... loading ...
ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plenty) نے جلد ہی انہیں گرین کارڈ اور وہ سب دستاویزات تھما دیں جو امریکا میں قدم جمانے اور ان کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت لازم ہوتی ہیں۔اسٹیٹ کالج کا شہر جسے انہوں نے اپنا مقام سکونت و کاروبار بنایا ۔ہاؤس آف کشمیر کے نام سے ایک اسٹور کھولا۔یہاں سستے ملبوسات ملتے ہیں۔ پندرہ بیس ڈالر کے اسکرٹ ،ہالٹرز ،بلاؤز ،برمودا جنہیں پہن کر پین اسٹیٹ کی لڑکیاں ہماری تین دن پرانی پیسٹری جیسی دلہنوں پر جو بنتو کاظمی اور ثنا سفی ناز کے دس ،بیس لاکھ کے عروسی جوڑے میں ملبوس ہوتی ہیں، بھاری پڑتی ہیں۔
اسٹیٹ کالج کا شہرایک یونیورسٹی ٹاؤن ہے۔دھیمے مزاج کا وادی کے دامن میں آباد شہر جس کے پہاڑوں پر اب بھی بڑے قد کی خونخوار بلیوں Nittany Lions کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اتنا شکار مل جاتا ہے کہ انہیں نیچے وادی میں آنا نہیں پڑتا۔ ان کی فٹبال ٹیم،اس کو خوش رکھنے کے لیے یونیورسٹی کی ناچنے والی لڑکیاں Cheer – Leaders سبھی کو بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے فٹ بال کوچ کی بڑی عزت ہے۔ وائس چانسلر کو کوئی نہیں جانتا مگر کوچ شہر میں آجائے تو ہاتھ ملانے کے لے ساری آبادی امڈ آتی ہے۔
یہاں کے کسانوں کو اپنے بچوں کے لیے ایک زرعی اسکول بنانے کا خیال آیا تو انہوں نے مل جل کر زمین عطیہ کردی ۔یوں 1855 میں پین اسٹیٹ یونیورسٹی وجود میں آگئی۔ان دنوں اس میں پچاس ہزار طالب علم ہیں جن میں مرد و زن کا تناسب پولیسٹر کاٹن والا ہے۔مرد طالب علم 35 فیصد اور خواتین طالب علم 65 فیصد ہیں۔
پچھلے دنوں صغیر صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے دو تین انہونی باتیں کیں۔ایک تو انہوں نے اپنے چالیس سالہ قیام سے کشید مشاہدے کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا کہ جب جنت کے دروازے کھلیں گے اور مسلمانوں کے بعد جس گروہ کو وہاں داخل ہونے کی سب سے پہلے اجازت ملے گی وہ امریکی خواتین ہوں گی۔وہ بہت معصوم ہوتی ہیں۔
اب بی بی بیتھ کو ہی لے لیں۔ایک پاکستانی طالب علم پرویز کو اس کے دیدار میں عجب راحت محسوس ہوتی تھی،دراز قد، چاند چہر ہ، ستارہ آنکھیں پھر جسم ایسا کہ گل بھی اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے تھے۔اس پر آواز ایسی کہ بولتی تو لگتا تھا حافظ طاہر خود تو طعام المسکین کھاکر کہیں جاکر سو گئے ہیں البتہ پیچھے جو اشرفیاں وہ چھوڑ گئے ہیں، وہ رات میں سونے کی چوڑیوں کی طرح کھنک رہی ہیں ۔بیتھ صغیر صاحب کے ہاؤس آف کشمیر سے ذرا ہٹ کر ایک بینک کی ٹیلر(کیشئر) تھی۔
صغیر صاحب نے جب اس طالب علم پرویز کو اس نیک پروین کی ایمانداری کا یقین دلانے کے ساتھ ایک دن بینک کی فراہم کردہ تالے والی مخملی تھیلی میں رسید پر لکھے ہوئے سات سو ڈالر کی بجائے سات سو دس ڈالر ڈال کر تالا لگایا ،شام گھر جاتے ہوئے کار میں بیٹھے بیٹھے کھڑکی سے اندر کی جانب تھیلی کو اچھال دیا ۔بینک میں گھپ اندھیرا تھا۔ یہ رات کو گھر کیش لے جانے کی بجائے بینک میں جمع کرانے کی سہولت تھی۔تھیلی کی ایک چابی رقم جمع کرانے والے کے پاس تو دوسری بنک کے پاس ہوتی تھی۔ اگلے دن بیتھ اسٹور پر آگئی اور ضد کرنے لگی کہ اس تھیلی میں دس ڈالر اضافی تھے،غلطی ، بھول جو کچھ بھی ہو وہ یہ سات سو ڈالر جمع کرکے باقی ڈالر واپس کرنے آئی ہے۔ یوں یہ شرارت پیار کا عنوان بن گئی اور وہ جو بیتھ تھی وہ روح کا ارمان بن گئی ۔اب وہ نارتھ کیرولینا میں اس طالب علم پرویزکی بیوی بشریٰ بن کر رہتی ہے۔خاکسار نے پرویز سے پوچھا کہ بیتھ کو بشرہ بولے تو ؟وہ کہنے لگا دادی اماں کا نام لطیف النساء تھا ۔ دادا کو بشریٰ نام بہت پسندتھا مگر قصبۂ اُناّؤ نزد لکھنؤ میں پردادا نے ایک سوکن بشریٰ نام کی ڈال رکھی تھی جس پر پردادی نے کہا اگر اس نے ان کی بہو اور ہماری دادی اماں کو بشریٰ پکارا تو وہ قیامت تک دودھ نہیں بخشیں گی۔ہم نے کہا دادا کے کچلے ہوئے ارماں یہاں امریکا آکر پورے کرتے ہو۔ مہاجرو تمہیں ہوا کیا ہے۔
صغیر صاحب کا دوسرا انکشاف یہ تھا کہ امریکا میں اب عام لوگوں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔اب جھوٹ صرف ان کی حکومت اور کارپوریشن بولتی ہے۔ وہ کہنے لگے جھوٹ بولنے پر پکڑے جاؤ تو جرمانہ اور سزا دگنی ہوجاتی ہے۔جھوٹ بولنے سے نفرت میں اضافہ کلنٹن کی مونیکا لیونسکی والی عوامی سماعت سے ہوا۔ صدر کو جو انہوں نے ساری دنیا کے سامنے اپنے جھوٹ پکڑے جانے پر بھائیں بھائیں کرکے روتا دیکھا تو وہ جھوٹ سے متنفر ہوگئے۔ اب تو یہاں معاملہ ایسا ہے کہ جھوٹ پکڑنے کے لیے کمپیوٹر کے مختلف پروگرام ، کیمرے اور جانے کیا کیا سسٹم میں خاموشی سے گھسیڑ دیا گیا ہے۔ مثلاً ان کے ہاں ایک قانونی رعایت پلی بارگین کی صورت میں ملتی ہے۔ملزم پکڑے جانے پر اپنے تمام تر جرائم کا خود سے اعتراف کرلیتاہے جس کی وجہ سے استغاثہ عدالت سے سزا میں رعایت کی درخواست کرتا ہے۔یہ جج کی صوابدید ہے کہ وہ مانے نہ مانے مگر عام طور پر رعایت مل ہی جاتی ہے۔اعتراف جرم اور سزا کے بعد اگر مجرم کا کوئی اور جرم سامنے آئے جو اس نے چھپایا ہو تو پہلی سزا کے خاتمے کے بعد نئی سزا کا آغاز ہوجاتا ہے۔
اسی نشست و برخاست میں پرویز کی واقفیت جج صاحب سے ہوگئی ۔ وہ عدالت سے اٹھ کر سیدھے ہاؤس آف کشمیر پر آتے۔ جہاں یہ تینوں خوب گپ لگاتے اور کافی پیتے۔ تین دنوں میں کافی کے بل کی ادائیگی کی باری ہر فرد کی صرف ایک بار آتی۔ریاست میں ڈسٹرکٹ کی سطح کے جج بذریعہ انتخاب چنے جاتے ہیں۔یوں اس کا عوام میں کھلے عام اٹھنا بیٹھنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ایک دن پرویز جب کافی لینے جارہا تھا تو جج کا بیٹا مل گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ بھی اپنے والد سے ملنے آرہاہے توکافی کے چار کپ دو ڈالر کے خریدے گئے۔آج بل کی ادائیگی کی باری جج کی تھی۔ جج نے ڈیڑھ ڈالر تین کپ کے ادا کیے اور بیٹے کو اپنے پیسے خود ادا کرنے کا حکم دیا۔ہائے ارسلان افتخار تم کہاں ہو!
پرویز ذہین ہوتا تو یہ اشارہ کافی تھا مگر پاکستانی تھا۔ اپنے چمتکار کو سسٹم پر بھاری سمجھتا تھا۔ نومبر کی THANKS GIVING کی تہوار والی رات کو کار میں بیٹھ کو لیے جارہا تھا۔ ماحول کی خنکی میں وہ جو ہلکا ہلکا سرور تھا ۔ وہ بیتھ کی نظر کا قصور تھا۔سگنل سرخ تھا مگر حضرت نے اس کا خیال نہ کیا ۔سمجھ بیٹھے تھے کہ برفیلی رات کی اس تنہائی میں کون ہے دیکھنے والا۔ ان کا ٹریفک کا سپاہی اللہ دتا بیلٹ نمبر تین سو نن ونجا چھپ کر نکڑ پرگھات لگا کر کھڑا تھا۔ٹکٹ دے دیا۔ عدالت اسی کافی والے دوست جج کی تھی۔بیتھ نے سمجھایا بھی کہ جرم کیا تو جرمانہ دے دو مگر یہ حضرت اپنے تعلقات پر نازاں تھے۔جج صاحب کے سامنے جھوٹ بولا کہ سگنل خراب تھا۔سرخ بتی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ جج صاحب نے اگلی پیشی پر سگنل کمپنی، میونسپلٹی والوں کو ، سپاہی اللہ دتا بیلٹ نمبر تین سو نن ونجا کو بھی بلالیا۔ سگنل کمپنی نے کہا میونسپلٹی نے سگنل کی خرابی کی کوئی شکایت نہیں کی۔میونسپلٹی والوں نے کہا کہ جب سگنل خراب ہی نہ ہو تو ہم شکایت کیوں کریں ۔ سپاہی نے وضاحت کی کہ حضرت کی گردن ناپنے سے پہلے انہوں نے سگنل کی خلاف ورزی پر پانچ چالان اور بعد میں نو چالان اور کیے ہیں۔ اس شام کل پندرہ چالان ہوئے۔ چودہ نے خاموشی سے ادائی کردی۔سگنل خراب ہونے کا گلہ کسی نے نہیں کیا۔جج نے پرویز کو دیکھا اور کہا
For your lies all fines are doubled
ممکن ہے پہلی پیشی پر جرمانہ پچاس ڈالر ہوتا مگر اب کی دفعہ ہر ایک کو سو سو ڈالر ہرجانہ اور سو ڈالر فائن ہوا۔چار سو ڈالر کی چٹی پڑگئی۔ شام کو ہاؤس آف کشمیر پر کافی کی محفل یوں ہی گرم تھی ۔اس دن جج صاحب کے بل ادا کرنے کی باری تھی،پرویز سے انہوں نے عدالت کی کارروائی پر کوئی بات نہیں کی البتہ چند دن بعد ہونے والے الیکشن میں اسے اور بیتھ کو انہیں ووٹ کرنے کی درخواست ضرور کی۔صغیر صاحب نے اسی ملاقات میں ملکۂ کمینگی ( Queen of Mean )لیونا ہیم سلے کو بھی یاد کیا۔ وہ جب امریکا میں ٹیکس کی بات کرتے ہیں تو اس کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ملکۂ کمینگی ( Queen of Mean ) اس کاsobriquet یعنی دشمنوں کا ادا کردہ نام تھا۔اس کی شخصیت بہت flamboyantیعنی بھڑکیلی طبیعت کی مالک تھی۔ساری عمر دولت اور شوہر سمیٹتی رہی۔آخری شوہر کے کئی ہوٹل تھے۔جہاں وہ اکثر خود ہی مالکن سے ویٹرس بن کر مفت ناشتہ لے کر کمرے پر پہنچ جاتی ۔ہوٹل کے اشتہارات میں یہ بات نمایاں درج ہوتی کہ یہ وہ ہوٹل ہیں جہاں ملکہ آپ کی خدمت میں خود ہی ملازمہ بن کر حاضر ہوجاتی ہے۔
اپریل کے وسط میں یوں ہوا کہ ٹیکس ریٹرن کا جو فارم نمبر 1040 ہوتا ہے. وہ امریکی شہری کو جمع کرانا ہوتا ہے۔سب سے پہلا فارم جو ان کی آئی ۔آر ۔ ایس یعنی انٹرنل ریونیو سروس ریلیز کرتی ہے وہ امریکی صدر یعنی فرسٹ سٹیزن کا ہوتا ہے۔لیونا ہیم سلے جو تند و تیز جوابات کے لیے بہت مشہور تھی اس سے جب کسی صحافی نے پوچھا کہ کیا اس نے اپنا سالانہ ٹیکس کا فارم نمبر 1040جمع کرادیا تو اس نے جواب دیا کہ
We don’t pay taxes. Only the little people pay taxes”
اس وقت وہاں ٹیکس سروس کا نمائندہ بھی موجود تھا جسے یہ بات بہت گراں گزری ۔اس نے کھوج لگایا کہ اس بی بی نے ایک اکیس کمرے کا ویک اینڈ گھر خریدا ہے۔جس کو مزید شاہانہ بنانے کے لیے اس نے خوب اخراجات کیے مگر رقم کے لین دین پر ٹھیکیداروں سے جھگڑ بیٹھی۔ ان میں سے کسی نے وہ بل جو اس گھر کے لیے بنے تھے مگر ان پر نام کا اندراج گھر کے بجائے ہوٹل کا کرایا گیا تھا وہ ایک اخباری نمائندے کے حوالے کردیے۔نیویارک پوسٹ میں جب یہ اسکینڈل چھپا تو معاملہ بگڑ گیا ۔ہوٹل کا ایک ملازم پال رفینو بھی سامنے آگیا جو کہہ رہا تھا کہ اسے اس ملکۂ کمینگی نے ہوٹل کے منیجر کے عہدے سے اس لیے برطرف کیا کہ وہ ان جعلی بلوں پر سائن کرنے سے انکاری ہوا تھا۔
اس دوران میں اس کے شوہر کو بھی دل کا شدید دورہ پڑا اور عدالت نے اسے طبی وجہ سے حاضری سے مستثنیٰ کردیا۔اب یہ مقدمہ تنہا لیونا کو بھگتنا پڑا۔ ارب پتی خاتون تھی مگر عدالت نے اس پر قائم ہونے والے بتیس مقدمات میں صرف سولہ سال کی سزا دی۔بعد میں اپیل پر ان سزاؤں کو نصف کردیا گیا۔جج نے فیصلے میں یہ عجیب بات بھی لکھی کہ اسے جیل اس دن بھیجا جائے جو امریکا میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا آخری دن یعنی پندرہ اپریل ہو۔سزا سن کر وہ چکر ا کرگر پڑی۔ مختلف اپیلوں میں سزا کم ہوکر انیس ماہ کے قریب رہ گئی مگر تخفیف کا ایک بدلہ یوں نکالا گیا کہ اسےCompulsory Community Service کی سزا دی گئی ۔اب اسے مختلف خیراتی اداروں میں ٹوائلٹ کی صفائی کرنی پڑتی تھی۔ ذہنی امراض کے ہسپتال میں وہ اپنی شوفر ڈریون رولس رائس سے اُترتی ۔کپڑے تبدیل کرتی اور فرش پر پونچا لگاتی تھی۔ عدالت نے اپنی سزا میں اسے دو سبق سکھائے ایک تو ٹیکس چوری مت کرو ،دوسرے غریبوں کی تحقیر مت کرو۔یہ وہ عورت تھی جو ہلٹن ہوٹل کے مالکان اور صدر مارکوس کی اتنی ہی بڑی بیوہ امیلڈا مارکوس کی دوست تھی۔جس نے ایک دن موڈ میں آکر فائر بریگیڈ کے ملازمین کی امداد کے لیے ایک ہی جھپ میں ایک کروڑ ڈالر کا چیک لکھ کر عطیہ کردیاتھا۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...
[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...