... loading ...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صرف اس وقت بنتا ہے جب یہاں کوئی سیاسی وحدت بھی قائم ہو جائے۔ برصغیر میں امن سے مراد اس کا سیاسی اکائی بن جانا ہے۔ اگر برصغیر ایک سیاسی وحدت یا اکائی نہ رہے، تو اس میں امن کا قیام بھی ممکن نہیں رہتا۔ دوسرے لفظوں میں برصغیر کے جغرافیہ اور تاریخ کا ایک ہونا امن کی لازمی شرط ہے۔
تاریخی طور پر مغلیہ دور میں کچھ عرصے کے لیے برصغیر تقریباً ایک سیاسی وحدت کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ مغلیہ زوال کے بعد برصغیر میں انتشار، طوائف الملوکی اور جنگ کا دور دورہ ہوا۔ برطانوی استعمار کے جبر اور غلبے سے برصغیر میں ایک بار پھر سیاسی وحدت قائم ہوئی اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ استعماری حکومت کے اختتام کے ساتھ ہی برصغیر کی سیاسی وحدت کا ایک بار پھر خاتمہ ہو گیا، اور یہ دو غیرمساوی ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔ تقسیم کے نتیجے کے طور پر برصغیر میں فوراً ہی جنگ کی واپسی بھی ہو گئی اور امن رخصت ہو گیا۔ برصغیر کی جغرافیائی وحدت اور ثقافتی رنگا رنگی ایک فطری صورت حال ہے۔ لیکن اس کا لازمی نتیجہ سیاسی وحدت کی صورت میں سامنے نہیں آتا جو تاریخی عوامل کے تابع ہے۔ برصغیر کی سیاسی وحدت کا خاتمہ دراصل امن ہی کا خاتمہ ہے۔ یہ وہ بنیادی سوچ ہے جس کی وجہ سے برصغیر کی سیاسی ”تقسیم“ کو جغرافیائی ”لکیر“ قرار دینے کی غیردانشمندانہ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوئی ”لکیر“ نہیں ہے، خون میں بجھی ہوئی تاریخ کی رہگزر ہے، اور یہی وہ تاریخ ہے جو آج بھی ہماری شناخت ہے اور ہمارا عمل ہے۔
فی الوقت برصغیر میں سیاسی وحدت کے قیام کے صرف دو ممکنات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہندو غلبے میں قائم ہو اور دوسرے یہ کہ وہ مسلم غلبے میں سامنے آئے، اور موجودہ حالات میں دونوں کا امکان صفر ہے۔ برصغیر میں سیاسی وحدت کے خاتمے کا مطلب امن کا خاتمہ تو ہے ہی، لیکن کیا اس کا مطلب مستقل جنگ بھی ہے؟ غیر ایٹمی برصغیر میں اس کا مطلب مستقل جنگ ہی تھا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے ایٹمی طاقت بن جانے سے برصغیر کی سیاسی اور حربی صورت حال ایک stalemate پر منتج ہوئی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جسے کچھ سیاسی اور جنگی تجزیہ نگار ’’نہ امن نہ جنگ‘‘ کی ترکیب سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے اس کا stalemate کے طویل ہونے کا امکان ہے، اور امن یا جنگ دونوں کا امکان بہت کم ہے، سوائے اس کے کہ دونوں میں سے ایک ملک کی قیادت یا تو مکمل طور پر پارسا ہو جائے یا پاگل ہو جائے اور پھر اقتدار میں بھی موجود رہے۔ اس پارسائی اور پاگل پن کا امکان بھی معدوم ہے کیونکہ دونوں خودکشی کے ہم معنی ہیں۔ لیکن جو مذہبی اور غیرمذہبی رومانوی لوگ برصغیر کی سیاسی وحدت پر یقین کامل رکھتے ہیں، انہیں بھی معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں جنگ برصغیر کو ایک نئی وحدت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایک ایسی وحدت جو راکھ کے ڈھیر میں ہوتی ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی ثقافتی، لسانی اور مذہبی بقا ہمارے خیال میں بنیادی سوال نہیں ہے۔ اصل سوال برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور بقا کا ہے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز سے وسط بیسیویں صدی تک برصغیر کی ہند مسلم تاریخ میں ایک کے علاوہ ایسا کوئی امکان ہی موجود نہیں ہے جو یہاں مسلمانوں کی سیاسی بقا کو ممکن بنا سکے۔ وہ ایک امکان، وہ ایک فیکٹر، آقائے سرسید کی تعلیمی تحریک ہے جو آگے چل کر برصغیر کی تقسیم اور یہاں مسلمانوں کی سیاسی بقا کا واحد وسیلہ ثابت ہوئی۔ لیکن اس کا براہ راست سیاسی مطلب برصغیر میں امن کا خاتمہ بھی تھا، اور آگے چل کر ہونے والی واقعاتی اور امکانی جنگوں میں ہماری بقا کے لیے خطرات حقیقی تھے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے برصغیر میں یہ صورت حال ایک stalemate میں تبدیل ہو گئی۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عالمی طاقت کے نظام میں ۲۰۰۱ء کے بعد ہماری بقا کا سب سے بڑا ذریعہ بھی یہی صورت حال ہی بنی ہے۔ تاریخ اور سیاسی امور کو غیررومانوی انداز میں دیکھنے والے اس امر سے باخبر ہیں کہ اگر یہ stalemate موجود نہ ہوتا تو ۲۰۱۱ء کے بعد پاکستانی معاشرہ اور ملک اب تک بخارات میں تحلیل ہو چکے ہوتے۔
پاک بھارت کشیدگی کی موجودہ فضا کو صرف علاقائی تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے۔ اس کشیدگی کے کانٹے دار موقعے پر امریکی کانگریس میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کا بل بھی پیش کیا گیا جس کا اصل مطلب مقبوضہ کشمیر پر ٹوٹتی قیامت کے لمحے میں بھارت کو امریکی تعاون اور حمایت فراہم کرنا ہے۔ گزارش ہے کہ اکیسویں صدی کو امریکی صدی بنانے کا جو ایجنڈا تھا، اس میں پوری مسلم دنیا کو ملبے کا ڈھیر بنانا پہلی امریکی ترجیح تھی۔ اس منصوبے کا آغاز افغانستان سے ہوا تھا جسے مسلم ممالک کی ملبہ سازی کے منصوبے کا ہیڈکوارٹر بنایا جا رہا تھا۔ مسلم دنیا کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے یا ملبے کا ڈھیر بنانے میں امریکہ کو جزوی کامیابی ہوئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے گزشتہ پندرہ سال میں ”صرف“ آٹھ مسلم ممالک کی ملبہ سازی ہو سکی ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی اپنی جغرافیائی وحدت کو شدید جارحانہ حالات میں برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان تین ملکوں کی جغرافیائی وحدت قائم رہ جانے سے امریکی منصوبے میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ جو دفاعی معاہدات کیے ہیں اور پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کی جو بات شروع کی ہے اس کا یہی تناظر ہے۔ موجودہ پاک بھارت کشیدگی میں امریکی مہاسرمائے کے مفادات نہایت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں چار جہتی امن فارمولا ختم کرنے کا امریکی فیصلہ بھی بھارت کی خوشنودی اور پاکستان پر دباؤ میں اضافے کے لیے تھا۔ موجودہ فضا میں امریکی عزائم سے کوئی توقع وابستہ کرنا شعلے سے گل کی آرزو کرنا ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی کا عالمی تناظر بہت اہم ہے۔ بیسیویں صدی میں امریکی عالمی غلبے کی معاشی اور سیاسی اساس مسلم دنیا پر اس کے ”قبضے“ سے فراہم ہوئی تھی۔ اکیسیویں صدی میں عالمی غلبے کی اساس مسلم دنیا کے ”ملبے“ سے فراہم ہونے جا رہی تھی۔ لیکن اس میں جزوی کامیابی کی وجہ سے امریکی غلبے کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ بڑھیا روس اور چڑھیا چین کی وجہ سے بھی امریکی غلبے کو شدید چلینج کا سامنا ہے۔ اس بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں امریکہ کے لیے اب بھارت کی حیثیت وہی ہے جو اسرائیل کی ہے۔ امریکہ کی داخلی سیاسی جدلیات اور عالمی نظام پر امریکی گرفت کی کمزوری سے پوری دنیا کے سیاسی حالات سخت بے چینی اور دگرگونی کا شکار ہو گئے ہیں اور کسی عالمگیر جنگ کے خطرے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ بالکل عیاں ہے کہ امریکی عالمی غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت امریکہ کا مکمل اتحادی ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے خلاف جارحانہ بھارتی رویوں کو مکمل امریکی پشتی بانی حاصل ہے۔ موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ امن اور جنگ کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جنگ کی بدلتی ہوئی حرکیات میں ”امن“ بھی جنگ کی طرح خطرناک ہو سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں آئے ہوئے بھونچال کے باوجود ہماری رائے یہ ہے کہ پاک بھارت باہمی صورت حال ”نہ امن، نہ جنگ“ کی صورت حال میں جوں کی توں برقرار ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس بھونچال کی دھواں دھاری میں مسئلہ کشمیر نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔
کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش حم...
امریکاکے بعد برطانیہ نے بھی پاکستان کودہشت گردوں کی پناہ گاہ قراردینے کا بھارتی دعویٰ یکسر مسترد کردیا برطانیہ میں مقیم بھارتیوں کی آن لائن پٹیشن پر پاکستان کی قربانیوں کے برطانوی اعتراف نے بھارتی غبارے سے ہوا نکال دی امریکا اوربرطانیہ دونوں ممالک نے بھارتی حکومت کے اشارے اور ...
بھارتی فوج کی جانب سیکنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعے کے بعدجسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی ناکام کوشش کی، بھارتی فوج کے سربراہ نے عالمی سطح پر بھارت کی اس مذموم کارروائی کی مذمت سے بچنے کیلیے اعلان کیاتھا کہ کنٹرول لائن پر جو واقعہ ہوا، اس کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف...
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
بھارت کنٹرول لائن پر در اندازی کی کوشش کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر اپنے سفاکانہ مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ناکامی اور اس ناکامی کے بعد سے مسلسل سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے، جس کا اندازہ اس ...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بدھ کی شب تقریباً ڈھائی بجے یا یوں کہیے کہ جمعرات کو علی الصبح جب کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے شہری اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے تھے بھارتی فوج نے یہ سوچ کر کہ شاید پاکستانی فوجی بھی خواب غفلت میں کھوئے ہوں گے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج نے اس کافوری جواب دیا، ب...
اوڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت پر وہاں کے میڈیا اور انتہاپسند ہندو تنظیموں کا شدید دباؤ تھا کہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے جوش خطابت میں پاکستان کو دندان شکن جواب دینے کی بڑھکیں تو لگادیں مگر جب انہیں عملی جامہ پہانے ...
’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...