... loading ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری اندرے پوف صدر چرننکو کی موت کے بعد سوویت یونین کے صدر بن چکے تھے۔ جنرل شبارچین نے ایرانی انقلاب کے حوالے سے اپنے صدر کو جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق شاہ ایران امریکا کی مدد سے سابق وزیر اعظم مصدق کی طرح اس ایرانی انقلاب کوبھی ٹھکانے لگا دے گا۔ صدر یوری اندرے پوف جسے بہت ہی کم مسکراتے ہوئے دیکھا گیا تھا اچانک شبارچین کی جانب دیکھ کر مسکراتا ہے اور اسے کاندھے سے پکڑ کر میٹنگ روم کی اس کھڑکی کی جانب لے آتا ہے جس سے باہر برف باری کا منظر آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا۔ شبارچین کے کان کے قریب منہ لاکر اندرے پوف سرگوشی کرتا ہے ’’ شاہ ایران اس مرتبہ ناکام ہوگا، انقلابی بیس برس سے زائد تک ایران پر پوری طرح چھائے رہیں گے، تم خمینی سے ملاقات کی کوشش کرو اور سوویت یونین کی جانب سے نیک تمنا ؤں کا پیغام پہنچاؤ‘‘۔ جنرل شبارچین کے مطابق وہ حیرت سے اندرے پوف کا چہرہ دیکھنے لگا کیونکہ اسے اس وقت تہران میں انقلابی استحکام پاتے نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ واپس تہران پہنچتا ہے اورعلامہ خمینی سے ملاقات میں سوویت حکومت کی جانب سے نیک تمناؤں کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اس دور میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوچکی تھیں اور علامہ خمینی نے اس ملاقات میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں مداخلت کا شکوہ کرتے ہوئے انتباہ کیا تھا کہ اگر سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجی مداخلت کی غلطی کا جلد ازالہ نہ کیا تو وہ اپنا وجود کھو دے گا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روسی انٹیلی جنس کے اس سابق آفیسرجنرل شبارچین نے اپنی یادداشتوں میں ان دونوں عالمی رہنماؤں کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے وقت میں من وعن صحیح ثابت ہوئیں۔ اندرے پوف کی پیشگوئی کے مطابق ایران میں انقلاب نے بیس برس تک پورے زور شور سے اپنی جگہ بنائے رکھی اور بیس برس بعد صدر خاتمی کے دور میں پہلی مرتبہ اصلاحات کا نام سنا گیا تو دوسری جانب علامہ خمینی کی پیش گوئی کے مطابق سوویت یونین افغانستان میں عسکری مداخلت کی بنا پر اپنا وجود کھو بیٹھا۔ ۔ ۔ یہ لیڈر شپ ہی تھی جس نے بکھرے عوام کو ایک قوم بنا دیا۔ جنرل شبارچین کی یادداشتیں جدید روسی ’’عسکری ادب‘‘ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
گزشتہ صدی میں ستر کی دہائی تک سیاسی نظریات کی بنا پر اختلافات سے قطع نظر دنیا میں ایسے حکمران موجود تھے جو بصارت کے ساتھ بصیرت سے بھی بہرہ مند تھے۔ تاریخ کے مطالعہ اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے کی وجہ سے وہ اس قابل تھے کہ بدلتے حالات کے تناظر میں عالمی تبدیلوں کا رخ متعین کرسکیں۔ ستر کی دہائی کا اختتام دنیا بھر میں بڑے بڑے واقعات کے رونما ہونے کے ساتھ ہوا۔ اسی دوران میں سوویت یونین نے افغانستان کا رخ کیا تھا۔ ایران میں انقلاب نے راہ بنائی تھی، پاکستان میں بھٹو کو پس زنداں بھیج کر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ سارا مشرق وسطی افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کی بنا پر لرزہ براندام تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے لیڈروں کی نسل تیزی کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن رہی تھی۔ ان کی جگہ لینے والے ’’رہنما ؤں‘‘ کی اپنی یہ حالت تھی کہ قوم کی رہنمائی کرنے کے بجائے انہیں خود رہنمائی کی ضرورت تھی۔ بین الاقوامی سطح پرعالمی صہیونیت پر اتھارٹی رکھنے والے عین الشمس یونیورسٹی قاہرہ کے شعبہ انگریزی ادب کے سربراہ ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری ؒ اپنی تحقیق میں بیان کرتے ہیں کہ اکیسویں صدی کا آغاز مسلم دنیا میں رہنماؤں کے بغیر ہوا ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہے۔ مغرب کی صہیونی اتھارٹی نے اسے فکر، سیاست، نظام تعلیم، تاریخ، جغرافیہ اور اقتصادیات کے موضوعات پربانجھ بنانے میں گزشتہ نصف صدی میں زور وشور سے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری ؒ کی اس سوچ کا موازنہ صرف وطن عزیز کی صورتحال سے کیا جائے تو صرف تعلیم کے شعبے میں جو کچھ اب تک ہوا ہے وہ خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ایک نظریاتی ملک کا نظام تعلیم کیا اس طرح کا ہوا کرتا ہے؟ بھانت بھانت کے’’ نظام تعلیم‘‘ ایک ہی علاقے میں نظر آتے ہیں۔ یہاں نااہل سیاستدانوں اورآمروں نے ایسا کوئی نظام تعلیم پنپنے ہی نہیں دیا جو آگے چل کرایک اچھی اور نظریاتی قیادت مہیا کرتا۔ قائد اعظمؒ اور اقبالؒ کا پاکستان ایک نظریاتی نظام تعلیم کے بغیر ادھورا ہے اور نظریاتی نظام تعلیم کے بغیر لیڈر شپ کی امید عبث ہے۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ سابق آمر مشرف آجکل پاکستان میں کسی ’’سیاسی جھونپڑے‘‘ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے لیکن اس کے سابقہ لبرل اتحادی بھی اسے اپنی جماعت میں ’’سیاسی پناہ‘‘ دینے کے لئے تیار نہیں۔ موصوف اپنے زمانہ حکومت میں خود کو’’ لیڈر‘‘ کہا کرتے تھے۔ لیکن لیڈر قسم کی کوئی خو موصوف میں دور دور تک نہیں پائی جاتی تھی بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا کہ اس کی نام نہاد لیڈری کے غبارے میں صرف فوج کے نام کی ہوا بھری ہوئی تھی جیسے ہی یہ ہوا نکلی موصوف کسی بے ہوا غبارے کی طرح زمین سے آلگے۔ ماضی قریب میں کراچی کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صحافیوں کے سخت سوالات کا جواب دے رہے تھے اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ دنیا میں اب تک جتنے بھی کامیاب لیڈرگزرے ہیں وہ تمام کے تمام سابق جرنیل تھے۔ اس سلسلے میں موصوف نے فرانسیسی لیڈر جنرل ڈیگال اور امریکی صدر آئزن ہاور کا حوالہ بھی دیا تھا۔ حوالے کی حد تک بات سمجھ میں آتی ہے لیکن چونکہ موصوف بغیر تاریخ کے مطالعے کے ہی لیڈر بننے کے خبط میں مبتلا ہیں اس لئے ان دونوں عالمی شخصیات کے پس منظر سے ناواقف ہیں۔ یہ دونوں افراد پیشے کے لحاظ سے تھے تو جرنیل لیکن علم اور مطالعے کے لحاظ سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور معاشرے میں تہذیب اور عمرانی تغیرات کا انہیں پوری طرح ادراک تھا۔ اسی لئے جب الجزائر کے انقلاب کے دوران میں پال سارترسمیت کچھ فرانسیسی مصنفین فرانسیسی پالیسیوں پر تنقید کررہے تھے تو چارلس ڈیگال کے مشیروں نے انہیں پس زنداں ڈالنے کا مشورہ دیا جس پر ڈیگال کا جواب تھا ’’کیا میں فرانس کی ثقافت کو قید کردوں؟‘‘ لیڈر اس قسم کے ہوتے ہیں ، لیڈر اور کباڑیے میں یہ فرق ہے کہ لیڈر قوم کے بگڑے معاملات کو سنوارتا ہے اور کباڑیا بنی بنائی قوم کا بیڑا غرق کردیتا ہے۔ مشرف صاحب لیڈر تو البتہ نہیں تھے لیکن کباڑیے ضرور تھے کیونکہ امریکی غلامی میں انہوں نے ملک اور قوم کا جو کباڑا کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ان ہی کی ’’حکمت آفرینی ‘‘ کا نتیجہ ہے کہ این آر او کی شکل میں قوم کو زرداری گروپ کا ’’کھال اتارو‘‘ دور دیکھنا نصیب ہوا، پھر نون لیگ کی شکل میں سیاسی آمریت عوام کے گلے پڑی جو سرے سے عوام کے سامنے شریف خاندان کو جوابدہ ہی نہیں سمجھتی۔ رطوبتی علاقے میں پہاڑی پھل کا بیج کبھی بارآور ثابت نہیں ہوتا۔ ایک مشرقی اسلامی نظریاتی ملک میں جب مغربی فکر اور نظام تعلیم رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہاں رہنماؤں کی وہی فصل سر اٹھائے گی جو دکان پاکستان میں کھولیں گے لیکن مال مغرب میں جمع کریں گے ملک کا چاہے کباڑا ہوجائے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت نے اشتہاری قرار دے کر اُن کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ نے لال مسجدمقدمے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ملزم کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے پرویز...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...