... loading ...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔
’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کوئی اور بیرونی قوت نہیں، بلکہ خود جنونی ہندو ہوں گے۔ ‘‘
بھارتی آبادی کا اسی فیصد ہندو ہیں جن میں ہر گزرتے دن مذہبی جنون بڑھتا جارہا ہے۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد بارہ برس کی سب سے طویل مدت گزارنے والے بھارت کے پہلے صدر تھے۔ سومنات کے نوتعمیر شدہ مندر کے افتتاح کے لیے ڈاکٹر راجندر پرشاد راضی ہوئے تو نہرو نے اُنہیں شدید ناراضی کے ساتھ خط لکھاتھاکہ ایک سیکولر ریاست کے سربراہ کو مذہبی معاملات سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہئے۔ چالاک وزیراعظم کو کم ازکم ظاہری حد تک بھارت کے سیکولر چہرے کی پروا تھی۔ زیادہ گہرے تجزیئے میں ہندو ذہن تب زیادہ سمجھدار تھا اور اپنے حیات بخش عوامل کی حفاظت کے طریقہ ٔ کار سے آگاہ بھی تھا۔ بعد میں ہندو ذہنیت نے یہ تکلفات ختم کردیے۔ یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی اپنی وحشت کا نشانا بنانا شروع کردیا۔ اب بھار ت میں ہر جگہ آرایس ایس کا راج ہے۔ وہی آر ایس ایس جن میں اٹل بہار واجپائی، ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ نریندر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کرکے انتہاپسند ہندوؤں کے سامنے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر اپنے کوائف ثابت کیے تھے۔ اب وہی ہاتھ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر پاکستان کو دھمکیاں د یتے نظر آتے ہیں۔
خوشونت سنگھ نے کمال کا نکتہ اپنی کتاب میں سپرد قلم کیا تھا۔ بھارت نے 1947ء میں آزادی کے بعد ’’ہندو انتہاپسندی ‘‘ کے خطرے کا ادارک سرے سے کیا ہی نہیں تھا۔ وہ تو بائیں بازو اور کمیونسٹ افکار سے پریشان تھا۔ مگر اُنہیں معلوم ہی نہ تھا کہ برصغیر کے مزاج میں انتہاپسندی کی زمین کس فکر سے زرخیز ہوتی ہے۔ انتہاپسند ہندو ذہنیت کا احیاء سب سے بڑا خطرہ تھا جسے بھارت کو نگل لینا تھا۔ تبدیلی کا مخالف اور ماضی کا پرستار ہندو ذہن دراصل برہمن غلبے کا دوسرا نام ہے۔ اور وہ اپنے راستے کی ہررکاوٹ سے نبرد آزما ہے۔ سکھ، عیسائی، بدھ اور مسلمان ہی کیا، وہ تو اپنے ہی دھرم کی نچلی ذاتوں کو بھی پامال کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ کوئی غور کیوں نہیں کرتا کہ برصغیر کا بہترین قانونی دماغ ڈاکٹر امبیدکر اپنا ہندو مذہب ترک کرنے پر کیوں تیار ہوا؟ ہندو مسلم سفیر کہلانے والے محمد علی جناح کیوں مسلمانوں کے متفقہ قائداعظم اور کانگریس یا ہندوؤں سے مذاکرات تک سے بیزار ہو گئے؟
دنیا میں صرف دوریاستیں ایسی ہیں جہاں انتہاپسندمذہبی نظریات کے باعث ووٹ کے ذریعے جماعتیں کامیابی حاصل کر لیتی ہیں۔ مگر ان کا ذکر دنیا کے پردے پر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک اسرائیل اور دوسری بھارت۔ کسی بھی مسلم ریاست میں کوئی مذہبی جماعت بھی ٹھیٹھ اسلامی نظریئے پر اس طرح ووٹ بٹورکر کامیابی حاصل نہیں کرپاتی جو اسرائیل میں یہودی انتہاپسند نظریات اور بھارت میں ہندوانتہاپسند نظریات کی بناء پر وہاں کی جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ آج کا بھارت دراصل کیا ہے؟ بھارت بدترین ہندو قوم پرستی کا ایک انتہاپسند چہرہ مکمل طور پر اختیار کرچکا ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں اس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنم لیا تھا۔ سوامی دیانند سرسوتی کی رہنمائی میں قائم آریہ سماج تحریک نے ’’ویدوں کی طرف واپسی‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اسی تحریک سے وابستہ کٹر ہندو پنجابی لالہ لاجپت رائے دراصل بھارتی کانگریس کا بھی رکن تھا۔ گن پتی مسلک کا احیاء کرنے والا بال گنگا دھر تلک دراصل مہاراشٹر سے تعلق رکھتا تھا۔ ان تحریکوں کے بطن سے ہندوؤں کی مسلح تنظیمیں نکلیں۔ جن میں سب سے موثر راشٹریہ سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس تھی۔ جس کی بنیاد 1925 میں ناگپور میں رکھی گئی۔ اس کے بانی کیشو بلی رام ہجوار نے ہی ہندو راشٹر یعنی ہندو ریاست کے نظریئے کا پرچار کیا۔ یہ مسلمانوں کا شدید دشمن اور گاندھی کا بھی شدید مخالف تھا۔ کیشو بلی رام، ایم ایس گول واکراور بالاصاحب دیوراس نے مل کر ایک فاشست پروپیگنڈے کے ساتھ آرایس ایس کو مضبوط کیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو تقسیم ہند کے وقت بے بس مسلمان بچوں، بوڑھوں، عورتوں اورنہتے لوگوں کو قتل کرنے کے مرتکب تھے۔ یہ جماعت بتدریج بھارت میں مرکزی حیثیت اختیار کرتی چلی گئی۔ اسی آرایس ایس کی بغل بچہ تنظیم بھارتیہ جن سنگھ تھی جسے دنیا اب ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ بھارت میں آج یہی جماعت برسراقتدار ہے۔ ذرا ہندو انتہاپسندی کی بھارت کے ہندو معاشرے میں قبولیت کا اندازا کیجیے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی لوک سبھا میں 1984ء میں صرف دونشستیں تھیں جو 1991ء کے انتخابات میں بڑھ کر 117 ہو گئیں۔ اور آج وہ دوسری مرتبہ برسراقتدار ہے۔ ذرا جمہوریت میں بتدریج آنے والی بہتری کے باطل تصور کا بھی مشاہدہ کرلیجیے کہ بھارت کا پہلا وزیراعظم جواہر لال نہرو تھا اور اب اس کا وزیراعظم جمہوریت کی بتدریج بہتری کے ساتھ نریندر مودی ہے۔ خود بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی اسی اُصول پر پرکھ لیجیے! اس نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں اٹل بہاری واجپائی کو وزیراعظم بنا یا۔ مگر دوسری بار اقتدار ملنے پر شاعر واجپائی کے مقابلے میں گجرات کا قصائی اور ہزاروں انسانوں کے خون میں براہ راست ملوث نریندر مودی کو آگے لے کر آیا۔
بھارت میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے ہندو جنون نے مزید جماعتوں کی گنجائش کو مسلسل بڑھایا ہے۔ بال ٹھاکرے کی سربراہی میں شیوسیناقائم ہوئی۔ جو ہٹلر کا مداح تھا۔ یہ تحریک ابتدا میں بمبئی سے جنوبی ہندوستانیوں کو نکالنے کی بات کرتی تھی، پھر اس نے مزید آگے بڑھ کر مسلمانوں کو پورے ہندوستان سے نکالنے کا نظریہ اپنا لیا۔ بجرنگ دَل اور وشوہندوپریشد کی تنظیموں کو پہلی جماعتوں سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ یہ انتہا پسند جماعتیں اور جتھے بھارت میں مکمل مسلح ہیں۔ اور مل جل کر بھارت کوایک ہندوراشٹر (ہندوریاست) میں تبدیل کرچکی ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں آپ اس نوع کے مشاہدے نہیں کرسکتے جو بھارت میں مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں پر ناپسندیدہ کتابوں کو جلایا جاتا ہے۔ ناپسندیدہ فلموں کوسنیما میں چلنے نہیں دیا جاتا۔ مخالف صحافیوں کوکھلے عام مارا پیٹا جاتا ہے۔ اُن کے چہروں پر کالک ملی جاتی ہے۔ تاریخی کتابوں کے متن کو اپنے نظریات میں ڈھالنے کے لیے تحریف آشنا کیا جاتا ہے۔ اور اب عالم یہ ہے کہ بھارت میں لوگ اس وجہ سے ذبح کیے جارہے ہیں کہ وہ ہندوؤں کے عقائد کے برخلاف ایک مختلف خدا کو کیوں مانتے ہیں؟
یہ وہ بھارت ہیں جہاں آج کل پاکستان کے خلاف جنگی جنون پھیلانے کی باتیں ہورہی ہیں اور جسے آرایس ایس کے بطن سے جنمے نریندرمودی تقویت پہنچا رہے ہیں۔ ان تصورات سے یقینا خطے کو بہت سے خطرات لاحق ہیں مگر اس نے خطرے کی پہلی گھنٹی خود بھارت کی دہلیز پر بجادی ہے۔ خود شکنی پر آمادہ بھارت اب اپنی تقسیم کے خطرے سے دوچار ہے۔ خوشونت سنگھ نے اِسے ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ کہا تھا۔ کشمیر ی اسے ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کہتے ہیں۔ شکریہ آر ایس ایس، شکریہ نریندرمودی!!!!!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...
ہم وہ دن پیچھے چھوڑ آئے،جو دراصل ہمارے ساتھ چمٹ چکا ہے۔ ہماری تاریخ وتہذیب کے لئے سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے اور قومی حیات سے لے کر ہمارے شرعی شب وروز پر مکمل حاوی ہو چکا ہے۔یہ مسلم ذہن کے ملی شعور کی سب سے بڑی امتحان گاہ کا خطرناک ترین دن ہے۔ امریکامیں نوگیارہ سے قبل جاپان کی...