وجود

... loading ...

وجود

بڑی طاقتوں کی صبر کی تلقین، پاک بھارت جنگ نہیں روک سکتی

منگل 04 اکتوبر 2016 بڑی طاقتوں کی صبر کی تلقین، پاک بھارت جنگ نہیں روک سکتی

pak-india-border

بھارت کنٹرول لائن پر در اندازی کی کوشش کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر اپنے سفاکانہ مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ناکامی اور اس ناکامی کے بعد سے مسلسل سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے، جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ہفتہ کی رات کو بھارتی فوج نے ایک دفعہ پھرکنٹرول لائن پر بھمبر کے چھمب سیکڑپرصبح 4 بجے بلااشتعال فائرنگ کی۔ فائرنگ کایہ سلسلہ 4گھنٹے تک جاری رہا لیکن پاک فوج کے چوکس جوانوں نے اس کابلاتاخیر کرارا جواب دیا جس پر بھارتی فوجی فائرنگ کاسلسلہ بند کرنے پر مجبور ہوئے۔ بھارت نے حسب عادت الزام عاید کیاکہ فائرنگ پاکستان کی جانب سے شروع کی گئی تھی۔

بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائیوں کے مقاصد پوری دنیا پر واضح ہوچکے ہیں اور عالمی برادری کو یہ احساس ہورہاہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند عوام کو کچلنے اور ان کو بھارتی تسلط قبول کرنے پر مجبور کرنے میں ناکامی پر پردہ ڈالنے اور اپنے عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کیلئے آگ وخون کاایسا خطرناک کھیل کھیلنے کی کوشش کررہاہے جس سے نہ صرف پاکستان وبھارت کے عوام بلکہ اس پورے خطے اور بحیثٰیت مجموعی پوری دنیا کا امن غارت ہوسکتاہے۔

بھارت میں نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی اپنے ایک مضمون میں، میں اس خدشے کااظہار کرچکاہوں کہ نریندر مودی ہر مسئلے کو طاقت کے ذریعے دبانے یا فریق مخالف کو ختم کردینے کی ڈاکٹرائن پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے اسی نظریئے کی وجہ سے بھارت کی انتہا پسند تنظیم نے اعلیٰ منصب پر فائز کیاہے۔ اس لئے پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحانہ کارروائیوں پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس وقت بھارت میں ڈرائیونگ سیٹ پر کون بیٹھاہے اور اس کاماضی کتنا خون آشام رہاہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خون آشام اور انتہا پسندانہ جبلت کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو آج پاک بھارت کشیدگی کی انتہا کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے اورجس پر پوری دنیا تشویش کااظہار کررہی ہے۔ روس کے دفتر خارجہ نے گزشتہ روز ایک بیان میں پاک بھارت کشیدگی اورکنٹرول لائن پر امن کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتے ہوئے امیدظاہر کی ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنمافوجی تصادم سے گریز کریں گے اور باہمی تنازعات کوپرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے، اس سے ایک دن قبل امریکی دفتر خارجہ سے جاری بیان میں بھی اسی طرح کی تلقین کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے تحمل اوربرداشت کا رویہ اختیار کرنے کی امید کااظہار کیاگیاتھا۔ اگرچہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی پر دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے تحمل وبرداشت سے کام لینے کی ان اپیلوں سے پاک بھارت سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ان کی تشویش کا اظہار ہوتاہے لیکن ان کی اس تشویش سے زیادہ تشویشنا ک بات یہ ہے کہ بھارت کی اتحادی ان دونوں بڑی طاقتوں کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود اصل تنازع اور اس صورتحال کاسبب بننے والے مسئلے کااشارتاً ذکر کرنے سے بھی گریز کیا گیا۔

سمجھنے اور سوچنے کی بات یہی ہے کہ بڑی طاقتیں جو دنیا بھر میں قیام امن کے نام سے اپنی مسلح افواج بھیجنے سے بھی گریز نہیں کرتیں اور بدامنی کا خاتمہ کرنے اور دنیا کو پرامن اور پر سکون بنانے کیلئے مختلف ملکوں کے لاکھوں شہریوں کو موت کی نیند سلانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتیں وہ پاک بھارت کشیدگی کے اصل سبب کامداوا کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں ہیں۔ یہ ایک سیدھی اور سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اگر امریکا اور برطانیا کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کیلئے اسی طرح کمر بستہ ہوجائیں جس کامظاہرہ انھوں نے سوڈان اور تیمور کے حوالے سے کیاتھا تو یہ مسئلہ بھی اسی آسانی کے ساتھ حل ہوسکتاہے جس طرح اول الذکر دونوں مسائل حل کئے گئے تھے۔ یہ ایک واضح امر ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بنیادی مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو ان ملکوں کے درمیان پانی کے سوا کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ باقی نہیں رہ جائے گا جس کی بنیاد پر دونوں ملکوں کواپنی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی کرنا پڑیں۔

آج پاکستان اور بھارت جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اور جنگ کے مہیب بادلوں نے جس طرح برصغیر کے افق کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کا تدارک بڑی طاقتوں کی جانب سے محض تشویش کے اظہار اور صبر وتحمل کی تلقین سے نہیں ہوسکتا، کیونکہ آ پ کسی بھوکے کو روٹی دینے کے بجائے صرف صبر کرنے کی تلقین کرتے رہیں تو وہ زیادہ دیر تک موت وزیست کی کشمکش جاری نہیں رکھ سکے اور بھوک کے مارے جاں بحق ہوجائے گا صبر کی تلقین اس کی جان نہیں بچاسکے گی، آپ کسی زخمی کی مرہم پٹی کرنے کے بجائے اس کو صبر کی تلقین کرتے رہیں اور اس کا بہتاہوا خون روکنے کی تدبیر نہ کریں تو وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنے اورظالم کو ظالم، جابر کو جابر اورغاصب کو غاصب کہنے سے گریز کرتے ہوئے ظالم ومظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے اور مظلوم کی کمزوری کافائدہ اٹھاتے ہوئے خود اسے ہی ظلم ڈھائے جانے کاسبب قرار دینے سے نہ تو مسئلہ حل ہوگا اور نہ جنگ کے بادلوں کی ہولناکی میں کسی طرح کی کوئی کمی آسکتی ہے، ایسی صورتحال میں اب وقت آگیا ہے کہ بڑی طاقتیں اگر واقعی اس خطے اوربحیثیت مجموعی پوری دنیا میں امن کی خواہاں ہیں تو دورنگی اور دوغلی پالیسیوں اوردہرے معیار کو ترک کرکے مظلوم کو مظلوم اور ظالم وجابر کو ظالم وجابر قرار دے کر مظلوم کو انصاف کی فراہمی کیلئے اپنا اثر ورسوخ اور وسائل بروئے کار لائیں۔

بڑی طاقتوں کے رہنماؤں کو اس بات کااچھی طرح اندازہ ہوجانا چاہئے کہ اب دنیا بھر میں قیام امن کے حوالے سے ان کے تاخیری حربے اور مظلوم وظالم کے درمیان انصاف کے حوالے سے ان کا دہرا معیار کھل کر سامنے آچکاہے، گزشتہ 70سال کے عالمی واقعات سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ بڑی طاقتیں مظلوموں کو انصاف کی فراہمی پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ پر زیادہ زور دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں ان کا مفاد وابستہ ہوتاہے وہاں فوری کارروائی کرکے لاکھوں بے قصور شہریوں کو موت کی نیند سلانے سے بھی گریز نہیں کیاجاتا لیکن جہاں ان کامفاد وابستہ نہ ہو یا حالات کو جوں کاتوں رکھنے اور مظلوموں کو ظلم سہتے رہنے پر چھوڑ دینے میں ان کامفاد ہووہاں وہ تاخیری حربے اختیار کرکے ہٹو بچو اور صبر وتحمل اور برداشت جیسے خوبصورت الفاظ میں اپنا دوغلا پن چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑی طاقتوں کی دوعملی پوری طرح بے نقاب ہوجانے کی وجہ ہی سے آج پوری دنیا میں حریت پسند عوام انصاف کے حصول کیلئے ان کی طرف دیکھنے کے بجائے خود ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اب ان رہنماؤں کو اپنی بالادستی خطرے میں نظر آنے لگی ہے اوراب وہ انھیں دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر انھیں ختم کرنے کیلئے پوری دنیا کے فوجی اور مالی وسائل اکٹھا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حالانکہ انھیں اب اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہئے تھا کہ آج دنیا کے مختلف حصوں میں طالبان، القاعدہ، داعش اوراس جیسی تنظیموں کے قیام اور ان تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان طاقتوں نے مظلوموں پر ظلم ڈھانے والوں کو اپنے مفادات کے تحت نہ صرف یہ کہ پروان چڑھایا ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ مظلوموں کوزیادہ سختی سے کچلنے کیلئے انھیں وسائل بھی فراہم کئے ظاہر ہے اپنے دکھوں کاکوئی مداوا کرنے والا نظر نہ آنے پر وقت کے مفاد پرستوں نے ان مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے نام پر ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا اور آج یہ ایک ایسی طاقت بن چکے ہیں جن کے نام ہی سے بڑی طاقتیں لرزہ براندام ہوجاتی ہیں۔

میں یہاں غیر آئینی اور غیر اخلاقی کارروائیوں میں مصروف انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی وکالت نہیں کررہا بلکہ ایک حقیقت کی عکاسی کرنا چاہتا ہوں اور بڑی طاقتوں کے رہنماؤں کو یہ باور کرانا چاہتاہوں کہ تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت آنے سے قبل ہی وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں اور اگر وہ واقعی اس خطے کو جنگ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں کو صبر کی تلقین کرنے کے بجائے گزشتہ 70سال سے کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے بھارت کو لگام دینے اور اس مسئلے کواقوام متحدہ کی ان قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر مجبور کریں جن کی ان دونوں ممالک کے رہنما توثیق کرچکے ہیں اوران پر عملدرآمد کرنے کی عالمی برادری کو یقین دہانی کراچکے ہیں، جب تک اس ناسور کو جڑ سے ختم نہیں کیاجاسکتا پاکستان اور بھارت پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور چونکہ اب یہ دونوں ملک اٰیٹمی طاقت ہیں اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی وقت کسی بھی جنگ کی صورت میں صرف یہی دو ملک تباہی کاشکار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے مہیب اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے اس طرح اس کاخمیازہ ان دونون ملکوں کے رہنماؤں کو صبر کی زبانی تلقین کرنے والی بڑی طاقتوں اور ان کے عوام کو بھی بھگتنا پڑے گا۔


متعلقہ خبریں


سانحہ کوئٹہ:"را" اورافغان خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی، کَڑیاں ملنے لگیں وجود - جمعرات 27 اکتوبر 2016

کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے  بھاری ہتھیاروں  کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش  حم...

سانحہ کوئٹہ:

سفارتی محاذ پربھارت کو ایک اور شکست,برطانیہ نے بھی پاکستان مخالف پٹیشن مسترد کردی شہلا حیات نقوی - هفته 22 اکتوبر 2016

امریکاکے بعد برطانیہ نے بھی پاکستان کودہشت گردوں کی پناہ گاہ قراردینے کا بھارتی دعویٰ یکسر مسترد کردیا برطانیہ میں مقیم بھارتیوں کی آن لائن پٹیشن پر پاکستان کی قربانیوں کے برطانوی  اعتراف نے بھارتی غبارے سے ہوا نکال دی امریکا اوربرطانیہ دونوں ممالک نے بھارتی حکومت کے اشارے اور ...

سفارتی محاذ پربھارت کو ایک اور شکست,برطانیہ نے بھی پاکستان مخالف پٹیشن مسترد کردی

بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت ایچ اے نقوی - جمعرات 06 اکتوبر 2016

بھارتی فوج کی جانب سیکنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعے کے بعدجسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی ناکام کوشش کی، بھارتی فوج کے سربراہ نے عالمی سطح پر بھارت کی اس مذموم کارروائی کی مذمت سے بچنے کیلیے اعلان کیاتھا کہ کنٹرول لائن پر جو واقعہ ہوا، اس کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف...

بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت

پاک بھارت تنازع، بھارتی سیاستدان منتشراور پاکستانی سیاستدان متحد، خوش کن منظر ایچ اے نقوی - بدھ 05 اکتوبر 2016

اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...

پاک بھارت تنازع، بھارتی سیاستدان منتشراور پاکستانی سیاستدان متحد، خوش کن منظر

کشمیر میں جاری آپریشن توڑ پھوڑ الطاف ندوی کشمیری - بدھ 05 اکتوبر 2016

یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...

کشمیر میں جاری آپریشن توڑ پھوڑ

پاکستان کی مضبوط سفارتی مہم اور قومی یکجہتی، مودی پسپائی پر مجبور انوار حسین حقی - منگل 04 اکتوبر 2016

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...

پاکستان کی مضبوط سفارتی مہم اور قومی یکجہتی، مودی پسپائی پر مجبور

جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ، بھارتی فوج اپنے ہی عوام کو اُلو ّ بنانے لگی ایچ اے نقوی - جمعه 30 ستمبر 2016

بدھ کی شب تقریباً ڈھائی بجے یا یوں کہیے کہ جمعرات کو علی الصبح جب کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے شہری اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے تھے بھارتی فوج نے یہ سوچ کر کہ شاید پاکستانی فوجی بھی خواب غفلت میں کھوئے ہوں گے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج نے اس کافوری جواب دیا، ب...

سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ، بھارتی فوج اپنے ہی عوام کو اُلو ّ بنانے لگی

بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کا دباؤ‘ سرجیکل اسٹرائیکس ڈرامے کی وجہ بنا عارف عزیز پنہور - جمعه 30 ستمبر 2016

اوڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت پر وہاں کے میڈیا اور انتہاپسند ہندو تنظیموں کا شدید دباؤ تھا کہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے جوش خطابت میں پاکستان کو دندان شکن جواب دینے کی بڑھکیں تو لگادیں مگر جب انہیں عملی جامہ پہانے ...

بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کا دباؤ‘ سرجیکل اسٹرائیکس ڈرامے کی وجہ بنا

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا انوار حسین حقی - بدھ 28 ستمبر 2016

’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا

چیلنج قبول کریں میاں صاحب! عبید شاہ - منگل 27 ستمبر 2016

اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...

چیلنج قبول کریں میاں صاحب!

پاک بھارت کشیدگی، سفارتی سرگرمیوں میں تیزی، قوم اور حکومت ہم آواز انوار حسین حقی - منگل 27 ستمبر 2016

مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں کا مرکز تو ہمیشہ ہی رہتا ہے البتہ ان سرگرمیوں میں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ان دنوں یہاں سفارتی سرگرمیوں کا موضوع پاک بھارت کشیدگی ہے جبکہ سیاسی سرگرمیاں رائے ونڈ مارچ کے حوالے سے جاری ہیں۔ جنو...

پاک بھارت کشیدگی، سفارتی سرگرمیوں میں تیزی، قوم اور حکومت ہم آواز

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر