... loading ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات زبان استعمال کرنا بھارتیوں کا شیوہ قرار دیا جاتا ہے۔ شاید کسی بھارتی جنگل کا واقعہ ہے جہاں کا بادشاہ شیر مر گیا، جنگل کے جانوروں نے پنچایت بلائی اور نئے بادشاہ کے نام پر خوب دھواں دھار بحث و مباحثہ کیا گیا۔ آخر میں سب نے طے کیا کہ جنگل میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، اس لیے جن جانوروں کی تعداد زیادہ ہے انہی میں سے کسی کو بادشاہ بنا دیا جائے، جنگل میں بندر وں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اس لیے بندروں نے اپنے سردار کو جنگل کا بادشاہ بنوا دیا۔ نئے بادشاہ سلامت نے حکم جاری کیا کہ تمام جانور اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رابطہ کریں اور کوئی جانور اپنا مسئلہ خود سے حل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پہلا کیس ایک ہرنی کا تھا، ہرنی نے فریاد کی کہ اس کے بچے کو چیتا اٹھا کرلے گیا ہے فوری طور پر کچھ کیا جائے، اس خونی چیتے کا تعاقب کیا جائے، اس کے بچے کو چیتے سے چھڑایا جائے تاکہ اس کا بچہ اسے واپس مل جائے اور اس کی ممتاکو ٹھنڈک ملے۔ بندر شاہ نے ہرنی کی فریاد سننے کے بعد ایک ڈال سے دوسری ڈال اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔ بہت دیر تک بندر شاہ اسی طرح قلابازیاں کھاتے رہے، اس دوران چیتے نے ہرنی کے بچے کوکھا کر ڈکار لی اور یہ جا وہ جا۔ ہرنی بیچاری بیہوش ہو کر گر پڑی، دیگر جانوروں نے عر ض کی جہاں پناہ !آپ نے ہرنی کے بچے کو بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ بندر شاہ یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے، بولے تم لوگ دیکھ نہیں رہے تھے میں نے کس قدر کوشش کی، کتنی اچھل کود کی، میں تو درختوں پر کود کود کر ہلکان ہوگیا، اس سب کے باوجود اگر چیتے نے ہرنی کے بچے کو نگل لیا تو اس میں میرا کیا قصور؟ بندروں نے شور مچا دیا واوہ واہ۔ ۔ ۔ کیا شاندار کوشش کی ہمارے بندر شاہ نے، کمال ہو گیا، اس سے اچھی کوشش تو کبھی کسی نے کی ہی نہیں۔ اس بندر شاہ کی طرح لالہ جی بھی چھلانگیں لگانے اور کود پھلانگ میں لگے ہوئے ہیں اور لفظوں کے تیر خوب چلا رہے ہیں اور اپنی کارگزاریوں کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی بڑ بولے پن میں لالہ جی نے بڑے اناڑی پن کے ساتھ نیا پنگا لے لیا، بولے ہم نے سرجیکل اسٹرائیک کی اور اتنے بندے مار دیے، اتنے اڈے تباہ کر دیے، میڈیا نے ثبوت مانگا تو لالہ جی پریس کانفرنس چھوڑ کر بھاگ گئے۔
لالہ جی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایل او سی ہو، ورکنگ باؤنڈری ہو یا عالمی سرحد، پاک فوج کے جوان ہر وقت چوکس اور ہر لمحہ تیار ہیں۔ بارڈر پر اڑنے والے پرندے اوردوڑتی گلہریاں بھی پاکستانی شاہینوں کی نگاہ میں رہتی ہیں، ایسے میں کسی بھارتی فوجی کا سرحد پار آنا اور زندہ واپس چلے جانا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ بھارتیوں کی احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات زبان کا استعمال حیرانی کی بات نہیں، خود بھارتی اس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ویرگھوناتھن کی کتاب ’’گیمز انڈین پلے‘‘ میں بھارتیوں کی بدحواسیوں کا احوال بیان کیا گیا ہے، کتاب میں لکھا ہے بھارتی زندگی کو کھیل سمجھتے ہیں اس لیے روز مرہ زندگی کے کام بھی کھیل سمجھ کر انجام دیتے ہیں، بھارتیوں میں کامل سینس کا فقدان ہے، دانت برش کرنے کیلیے نلکا پورا کھول کر کھڑے ہوتے ہیں، جب تک برش کرتے ہیں پانی بہتا رہتا ہے۔ بچا ہو اکھانا فریج میں جمع کرتے رہتے ہیں، نہ خود کھاتے ہیں نہ کسی کو کھانے کے لیے دیتے ہیں آخر کار جب سڑ جاتا ہے تو کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارتی سڑکوں پر، پارکوں میں، گلیوں میں کھیتوں میں الغرض جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ کر رفع حاجت کر لیتے ہیں، نہ باتھ روم بناتے ہیں نہ ٹوائلٹ بنانا پسند کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے لالہ کی مودی سرکار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لوگوں کو ٹوائلٹ جانے کی ترغیب دینے کے لیے باقاعدہ مہم چلا رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے جو لوگ ٹوائلٹ نہیں جاتے وہ سرحدوں کے پار کیسے جا سکتے ہیں۔ لالہ جی بڑھکیں نہ ماریں واہگہ بارڈر پر سرشام ہونے والی تقریب دیکھ لیں ہمارے جوانوں کی للکار سن کر کہیں انہیں ٹائلٹ ہی نہ جانا پڑ جائے۔ ۔ ۔ !
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...