... loading ...
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر نے انہیں اس تحفے کے عوض دئیے تھے جو بنگلہ دیش نے کئی سو ٹن خوشبو دار چائے کی صورت میں مصری فوج کو عرب اسرائیل جنگ کے دوران دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کی مرضی نہ تھی کہ وہ یہ تحفہ قبول کرتے۔ وہ فوج کو کمزور اور بے سرو سامان رکھنا چاہتے تھے۔مگر وزارت خارجہ اور کچھ دیگر وزراء کے کہنے پر وہ رضامند ہوگئے۔ بنگلہ دیش کی فوج کے پاس اس سے قبل صرف تین پرانے ٹینک تھے۔تحفے میں ملے یہ ٹینک وصول کرنے والوں میں اس سازش کا سرغنہ میجر فاروق الرحمان تھا جس کا تعلق پہلے بنگال لانسرز سے تھا جو ان کی فوج کی واحد آرمرڈ رجمنٹ تھی۔ ایک سال بعد اسی ٹینک میں بیٹھ کر میجر فاروق نے اپنے ساتھیوں سمیت، شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا۔
میجر فاروق کی اس سازش میں سب سے پہلے اس کا ہم زلف میجر عبدالر شید خوندکر شریک ہوا۔بہت دنوں تک ان سے یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ وہ کس دن اور کیوں کر شیخ مجیب الرحمان کو قتل کریں، ایک لمحے وہ یہ بھی سوچتے رہے کہ کیوں نہ انہیں انڈونیشیا کے سابق صدر عبدالرحیم سوئکارنو کی طرح نظر بند کرکے رکھا جائے۔وہ ان دونوں رہنماؤں میں بڑی مماثلت پاتے تھے۔ مگر ا س میں خطرہ یہ تھا کہ عوامی لیگ یا ہندوستان کی مدد سے وہ آزاد کرالیے جائیں گے۔
ان کے قتل کا ایک طریقہ یہ سوچا گیا کہ اسکواڈرن لیڈرلیاقت اپنے ساتھ ایک آٹومیٹک پستول رکھے اور ہیلی کاپٹر میں انہیں اس وقت گولی مار کر لاش کسی دریا میں اچھال دے جب ہیلی کاپٹر ایک فلائٹ کنٹرول زون سے دوسرے کنٹرول زون میں داخل ہونے کے قریب ہو۔ یہ پلان وہ کئی دن تک سوچتے رہے مگر اس پر عمل درآمد کی نوبت نہ آئی اس لئے کہ وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کے دوروں کا پروگرام بہت اچانک بنتا تھا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ دیر سے پکنے والی سازش کی اس کھچڑی کا علم اکثر فوجیوں کو تھا حتیٰ کہ فاروق کی بہن نے میجر رشید کو بتایا بھی کہ اس کا نام ڈھاکا یونیورسٹی میں مجیب کی حکومت کا تختہ الٹنے والوں میں لیا جارہا ہے۔خود ہندوستان نے مجیب کو اس سازش سے باخبر کیا تھا، مگر مجیب نے ساری انٹیلی جنس جرنیلوں کے پیچھے لگا رکھی تھی، جبکہ سازش کا زور میجر سطح کے افسران میں تھا۔
جب سب تیاریاں مکمل ہوگئیں تو میجر فاروق نے اپنی بیوی فریدہ کو چٹاگانگ میں اندھے حاٖفظ کے پاس ایک دن پہلے یعنی 14 اگست کو بھیجا۔اس حافظ جی کو وہ تین ماہ پہلے مل چکا تھا اور اسی بہاری حاٖفظ نے اسے نوید دی تھی کہ اگر وہ یہ کام ملک کی بہتری اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر کرے گا اور راز داری رکھے گا تو کامیابی ہوگی۔بیگم کے اس تک پہنچنے میں ٹیکسی تین مرتبہ راستے میں خراب ہوئی۔اندھے حافظ نے اس کی بیگم کو حیرت زدہ کردیا کیوں کہ جس چھوٹی سی جھونپڑی میں وہ بیٹھا تھا وہ پنکھا نہ ہونے کے باوجود نہ صرف ٹھنڈی تھی بلکہ اس غریب بستی میں جہاں جابجا گندگی تھی یہ وہ واحد جگہ تھی جو انواع و اقسام کی خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ اس اندھے حافظ (انہیں وہاں اسی نام سے پکارا جاتا تھا)کی بعد میں پاکستان کے ایک اہم مقتدر شخصیت سے ملاقات بھی ہوئی، اسی نے انہیں بتایا تھا کہ جب ہوا میں آموں کی پیٹیاں پھٹیں گی تو مسند اقتدار انہیں مل جائے گا۔
حافظ جی نے جمعہ کا دن فجر کا وقت اس واردات کے لئے سعد تجویز کیا۔ یوں بھی میجر فاروق ان چند لوگوں میں سے تھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ جمعہ کا دن اس کے لئے بہت موزوں ہے۔شیخ مجیب الرحمان کو ان کی موت کی پیش گوئی ایک ماہ قبل ان کے دفتر کے ایک سیکریٹری روح القدس نے بھی کی تھی جو علم نجوم میں خاصا ادراک رکھتا تھا۔
بارہ اگست 1975 کو فاروق کی شادی کی تیسری سالگرہ تھی، تقریب کو پر رونق بنانے کے لئے اس نے اخراجات اپنا پروجیکٹر بیچ کر پورے کیے تھے۔اسی تقریب میں بریگیڈیئر منصور الحق نے انہیں ایک بڑا گلدستہ پیش کیا جو ان کی جان بچا گیا۔ وہ شیخ مجیب الرحمان کے ملٹری سیکریٹری تھے۔سولہ اگست کو ہفتے کے دن صدر نے ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبا سے خطاب کے دوران میں اپنے آپ کو بنگلہ دیش کا تاحیات صدر بننے کا اعلان کرنا تھا۔کچھ دن پہلے ان کی بھانجی کی شادی کی وجہ سے تمام قریبی عزیز بھی ڈھاکا آئے ہوئے تھے یوں اجل ان سب کو کھینچ کر لے آئی تھی۔
پندرہ اگست کی صبح جب تمام ٹینک اور ٹرک بمع سپاہیوں کے اپنے مشن پر نکلے تو انہیں راستے میں کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہ ہوا۔ ڈھاکا کنٹونمنٹ میں میجر فاروق کے والد کو البتہ حیرت ہوئی کہ یہ فوجی قافلہ صبح ہی صبح کہاں چل پڑا ہے۔ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لئے کچھ دیر پہلے نماز کے لئے اٹھے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان میں سے ایک ٹینک میں ان کا اپنا بیٹا فاروق بنگلہ دیش کی نئی تاریخ رقم کرنے کے لئے سوار ہے۔راستے میں اُنہیں مکتی باہنی کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرنا پڑا۔ یہ وہ اسپیشل فوج تھی جو صدر شیخ مجیب الرحمان کی حفاظت پر مامور تھی۔ وہاں موجود سپاہیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ جس کی حفاظت کا ذمہ انہیں سونپا گیا ہے وہی ان کے ہاتھوں اجل کا نشانہ بنے گا ۔سوا پانچ بجے صبح جب یہ میر پور روڈ پر ایک ایسے پوائنٹ پر پہنچے،اس وقت مسجدوں سے فجر کی اذان بلند ہورہی تھی۔ فاروق نے اسے ایک خوش آئند نوید جانا۔ جہاں سے انہیں اپنے تین اہداف،32 دھان منڈی جہاں صدر مقیم تھے، میجر ہدیٰ جس کی ملاقات کے دوران میں واردات شیخ مجیب الرحمان سے گھر کی سیڑھیوں پر ہوئی وہ انہیں دیکھ کر بوکھلاگیا اور انہیں نیچے آنے کا کہتا رہا۔ اس دوران میجر نور پہنچ گیا جسے دیکھ کر ایک روایت کے مطابق بنگ بندھو نے گالی دی اور جواب میں اس کی اسٹین گن سے گولیوں کا ایک برسٹ نکلا اور شیخ مجیب الرحمان کے سیدھے جانب سے خون کا ایک فوارہ بلند ہوا اور وہ فوراً ہی جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ گھر کی سیڑھیوں پر ان کی لنگی اور سفید کرتے میں ملبوس لاش چار گھنٹے سیڑھیوں پر اس طرح پڑی رہی کہ سیدھے ہاتھ میں بدستور انہوں نے پائپ پکڑا ہوا تھا۔ جو وہ اکثر پیا کرتے تھے۔
قاتلوں کی تین ٹولیوں نے ان تمام افراد کو جن میں مجیب کا گیارہ سال کا چھوٹا بیٹا رسل ان کے صاحبزادے کمال اور جمال ان کی بیگمات سب کے سب شامل تھے کو گولیوں سے بھون ڈالا۔کچھ ملتا جلتا حال دیگر دو مقامات یعنی ان کے بہنوئی سرینیبت کے گھر پر ہوا جہاں میجر ڈیلم نے حملہ کیا تھا اور بھانجے شیخ مونی کے گھر پر این سی او مصلح الدین مسلم نے دھاوا بولا تھا۔شیخ مجیب الرحمان کے تمام اہم رشتہ دار اس قتل کی سازش میں مارے گئے صرف دو صاحبزادیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ زندہ بچ گئیں کیوں کہ یہ دونوں اس وقت ملک سے باہر تھیں۔ بریگیڈیئر منصور الحق کو فرار ہوتے وقت دیگر دو فوجیوں کے ساتھ پکڑلیا گیا تھا اور کنٹونمنٹ میں ایک ستون سے باندھ کر رکھا گیاجسے خوش قسمتی سے میجر فاروق نے واپسی پر دیکھ لیا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ آپ اچھے آدمی ہوآپ نے ہمیں شادی کی سالگرہ پر گلدستہ پیش کیا تھا۔ سچ ہے کہ کوئی اچھا عمل رائیگاں نہیں جاتا۔
فاروق کے ہم زلف میجر عبدالرشید نے پہلے ہی خوندکر مشتاق جو مجیب کی کابینہ میں وزیر تھا اس سے مجیب کے بعد صدر بننے کی بات کر رکھی تھی۔ ان کی اس سلسلے میں کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں ۔میجر عبدالرشید جب اسے لینے کے لئے پہنچا تو شان نزول یہ تھی کہ ڈھاکا کی مسیح لین جہاں مشتاق کا گھر تھا وہ ایک جیپ اور ٹینک کے ساتھ پہنچا۔ ہاتھ میں اسٹین گن بھی تھی۔مشتاق اسے اس حالت میں دیکھ کر گھبراگیا۔پیشکش کے جواب میں اس نے تیار ہونے کا وقت مانگا۔ بعد کے انٹرویوز میں مشتاق نے بتایا کہ اس نے عہدہ قبول کرنے کا فیصلہ ٹوائلٹ میں کیا۔اسے یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ ممکن ہے مجیب سے قربت کی بنیاد پر اسے وہ مارنے کے لیے لینے آیا ہو۔اپنی تین منزلہ مکان کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اس نے سوچا کہ ان کی نیتوں کا حال اسے نیچے پہنچ کر اسوقت ہوجائے گا جب وہ اس کی جیپ میں بیٹھیں گے۔اگر جیپ کا دروازہ اسے خود کھولنا پڑا تو اگلی منزل موت ہے اور اگر جیپ کا دروازہ میجر عبدالرشید یا کوئی اور اس کے لئے کھولتا ہے تو ان کی نیت صاف ہے۔ جیپ کا دروازہ کھولنے سے پہلے اسے وہاں موجود سپاہیوں اور میجر نے باقاعدہ ضابطے کے مطابق سلیوٹ پیش کیا اور ایک سپاہی نے بصد آداب دروازہ کھولا۔اب منزل آسان تھی۔
ایک بات عجیب ہے کہ وہ تمام کردار جن پر پاکستان توڑنے کا الزام تھا ایک عبرت ناک اور درد انگیز موت کا شکار ہوئے۔ حتیٰ کہ وہ باقی کردار بھی جو شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ہلاک ہونے سے بچ گئے تھے وہ بعد میں اپنے ایام ِاسیری میں ایک جوابی انقلاب کے نتیجے میں مارے گئے۔ شیکسپیئر نے تویہ کہا تھا” انسان جو برائیاں کرتا ہے وہ پیچھے رہ جاتی ہیں مگر اس کی اچھائیاں اس کے ساتھ قبر میں داخل ہوجاتی ہیں” مگر اصل اورعمدہ نکتہ ایک حدیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ “ہر برائی اپنے کرنے والے کی طرف مڑ کر آتی ہے۔”
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...
[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...