں ملاقات کرکے معافی دے دی۔
وزیر اعظم چندر شیکھر کی ہدایات پر قتل کے بعد ایک ٹیم تحقیقات کے لیے بنی تھی، اس نے قتل کا مرکزی الزام تو تامل ایلام کے سر پر دھرا اور اس کی توثیق بعد میں سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں کی۔جسکے مطابق راجیو گاندھی کاقتل تھانو مزی راجو رتنم عرف گیاتری عرف دھانو نے ایک خود کش حملے میں کیا۔
ایک کمیشن بھی بھارتی جسٹس ملاپ چند جین کی سربراہی میں بنا جس کا کام اس قتل میں سازش کے مختلف زاویوں کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیشن نے سب سے بڑا ملزم تامل ناڈو میںDravida Munnetra Kazhagam (DMK) اور اس وقت کے تامل لیڈر کرونا ندھی کو قرار دیا ۔
ان کی صوبائی حکومت کو وزیر اعظم راجیو گاندھی نے برطرف کیا تھا۔وہ ہی ان قاتلوں کو پناہ دینے کے مجرم ٹہرائے گئے۔کمیشن نے ایک اور بہت حیرت انگیز انکشاف یہ کیا کہ مرکز سے جاری ہونے والی ہدایات جو راجیو گاندھی کے بارے میں تامل ناڈو کے وزیر اعلی کرون ندھی کو دی گئی ہوتی تھیں ،وہ من و عن تامل ایلام کو بآسانی منتقل ہوجاتی تھیں۔جین کمیشن کی خفیہ رپورٹ بھی حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کی طرح ہمارے وزیر داخلہ معین الدین حیدر اور جنرل مشرف کے زمانے میں لیک ہوئیں مگرہمارے ہاں تو کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا حالانکہ یہ رپورٹ وزارت داخلہ کے آرکائیوز سے چوری ہوکر سب سے پہلے انڈیا ٹوڈے کی زینت بنی۔اس کے برعکس جین کمیشن کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کا خمیازہ بھارت کے نستعلیق وزیر اعظم آئی کے گجرال کو بھگتنا پڑا اور1998 میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔
سن 2012 میں منظر عام پر آنے والی کتاب Conspiracy to Kill Rajiv Gandhi: From the CBI Files میں سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن انڈیا کے ایک اہم افسر کے رگھوتھامن نے یہ انکشاف کیا ہے کہ گو ان کے ادارے نے قتل کے فوراً بعد تحقیقات کا آغاز کردیا تھا لیکن اس وقت کے ادارے کے سربراہ ایم کے نرائین جنہیں اس تحقیقات کو سرد خانے میں ڈالنے کے انعام کے طور پر مغربی بنگال کا گورنر بنادیا گیا۔
سپریم کورٹ کے جج تھامس جنہوں نے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا وہ رقم طراز ہیں کہ ملزمان کا راجیو گاندھی کے علاوہ کسی اور ہندوستانی کو قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا اس مقدمے کے ایک جج واڈھوا نے ایک عجب نکتہ بیان کیا کہ ملزمان کا ارادہ حکومت کو سبق سکھانے کا ضرور تھا مگر یہ کسی طور پرTerrorist and Disruptive Activities (Prevention) Act TADA کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔سازش میں شریک تمام 26 ملزمان جنہیں ماتحت عدالت نے موت کی سزا دی تھی اور جس پر ہندوستان میں ایک طوفان برپا ہوگیا تھا۔عدالت نے انصاف کے تقاضے ٹرائل کو خفیہ رکھ کر پورے نہ کیے تھے۔گواہوں کی شناخت تک خفیہ رکھی گئی تھی۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے پانچ کے علاوہ سب کی سزاؤں کو مختلف قید کی معیاد میں بدل دیا۔چار تا حال زندہ ہیں جن میں نلینی کا میاں موراگن بھی شامل ہے جس نے خودکش جیکٹ بنائی تھی۔
نلینی جو ماں بننے والی تھی اس کی سزا عمر قید میں اس لیے بدل دی گئی کہ اس نے جیل ہی میں ایک لڑکی کو جنم بھی دیا اور اس نے بعد میں کمپیوٹر میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری دوران اسیری ہی حاصل کی۔نلینی کی یہ سزا مسز سونیا گاندھی کی مداخلت پر عمر قید میں بدل دی گئی۔وہ تاحال قید میں ہے گو اس کی عمر قید کی سزا جو بھارت میں چودہ سال سے زائد نہیں ہوسکتی اس وقت اپنے چوتھائی صدی کے عرصے پر محیط ہوچکی ہے۔ نلینی کی صاحبزادی ہریتھا کی اسکول کی تعلیم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تامل افراد کی مدد سے اسکاٹ لینڈ میں ہوئی۔ اب وہ برطانیا کی کسی یونی ورسٹی میں medical physics میں پی ایچ ڈی کررہی ہے مگر اس کے حدود اربع کو خفیہ رکھا جاتا ہے ۔اس کی اپنی والدین کی اپیلوں پر کوئی شنوائی تاحال نہیں ہوئی۔اس سے جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ میڈیکل میں کیوں نہیں گئی تو وہ کہتی ہے اسے خون دیکھ کر ہول آتا ہے۔