... loading ...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کیا ۔بلا شبہ یہ تمام اختراعات اور ایجادات نسل انسانی کو ترقی کی نئی منزلوں سے ہمکنار کرتی نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی کچھ کمی سی ہے،، لگتا ہے ان جدید مشینوں کا استعمال عام ہونے سے ہم انسانوں نے کسی چیز کا استعمال کم کردیا ہے ،، وہ کیا چیز ہے ، سوچئے کیا ہو سکتا ہے جو کمپیوٹر سے زیادہ ذہین ہو ۔۔دماغ ،جی ہاں ہمارا دماغ ،، ہم انفارمیشن ہائی وے پر چوہا ودڑ میں اس قدر مگن ہوگئے ہیں کہ اپنے دماغ سے کام لینا ہی چھوڑتے جا رہے ہیں ۔ اسکول کے بچے سے پوچھ لیں یا کسی دفتر کے بابوسے نو اٹھے کتنے ہوتے ہیں وہ سوچ میں پڑ جائے گا جیسے نہ جانے کون سا مشکل سوال کرلیا گیا ہے۔کیلکولیٹر مانگے گا یا کمپیوٹر کا سہارا تلاش کرے گا ۔آج کا بچہ کمپیوٹر پر گیم تو ضرور کھیلتا ہے لیکن پہیلیاں نہیں بوجھ سکتا۔فلمیں دیکھ سکتا ہے کہانیاں نہیں بنا سکتا۔تخیل جس سے تمام فنون کا جنم ہوتا ہے آج جیسےکھوسا گیا ہے۔
میں ان تیز رفتار مشینوں کا مخالف نہیں ،ترقی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا اور ترقی کا ساتھ نہ دینے والےچاہے انسان ہوں یا قوم پیچھے رہ جاتے ہیں۔لیکن ترقی کا مطلب تن آسانی نہیں ۔سہولت ،وقت کی بچت اور کام کی بہتری کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان روایت کو بھول جائے۔پچھلی اور موجودہ صدی میں سیکٹروں ایجادات نے انسانی زندگی میں آسانی پیداکی ،مثلا دیکھتے ہی دیکھتے چابی بھرنے والی گھڑیوں کی جگہ ڈیجیٹل کلاکس نے لے لی، یقینا یہ مثبت ترقی ہے، میں اپنے گھر کے صحن میں دھوپ گھڑی لگانے کا نہیں سوچ سکتا ، لیکن اپنے بچپن کے گھر میں لگے چابی سے چلنےو الے پنڈولم کلاک کو بھی نہیں بھول سکتا۔۔مجھے ایجاد کی بنا پر ہونے والی ہر مثبت تبدیلی قبول ہے لیکن مجھے جدید ایجاد کی قیمت پر انسانی ذہن کا ، پرکھنے کا ہنر ، چننے کی صلاحیت اور فیصلہ کرنے کی قدرت کو قربان کردینا منظور نہیں۔ میں ان سب کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی جگہ دماغ کو استعمال کرنے کا حامی ہوں ۔دماغ جس میں احساسات جنم لیتے ہیں ، احساس جن کی وجہ سے انسان ، انسان کہلاتا ہے۔اقبال برصغیر کی مسلم نشاۃالثانیہ کے امام ہی نہیں ،انسانی مستقبل کے نبض شناس بھی تھے۔دیکھیےکتنی شاندار بات کہہ گئےہیں ۔۔۔۔
کوئی جدید سے جدید کمپیوٹر بھی شعر بھلا کہاں کہہ سکتا ہے۔دو لفظ ہمدردی کے کہاں بو ل سکتا ہے ،، زخموں پر مرہم کہاں رکھ سکتا ہے، خوشی کے لمحات میں کہاں شریک ہو سکتا ہے ۔۔مشینوں نے انسان کو احساس سے دور کردیا ہے ،، لوگ خود میں سمٹتے جا رہے ہیں ، تنہا ہوئے جاتے ہیں اور اس غم تنہائی کو غلط کرنے کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ ایک صاحب کے فیس بک پر چار ہزار دوست تھے ان کے جنازے میں گھر والوں کے علاوہ صرف چار دوست شریک ہوئے جن میں کوئی بھی فیس بک فرینڈ نہیں تھا۔۔۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...