وجود

... loading ...

وجود

کان کا کنگن

هفته 01 اکتوبر 2016 کان کا کنگن

telephone

ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے گراہم بیل کے پاس آئے اس کو گلے لگا کر ماتھا چوما اور دیوانہ وار گھومنا شروع کردیا۔ حیرت کی تصویر بنے گراہم بیل نے پوچھا واٹسن کیوں باؤلے ہوئے ہو۔ واٹسن کا جواب تھا میں نے سن لیا، میں نے سن لیا۔ ارے سن لیا تو اس میں بیوقوفوں کی طرح خوش ہونے کی کیا ضرورت ہے میاں۔ اس کے جواب میں واٹسن نے جو کہا اس کو سن کر گراہم بیل خود بھی خوشی سے جھومنے لگا۔ ڈاکٹر واٹسن نے گراہم بیل کو بتایا کہ انہوں نے مسٹر بیل کی آواز اس آزمائشی آلے پر سنی جس پر دونوں وائرلیس کے تجربات کر رہے تھے۔ اس طرح دنیا کو پہلا ٹیلی فون ملا۔ ٹیلی فون نے دنیا کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ورنہ ہزاروں میل دور بیٹھ کرکسی سے ایسے بات چیت کرنا جیسے وہ سامنے بیٹھا ہے، کسی افسانے یا دیومالائی کہانی جیسا ہی لگتا ہے۔ ٹیلی فون بہت جلدہی مغرب میں شہری زندگی کا لازمی حصہ بن گیا۔ پھر رابطے کے اس جن نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑلیا۔ لیکن ہمارے ملک میں تو ہر شے کا انداز نرالا ہے وہ ٹیلی فون جودنیا بھر میں انسانی ضرورت کی چیز بن چکا تھا، ہمارے ملک پاکستان میں ابھی کوئی بیس پچیس سال پہلے تک اسٹیٹس سمبل ہوا کرتا تھا۔ جس کے گھر ٹیلی فون ہوتا وہ صاحب حیثیت یعنی امیر کہلاتا تھا۔ مثل مشہور تھی کہ دادا نئے ٹیلی فون کنکشن کیلیے اپلائی کرے تو پوتے کو جا کر استعمال کرنا نصیب ہوتا ہے۔ ٹیلی فون لگوانے کے لیے بہت ہی تگڑی سفارش تلاش کرنا پڑتی تھی۔ اگر کسی متوسط شخص کو مرادوں وسیلوں اور سفارش کے بعد ٹیلی فون کا کنکشن مل جاتا تھا تو جیسے دن عید اور رات شب برأت ہو جاتی تھی۔ محلے کا محلہ مبارک باد دینے آتا تھا۔ ویسے اس زمانے میں جس گھر میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا، علاقے میں اس گھر کی دھوم او ر گھرانے کی واہ واہ ہوا کرتی تھی۔ لوگ منتیں کرکے صاحبِ ٹیلی فون سے اس کا نمبر لیتے تھے او ر اپنے احباب کو دیتے تھے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں رابطہ کیا جا سکے۔ کچھ قریبی جان پہچان والوں کو فون استعمال کرنے کی اجازت بھی ہوتی تھی لیکن ایسے میں گھڑی پر گہری نظر رکھی جاتی تھی اور دو منٹ پورے ہونے کے بعد اور تین منٹ پورے ہونے سے پہلے کال کاٹ د ی جاتی تھی۔ ہاں اس دور میں اکثر گھروں میں ٹیلی فون کو تالے والے لکڑی کے بکس میں بند کرکے رکھا جاتا تھا۔ قربانی کا گوشت ہو یا کسی گھر میں کوئی اچھی چیز پکے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ٹیلی فون رکھنے والوں کے گھروں میں بھیجی جاتی تھی۔

پھر ہوا یہ کہ ملک پاک میں فون اشرافیہ کا سمبل نہ رہا، مواصلات کی تیز رفتار ترقی اور سستے اور عام ہوتے فون کے استعما ل کے آگے اسٹیٹس کا سمبل دھڑام سے گرگیا۔ اب عام گھروں میں بھی ٹیلی فون لگنے لگا۔ لیکن اس سے عام آدمی خاص نہیں بن گیا۔ بس خاص لوگوں نے کسی دوسرے آئٹم کو اسٹیٹس سمبل بنا لیا۔ نوے کی دہائی کے آخر میں پھر ٹیلی فون اشرافیہ کا نشان بننے لگا لیکن اس بار یہ ٹیلی فون تار کے جھنجھٹ سے آزاد تھا، اس فون کو اپنے ساتھ رکھا جا سکتاتھا اور کہیں سے بھی استعما ل کیا جاسکتا تھا۔ اس ٹیلی فون کو موبائل فون یا سیل فون کہا گیا۔ شروع کے موبائل فون اتنے بڑے ہوتے تھے کہ ان سے ناریل توڑے جا سکتے تھے۔ اس قدر بھاری بھرکم فون کو اٹھانا بھی ایک مصیبت تھی لیکن اشرافیہ کو یہ مشقت بھی قبول تھی، ہاتھ میں ہاتھ کے سائز سے ڈبل موبائل فون اٹھائے پھرنا اسٹیٹس سمبل بن چکا تھا اور ان غریبوں کا منہ چڑا رہا تھا جنہوں نے گھروں میں ٹیلی فون لگوالیے تھے۔ پھر ہوا یوں کہ موبائل فون انڈسٹری نے تیزی سے اور ہمہ جہت ترقی کی، دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون چھوٹے ہونے لگے۔ لیکن اس کے باوجود سستے پھر بھی نہیں تھے اور کنکشن بھی مہنگا تھا۔ کال کرنے پر ہی نہیں سننے پر بھی پیسے لگتے تھے۔ موبائل فون کمپنیوں نے سستے فون بنانے شروع کیے تو عام آدمی کے ہاتھ میں بھی موبائل سیٹ آگیا۔ نوکیا اس دور میں سب سے مہنگا او ر پائیدار سیٹ تصور کیا جاتا تھا۔ اب سب کے ہاتھوں میں موبائل فون تھے لیکن جس کے پاس نوکیا ہوتا اس کی حیثیت بہتر تصور کی جاتی تھی۔ پھر ایک کے بعد ایک جدید ترین موبائل فون دھڑا دھڑ مارکیٹ میں آنے لگے، اب تو پورے کا پورا کمپیوٹر ہی موبائل فون میں سما چکا ہے۔ بھلا ہو چائنا کا جس نے نقل بمطابق اصل اس طرح بنا دی کہ عوام الناس کے ہاتھ میں ہر طرح کے موبائل سیٹ پہنچا دیے۔ لیکن ایک چیز پہلے بھی موجود تھی اور اب بھی موجود ہے یعنی مہنگا موبائل فون رکھنا اسٹیٹس اور فیشن کی نشانی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔۔ ۔


متعلقہ خبریں


ک سے کچرا شاہد اے خان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...

ک سے کچرا

ہنسی خوشی اورہم شاہد اے خان - منگل 04 اکتوبر 2016

کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...

ہنسی خوشی اورہم

بڑھکیں اورٹوائلٹ شاہد اے خان - پیر 03 اکتوبر 2016

سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...

بڑھکیں اورٹوائلٹ

دوسرا پہیہ شاہد اے خان - جمعرات 29 ستمبر 2016

آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...

دوسرا پہیہ

بچہ جمہورا شاہد اے خان - منگل 27 ستمبر 2016

کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...

بچہ جمہورا

پچھلا دروازہ شاہد اے خان - جمعه 23 ستمبر 2016

کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...

پچھلا دروازہ

انسان اور مشین شاہد اے خان - بدھ 21 ستمبر 2016

انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...

انسان اور مشین

موبائل فول شاہد اے خان - هفته 17 ستمبر 2016

ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...

موبائل فول

زندگی کی چاٹ شاہد اے خان - منگل 13 ستمبر 2016

زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...

زندگی کی چاٹ

سڑک کا حق شاہد اے خان - هفته 10 ستمبر 2016

میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...

سڑک کا حق

پانی کی کہانی شاہد اے خان - جمعرات 08 ستمبر 2016

سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...

پانی کی کہانی

زندگی کی بقاء شاہد اے خان - بدھ 07 ستمبر 2016

پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...

زندگی کی بقاء

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر