... loading ...
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جدید تصور میں ایک قدری فیصلہ شامل ہے۔ جدید موقف کے مطابق حال اور مستقبل کا زمانہ نہ صرف بہتر ہے، بلکہ اچھا بھی ہے، اور ماضی نہ صرف کم تر ہے بلکہ برا بھی ہے۔ جدید عہد ’’روشنی‘‘ ہے اور پرانا زمانہ ’’ظلمت‘‘ ہے۔ اگر مذہبی آدمی زمانے کے جدید تصور کے ساتھ، اس قدری فیصلے کو بھی قبول کر لے، تو پھر وہ محض تفریح طبع کے لیے مذہبی ہے، اور اس کے مذہبی ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے۔ زمانے کا خطی یا محوری ہونا تو ایک علمی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے اور ہے بھی، لیکن اس میں پنہاں قدر کو کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے؟ مذہبی آدمی کے لیے ماضی کی روایت پہلے ہے اور تاریخ بعد میں ہے۔ جدید آدمی کے لیے واقعہ اور متن تاریخ کا لاوارث مال ہے، اور جس کا حقدار بھی صرف وہ خود ہی ہے۔ جدید آدمی کے لیے صرف آثاریاتی ’’شے‘‘ اہم ہے تاکہ وہ تاریخ کو بھی ’’دریافت‘‘ اور ’’ایجاد‘‘ بنا کر روایتی قدر اور تاریخی واقعے کے حتمی ہونے کو منہدم کر سکے۔ مذہبی آدمی کے لیے ماضی ایک آئیڈیل ہے، اور ایک اتھارٹی ہے، اور مذہبی ہونے کا بنیادی ترین مطلب اس ماضی کا دائمی استحضار ہے۔
پھر یہ کہ جدید آدمی زمانے یا جگہ سے کوئی تقدیس وابستہ نہیں کرتا، اور تقدس جیسی کسی بھی چیز کو توہم قرار دیتا ہے۔ جبکہ مذہبی آدمی کی زندگی میں زمانے اور جگہ سے تقدیس وابستہ ہے۔ مثلاً بطور مسلمان ہمارے نزدیک وہ زمانہ جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام دنیا میں تشریف فرما ہوئے، مقدس ہے۔ نہ صرف مقدس ہے، بلکہ مستند بھی ہے اور ہمارے لیے حکمی درجہ رکھتا ہے۔ اور ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس چیز یا جگہ کو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کا لمس مبارک نصیب ہوا، وہ مقدس ہو گئی۔ ہمارے لیے صرف وہ زمان و مکاں معتبر ہے جس کی نسبت حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات اقدس سے ہے، اور وہ تاریخ مقدس آئیڈیل ہے جو آپ کی خاکِ رہگزر ہے۔ یہاں موقع نہیں، لیکن اشارتاً عرض ہے کہ تاریخ کے خاتمے کے لبرل دعوے اور مارکسی تصورات اور تاریخ کے خاکِ رہگزر ہونے کے تصور کو ایک ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ جدید تصورات کس قدر لغو ہیں۔ بہرحال مقدس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ لمحہ جب، اور وہ جگہ جہاں ماورا اور دنیا ایک ہو جائیں، اس شرط پہ کہ دنیا ’’خود‘‘ سے کسی معنی کا ظرف نہ رہے، اور ماورائی معنی سے معمور ہو جائے۔ تقدیس اور اتھارٹی کے بغیر روایت کا کوئی معنی نہیں ہے۔ روایت کا سادہ ترین مطلب ’’مقدس تاریخ‘‘ ہے، جبکہ جدید آدمی تاریخ کی معنویت کو اپنی تعبیر کے تیشے سے متعین کرتا ہے۔
مذہبی آدمی روایت سے جڑنے کا جو اسلوب رکھتا ہے وہ حافظہ ہے۔ حافظہ اصلاً ماضی کی یاد اور اس یاد کو تازہ رکھنے ہی کا نام ہے۔ روایت سے ملنے والے الفاظ و معانی، افعال و اعمال یعنی اقدار کو حافظے میں محفوظ، ارادے سے منسلک اور عمل کا رہنما رکھنا مذہبی آدمی کی بنیادی شخصی ساخت ہے۔ لیکن اگر حافظہ فعال نہ ہو تو یہ متحجر ہو جاتا ہے۔ حافظے کے فعال ہونے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے توشہ خانے میں موجود ’’چیزیں‘‘ عقل، نفس، تخیل اور ارادے سے زندہ تعلق رکھتی ہوں، بلکہ وہ تاریخ اور معاشرے سے بھی زندہ نسبتوں کی حامل ہوں۔ اس زندہ تعلق کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ صرف یہ عرض کرنا ضروری تھا کہ مذہبی شخصیت میں حافظہ کس قدر مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم ’’تذکیر‘‘ کی معنویت کو بھی ملاحظے میں رکھیں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ہدایت بھولی ہوئی چیزوں کی یاد دہانی ہی ہے، یعنی ایسی چیزوں کی جو مرکزِ شعور میں قائم نہ رہ سکیں، اور حافظے میں بھی کمزور اور پھر معطل ہو گئیں۔
سمع خراشی کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ گزارشات اس لیے کرنا پڑیں کہ جدید تعلیم اور حافظے کا تعلق بھی معلوم کر لیا جائے۔ جدید تعلیم میں جس چیز کو سب سے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ یہی حافظہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر فعال حافظہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں، لیکن حافظے کو اخلاقی اور تعلیمی عیب بنا دینا جدید تعلیم کے اعلی ترین مقاصد میں سے ہے۔ مذہبی شخصیت میں حافظے کی مرکزیت کی وجہ سے حالات کے ساتھ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اور جدید تعلیم کی رو سے یہ بھی ایک بڑا عیب ہے۔ اگر پورے تعلیمی نظام میں حافظے کو مذموم قرار دے دیا جائے تو ایسے انسان کی تشکیل ممکن ہو جاتی ہے، جو ہوا کے ہر جھونکے پر بدل جائے، اور حالات کی ہر رو کے ساتھ چل پڑے۔ حافظے کے خاتمے کے لیے اپج کو پورے تعلیمی عمل میں مرکزیت دی گئی، جسے عام طور پر تخلیقی صلاحیت (creativity) کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل innovation ہے، تخلیقی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب تخلیق نہیں ہے بلکہ ایک کام یا چیز کو کئی طرح سے کرنے کی صلاحیت ہے جسے انگریزی میں variation on the theme کہتے ہیں، مثلاً گلاس ایجاد کرنا تخلیقی صلاحیت کا اظہار ہو سکتا ہے۔ انوویشن دراصل پہلے سے موجود گلاس کو سو طرح سے بنانے کی صلاحیت ہے تاکہ کاروباری امکانات بہتر کیے جا سکیں۔ فنون لطیفہ اور آرٹ میں تخلیقی صلاحیت بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن جدید تعلیم میں تخلیقی صلاحیت کا مطلب کاروباری ہے، فنکارانہ نہیں ہے۔
جدید تعلیم میں تخلیقی صلاحیت اور حافظے کو جس طرح ایک دوسرے کی ضد قرار دیا گیا ہے، اس نے مذہبی آدمی کی شخصی ساخت کو بہت گہرے اور منفی طریقے سے متاثر کیا ہے۔ جدید تعلیم میں حافظے کو انسان کے انفسی پہلوؤں سے غیرمتعلق کر دینا، اور ہماری مذہبی تعلیم میں حافظے کو تمام آفاقی نسبتوں سے منقطع کر دینا ہماری قومی بدنصیبی کے بڑے مظاہر ہیں۔ اگر تعلیمی عمل میں concept کا غلبہ اور حافظے کا خاتمہ ہو جائے تو اقدار بے گھر ہو کر نگاہوں سے بھی اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اور اگر حافظہ تاریخ اور معاشرے سے منقطع ہو جائے تو دینی روایت کو زندہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ انسان کے اجتماعی امور سے غیرمتعلق ہو جاتی ہے۔ ہماری ضرورت ایک ایسی تعلیم ہے جو آخرت کے زندہ شعور کے ساتھ دنیا میں جینا بھی سکھائے اور مرنا بھی۔
تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...
زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...
سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...