... loading ...
عمران خان اپنی ذاتی دیانت کی وجہ سے ناقابلِ تسخیر ہیں۔ فرانس کے چارلس ڈیگال کی طرح ان کے کارکن ان کے سیاسی نظریات کے بجائے ان کی ذات سے زیادہ متاثر ہیں۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چارلس ڈیگال کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’انہیں اچھی طرح احساس تھا کہ لیڈر کو اکیلے سوچنے کی خاطر وقت نکالنا نہایت ضروری ہے۔ تمام اُمور میں بڑے فیصلے ڈیگال خودکرتے۔ کسی خاص مسئلہ کے بارے میں پہلے وہ تمام اخبارات اور مواد منگواتے اور مسئلہ کی تمام تفاصیل جہاں کہیں سے بن پڑتا جانتے تب وہ اپنے وزراء سے مطالعہ اور سوچنے کی خاطر رُخصت چاہتے اور تنہائی میں بیٹھ کر فیصلہ سوچتے َ‘‘۔۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے آج کل کے اکثر سیاسی فیصلوں میں سیاسی داؤ پیچ اور’’ مکارانہ دانش‘‘ کی بجائے ایک سچا اور کھرا پن ہوتا ہے۔ انہیں قریب سے جاننے والے آگاہ ہیں کہ وہ دوسرے پر بہت جلد اعتماد کر لیتے ہیں، ایسا کرتے وقت ان کا خیال یہی ہوتا ہے سامنے والا جیسا نظر آ رہا ہے وہ ویسا ہی ہوگا لیکن اکثر اوقات اس سلسلہ میں انہیں اس وقت حیرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب دُوسروں کے چھُپے روپ سامنے آتے ہیں۔ عین اُس وقت جب وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف کے خلاف رائے ونڈ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے انتہائی قریبی ساتھی سیف اللہ نیازی کے مستعفی ہونے کی خبرسرگوشی کے انداز میں اسلام آباد کے صحافتی حلقوں تک پہنچائی جا رہی تھی۔ اسلام آباد کے نواح میں پہاڑ کی چوٹی اور راول جھیل کے کنارے پاکستان کی سیاست میں ایک مرکزی مقام حاصل کرنے والے ’’ بنی گالہ ‘‘ میں ایسے ’’شرلاک ہومز ‘‘ کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جو وقت کے ’’ صوفیوں ‘‘ اور ’’ عارفوں ‘‘ کے ذرائع اطلاعات ہیں۔
ہفتہ اور اتوار کی رات یہ خبر عام ہوئی کہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری سیف اللہ نیازی نے پارٹی عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ سولہ ستمبر کی سہ پہر چار بجے کے قریب انہوں نے اپنا استعفیٰ اپنی پارٹی کے چیئر مین عمران خان کو بھجوادیا تھا۔ ایک روز بعد17 ستمبر کو رات گئے اس استعفیٰ کی خبر میڈیا کو ملی جس کے بعد پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے عمران خان کو سیف اللہ نیازی کے استعفیٰ کی موصولی کی تصدیق کر دی۔ خود سیف نیازی نے بھی اپنے استعفیٰ کی خبر کو درست قرار دیا۔ سیف نیازی آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ اپنے تیار کردہ سافٹ ویئر کی مارکیٹنگ کے لیے امریکا جانے والے تھے لیکن اب انہوں نے اپنا مجوزہ دورہ اس لیے موخر کر دیا ہے کہ ان کے اس نجی نوعیت کے دورے کو سیاسی ایشو نہ بنایا جائے۔
سیف اللہ خان نیازی کے مستعفی ہونے کی خبر ہماری سیاست کے لیے کوئی زیادہ دھماکا خیز ثابت نہیں ہو گی لیکن یہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست میں ایک بھونچال سے کم نہیں ہے۔ سیف نیازی کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ عمران خان نے جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو سیف نیازی کی عمر بیس سال کے قریب تھی۔ وہ امریکا سے پاکستان آئے اور پھر عمران خان کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سنہری 20 سال عمران خان کے خواب کی تعبیر کی جدو جہد کی نذر کر دیئے۔ انہیں عمران خان کی بہت زیادہ قربت حاصل رہی عمران خان کے بہت سے ذاتی معاملات میں سیف نیازی ان کے ساتھ رہے۔
سیف اللہ نیاز ی کا استعفیٰ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی معاملات میں انتشار اور خلفشار کا اظہار ہے۔ ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ سیف نیازی چھ ماہ سے پارٹی پالیسیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے تھے پارٹی کے اندر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی مضبوط دھڑے بندی پر دوسروں کی طرح وہ بھی خاصے پریشان تھے۔ سیف اللہ نیازی کا استعفیٰ منظور ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیں عمران خان اور ان کے درمیان جو مضبوط رشتہ ہے اُس کو سامنے رکھا جائے تو اُمید یہی ہے کہ ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کے بعد استعفیٰ واپس ہو جائے گا اگر خدا نخواستہ ان کا استعفیٰ منظور ہو گیا اور امریکا واپس چلے گئے تو پی ٹی آئی میں عمران خان کے چاہنے والوں یعنی ان لوگوں کو شدید دھچکا لگے گا جو عمران خان کے خواب سے جڑے ہوئے ہیں۔ سیف اللہ نیازی کے چلے جانے سے پی ٹی آئی کی وہ اشرافیہ مضبوط ہو جائے گی جو پارٹی میں اپنے اپنے دھڑوں اور مقاصد کی سیاست کر رہے ہیں۔ پارٹی اس وقت اُسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے جس طرح 1972 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں کنونشن لیگ کے لوگوں نے بھٹو مرحوم کے جیالوں کو پسِ دیوار دھکیل کر کے پارٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔
عمران خان ملک میں تبدیلی کا سرمدی خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سیاست کر رہے ہیں۔ ملک کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات اب اس خواب کی تعبیر کو اپنی آسودگی سے جوڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں سرگرم اکثر سیاسی پارٹیاں ’’ ہم زلفوں‘‘ کی سی سیاست کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت ’’نقاب پوش سیاست ‘‘ کی قائل ہیں۔ قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2014 ء کے دھرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے طویل ترین مشترکہ اجلاس میں ’’ دو چودھریوں ‘‘ کی لڑائی کے دوران چودھری اعتزاز احسن نے حکومت کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ پیش کرنے کے باوجود یہ ارشاد فرمایا تھا کہ حکومت گرانے کی سکت رکھنے کے باجود ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔ ’’ ہم زلفوں ‘‘ نے اپنے اس اندازِ سیاست کو ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ پاناما لیکس کے معاملے پر سیاسی بساط کے ماہر ’’ چالبازوں ‘‘ نے ایسی بازی چلی کے ’’کپتان ‘‘ اور اس کے حقیقی ’’کھلاڑی ‘‘ اور عوام دیکھتے اور ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔ جو قصاص کے لیے میدان میں نکلے تھے وہ اب عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کپتان کا کیا کیا جائے کہ وہ لگی لپٹی کہنے کے تجربے اور مشق سے عاری ہیں۔ وہ دوسرے سیاست دان ’’ قائدین ‘‘ کی طرح لفظوں کی پناہ لینے کی عیاری سے بھی واقف نہیں۔
درجنوں اپوزیشن جماعتوں کی موجود گی کے باوجود اگر اپوزیشن کا وجود محسوس ہوتا یا نظر آتا ہے تو وہ تحریک انصاف کی وجہ سے ہے۔
دگر گوں حالات اور نا موسم مہربان ہونے کے باوجود کپتان اور اس کے کارکن پوری شدت کے ساتھ اپنے خواب سے جڑے ہوئے ہیں۔
کپتان اور سیف اللہ نیازی محبت اور مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ پارٹی میں موجود غیر جانبدار لوگوں کا کہنا ہے کہ سیف اللہ نیازی کو اپنے استعفیٰ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ سیاست میں دل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ شجر سے پیوستہ رہ کر ہی اُمیدِ بہار رکھی جا سکتی ہے۔ ورنہ تاریخ کا سبق موجود ہے کہ بھٹو مرحوم کو چھوڑنے والے قصہ پارینہ بن گئے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...
پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ اگر مخالفین الیکشن جیت جاتے ہیں تو پھر سپہ سالار کا انتخاب کر لیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں، نئی حکومت کے منتخب ہونے تک جنرل قمر باجوہ کوعہدے پر توسیع دی جائے۔ ...
سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اداروں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی عمران نیازی کی انتہائی قابل مذمت مہم ہر روز ایک نئی انتہا کو چھو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حساس پیشہ وارانہ امور کے بارے میں اور مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف اب وہ براہ راست کیچڑ اچھالتے ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہیرے بڑے سستے ہوتے ہیں، کوئی مہنگی چیز کی بات کرو۔ جمعرات کے روز عمران خان ، دہشت گردی کے مقدمہ میں اپنی ضمانت میں توسیع کے لیے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت میں پیشی کے بعد ایک صح...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو عاشور کے روز اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اُنہیں اسلام آباد بنی گالہ چوک سے گرفتار کیا گیا۔ شہباز گل کے خلاف تھانہ بنی گالہ میں بغاوت پر اُکسانے کا مقدمہ بھی درج کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز گل کی گرفتاری کے دوران ڈ...