... loading ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا رخ اختیار کیا تھا اسی وقت ہم نے اسے ایک بڑے صہیونی استعماری کھیل سے تعبیر کردیا تھا۔ تیونس کا بن علی، مصر کا حسنی مبارک، شام کا بشار الاسد اوریمن کے صدر صالح کسی لحاظ سے بھی مغربی مفادات کے خلاف نہیں تھے ،بلکہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں وہی کچھ کررہے تھے جس کا امریکا اور مغرب دیگر مسلم ممالک سے تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ پھر اچانک ان ممالک میں اصلاح کے نام پر اسلام پسند تحریکوں کو جگہ بنانے کی سہولتیں کیوں دی گئیں۔۔۔ بشار الاسد، حسنی مبارک، بن علی ،قذافی اورصدرعبداللہ صالح نے اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی تحریکوں کو بری طرح کچلا تھا۔ شام میں اسد انتظامیہ نے باقاعدہ شامی مسلمانوں پر ماضی میں بھی فضائیہ سے بمباری کروا کر لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا تھا۔قذافی نے اپنے دور حکومت کو مسلمانوں کے حوالے سے ایک تماشا بنائے رکھا، پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ مغرب اپنے ہی مہروں کے خلاف ہوکر اسلامی تحریکوں کوکیوں سیاسی اور عسکری امداد سے نوازنے لگا؟
اصل صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ عرب ممالک میں آمروں کے طویل دور اقتدار نے ردعمل کی ایک تحریک کو اندر ہی اندر خاصا دو آتشا کردیا تھا۔دوسری بات یہ تھی کہ اسرائیل اپنے دجالی مقاصد کی خاطر جس وقت اپنی حدود سے باہر نکل کر عربوں کے وسائل اور علاقوں پر قبضہ جماتا تو یقینا یہ سوال اٹھ جاتا کہ اسرائیل اور امریکا نے اپنے ہی بنائے ہوئے مہروں کی دہائیوں پر پھیلی ہوئی خدمات کو نظر انداز کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس لیے منصوبے کے اگلے حصے کی ابتدا سے پہلے ان ممالک میں ایسی حکومتوں کا قیام انتہائی ضروری تھا جو عالمی رائے عامہ کے سامنے اسرائیل کی دشمن حکومتیں تصور کی جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ جس وقت تیونس میں بن علی کے سفاک ترین طرز حکمرانی کے خلاف عوامی ردعمل سامنے آیا تو مغربی سیسہ گروں کے کانوں میں گھنٹی بج گئی یہ ایک بڑا واضح اشارہ تھا کہ تیونس میں سلگنے والی چنگاری اب بجھے گی نہیں بلکہ اس کا پھیلاؤ شمالی افریقہ سے نکل کر مشرق وسطی تک جا پہنچے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی عالمی صہیونی استعماری قوتوں نے اسے روکنے کی بجائے مزید دوآتشا کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ اس سارے منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات یاد رکھیں کہ مصر کو عالم عرب میں وہی حیثیت حاصل ہے جو یورپ میں فرانس کو حاصل ہے ۔
فرانس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اسے چھینک آجائے تو تمام یورپ کو زکام ہوجاتا ہے یہی حیثیت مصر کی عالم عرب میں ہے۔ کیونکہ تاریخ کے پچھلے ادوار سے لیکر تاحال مصر عالم عرب میں بڑی سیاسی، سماجی، فکری اور معاشی تبدیلیوں کا منبع رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بھی بڑی تبدیلی کے لیے مصر کا ہی انتخاب کیا گیاکیونکہ مصر کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون ایک بااثر تحریک سمجھی جاتی ہے بلکہ اسے عالم عرب کی ’’ام الحرکات‘‘ یعنی اسلامی تحریکوں کی ماں کہا جاتا ہے۔منصوبے کے مطابق حسنی مبارک کو منظر سے ہٹا کر عام انتخابات کروائے گئے اور یقینی بات تھی کہ مصر میں اقتدار کے اس خلا کو اخوان المسلمون نے ہی پورا کرنا تھا۔ جیسے ہی اخوان سے تعلق رکھنے والے امیدوار محمد مرسی نے مصر کی صدارت کا حلف اٹھایا تو منصوبے کے مطابق زرخرید میڈیا نے محمد مرسی کے سرکاری اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناکر اسے اس طرح پیش کیا کہ عالمی رائے عامہ اور خصوصاً عالم عرب میں ایک مخمصے کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایک طرف محمد مرسی کے خلاف منصوبہ بندی سے یہ سلسلہ جاری تھا تو دوسری جانب ترکی کو بیس بنا کر شام کی خانہ جنگی میں تیزی لائی جانے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک طرف اس قسم کا پروپیگنڈا بھی شروع کردیا گیا کہ اگر دمشق پر اسلام پسند حکومت میں آگئے تو عالم عرب انتہا پسندی کی زد میں آسکتا ہے۔
مغرب کا اصل صہیونی منصوبہ یہ تھا کہ عالم عرب کے اہم ترین ممالک میں دینی جماعتوں کو مختصر عرصے کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جب یہ جماعتیں مین اسٹریم سیاست کے راستے اقتدار میں آجائیں تو پھر ان کے خلاف انتہاء پسندی کا پروپیگنڈا شروع کرکے عرب عوام کو ان سے بدظن کردیا جائے یوں عالمی رائے عامہ خود بخود ان سے خوفزدہ ہوجائے گی۔یہ وہی ’’کامیاب تجربہ‘‘ ہے جو عالمی صہیونی سیسہ گروں نے مشرف دور میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے ساتھ کیا تھا جب ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع تمام دینی جماعتوں کو خیبر پی کے کی حکومت دے کر انہیں آئندہ عوام کے سامنے آنے کے قابل ہی نہ چھوڑا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ایم ایم اے کے سابقہ دو اہم کردارجماعت اسلامی اور فضل الرحمن کو نہ افغانستان کے طالبان معتبر سمجھتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے’’ معتدل عوام‘‘ ان پر بھروسا کرنے کے لیے تیار۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس وقت پاکستان میں این آر او کی شکل میں جمہوریت کے نام سے بدنام زمانہ منصوبے کا دوسرا حصہ شروع ہوا تو ان دینی جماعتوں کا دور دور تک کچھ پتا نہ تھا۔مغرب اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ دینی جماعتیں جب حکومت میں نہ ہوں تو عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں اقتدار کا اگر دسواں حصہ بھی میسر آجائے تو ان کے لیڈر اپنے افکار کی لُٹیا ڈبونے میں دیر نہیں کرتے۔اسی تجربے سے استفادہ کرکے اب مغرب یہی کھیل عالم عرب میں کھیل رہا ہے ۔ لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ عالم عرب کی دینی تحریکیں پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں سے قدرے مختلف ہیں۔عالم عرب کی دینی جماعتوں میں سنبھلنے کی بہت گنجائش ہے ۔ مقاصد کے حصول کے لیے ان کا فکری شعور خاصا سنجیدہ اور قابل بھروسا ہے، جبکہ پاکستانی دینی جماعتوں کا سیاسی تشخص آج جس مقام پر کھڑا ہے اس معیار پر تو پرانے وقتوں کے دینی رہنما سوچ کر ہی پناہ مانگتے ہوں گے۔جماعت اسلامی کے قبلہ قاضی صاحب (مرحوم) گذشتہ دور میں ایم ایم اے کی خیبر پختون خواکی حکومت کی شکل میں خود تو افغان سرحدوں تک دراز ہو گئے تھے لیکن جماعت اسلامی بیچاری صرف منصورہ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ یہی حال حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی جماعت کا ہے کہ اگر انہیں اپنے بزرگوں کے قائم کردہ دینی مدارس کے لاتعداد طلاب کا سہارہ نہ ہو تو بہت جلد جے یو پی (ف) تاریخ کا حصہ بن جائے۔ باقی دینی سیاسی جماعتوں کا ذکر ہی کیا۔ ایک بات ذہن میں رکھیے گا کہ ہم یہاں صرف سیاسی دینی جماعتوں کی بات کررہے ہیں ،سیاست سے الگ دینی جماعتیں ہمارا موضوع نہیں۔
مصر کی اخوان المسلمون کی سب سے بھیانک غلطی اقتدار میں آناتھا جس کی وجہ سے صہیونیت نواز جنرل سیسی کو بھرپور انداز میں استعمال کرکے اخوان المسلمون کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ اقتدار سے باہر رہ کر وہ امریکا اور اسرائیل سمیت سب کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھی۔پاکستان کی سیاسی دینی جماعتوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اپنی اصل یعنی دینی اور دعوتی ذمے داریوں پر سیاست کو ترجیح نہ دیں بلکہ اس حوالے سے مشرف دور میں اپنی کارکردگی اور عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی قیادت میں تبدیلی کرکے ایسے افراد کو سامنے لائیں جو الزامات اور کرپشن کے حوالے سے پاک ہوں،پھر ہی وہ نتائج سامنے آسکتے ہیں جو عالم عرب کی دینی جماعتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ ورنہ عالم عرب کی دینی جماعتوں کی کامیابیوں پر پاکستان میں بیٹھ کر بغلیں بجانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ایک طرف جنت کی آرزو اور دوسری جانب رندوں کی محفل سوائے خسارے کے کچھ نہیں۔۔۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...
جدید تاریخ میں جب بھی دنیا کو کسی بڑی تبدیلی سے دوچار کیا گیا تو اس سے پہلے اس عالم رنگ وبو کو ایک زبردست ـ’’جھٹکا‘‘ دیا گیا۔ اس کی مثال اس انداز میں دی جاسکتی ہے کہ جس وقت جدید تاریخ کے پہلے دور میں دنیا خصوصا مغرب کو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں سے گزارا گیا تو پہلی عالمی جنگ کا ...