وجود

... loading ...

وجود

جدید تعلیم اور تربیت

پیر 19 ستمبر 2016 جدید تعلیم اور تربیت

education

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چاہیے کیونکہ سارا مسئلہ نصاب کا ہے۔ یہ جدید تعلیم کے اصلاحی منصوبے کا لوگو ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں ہے اور یہ جدید تعلیم پر ہمارے کل تنقیدی شعور کا اظہار ہے۔ بس یہ دو باتیں کہہ کر ہم جدید تعلیم کے حوالے سے اپنی تمام تر ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ عرض کیا جائے کہ نصاب جدید تعلیم کا ایک کم اہم حصہ ہے، تو بات بگڑ جاتی ہے۔ یا اگر یہ عرض کیا جائے کہ تربیت سے مراد ”ٹریننگ“ ہے یا ”مربیانہ عمل“ کی طرف اشارہ ہے تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی تناظر میں جدید تعلیمی افکار اور اس کے نظری پہلوؤں کا ذکر نہایت معیوب خیال کیا جاتا ہے، جبکہ عین یہی وہ افکار ہیں جن کی بنیاد پر پوری جدید تعلیم کا نظام کھڑا کیا گیا ہے۔

”تربیت“ کے لفظ نے ہمارے ہاں بہت بڑا خلط مبحث پیدا کیا ہے اور جدید تربیتی عمل کو زیربحث لانے سے بہت کتراتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیم کے تنظیمی عمل اور روایتی تعلیم کے اخلاقی اور معاشرتی عمل میں امتیاز کو کبھی نہیں دیکھ پائے۔ جدید تنظیمی عمل میں ”تربیت“ سے مراد ”ٹریننگ“ ہے اور جو بچوں یا افراد میں ڈسپلن پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ جبکہ روایتی تعلیم میں تربیت ایک مربیانہ عمل تھا، جس میں ”ادب“ شامل تھا۔ یہاں ”ادب“ کا مطلب لٹریچر نہیں ہے، کیونکہ ”ادب“ بچے کو ”آداب“ سکھانے کا ایسا عمل تھا جس میں ”تادیب“ شامل ہوتی تھی، اور اس پورے عمل میں استاد ایک مربی کی حیثیت سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ روایتی تعلیمی تربیت میں مربیانہ تدریس اور ”ادب“ دونوں شامل ہوتے تھے۔ لیکن اس سارے عمل کا فعال مرکز استاد ہوتا تھا۔ ”مربیانہ عمل“ بچے کی ذہنی اور نفسی استعداد کو نشو ونما دینے کا طریقۂ کار تھا، جبکہ ادب بچے کی گفتگو اور رویوں کی تہذیب کا عمل تھا، جس میں اکثر ”سختی“ یا ”سزا“ بھی شامل ہوتی تھی۔ یہ ”سختی“ یا ”سزا“ صرف اور صرف اس تہذیبی تعلق میں بامعنی تھی جو استاد اور شاگرد دونوں کا بنیادی معرف تھا۔ اس تعلق کے خاتمے کے بعد یہ محض ایک ”تشدد“ ہے۔ روایتی تعلیم میں استاد ایک مربی ہوتا تھا جو بچے کے اخلاقی شعور کی پرداخت، سلیقے اور تہذیب الاخلاق کی ذمہ داری قبول کرتا تھا۔ ٹریننگ کے برعکس، روایتی تربیت کا مقصد بچے کی اخلاقی خودی کی حفاظت اور اس کے نفس کی اخلاقی خود مختاری کو فعال بنا کے تقوی کے احوال پیدا کرنا رہا ہے۔ جبکہ جدید تنظیمی ٹریننگ کا عمل فرد کی اخلاقی خودی کو نظرانداز کر کے غیر اہم بنا دیتا ہے اور اس کی کل شخصیت کو ڈسپلن کے میکانکی رویوں تک محدود کر دیتا ہے۔

جدید تعلیم اس پورے عمل کی نئی تشکیل ہے۔ جدید تعلیم ٹیچر کو سسٹم کا ایک پرزہ ہونے کی وجہ سے محض ایک ”سہولت کار“ (facilitator) کا درجہ دیتی ہے اور یہاں ”تربیت“ سے مراد ”ٹریننگ“ ہے۔ جدید تعلیم کا منہج تنظیمی ہے، اور جدید تنظیم کی پوری تشکیل طاقت اور پیداوار کے اصول پر ہوتی ہے۔ جدید تنظیم میں ٹریننگ غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے۔ ”ٹریننگ“ کا مقصد ہرگز اخلاقی نہیں ہوتا، بلکہ کارگر (ایفی شنٹ) ہونا ہے۔ ٹریننگ جدید ڈسپلن کے اصولوں پر انسانی شخصیت کے رویوں میں میکانکی تبدیلی پیدا کر دیتی ہے۔ جدید ڈسپلن میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، بلکہ اسے اختیار سے نافذ کیا جاتا ہے، اور معاشی و بدنی جزا و سزا کے تابع ہوتا ہے۔ ٹریننگ کا مقصد انسان کی اخلاقی آٹونومی اور انفرادیت کا خاتمہ کر کے اسے ایک روباٹی سانچے میں ڈھالنا ہے۔ تنظیم میں اختیار اور اس کے فرمودات اخلاق کی جگہ لے لیتے ہیں اور ”ٹریننگ“ انسانی عمل کے فعال مرکز کو داخل سے خارج میں منتقل کر دیتی ہے۔ ٹریننگ اختیار، مسلسل نگہداری اور معاشی جزا و سزا کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ٹریننگ کا مقصد اخلاقی شعور سے مزین انسان پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ایک کارگر انسان پیدا کرنا ہے۔ جدید معاشرے اور ریاست کا تشکیلی اصول یہی تنظیم ہے، جو اب نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب یہ شرائط ہستی میں داخل ہے۔

”ٹریننگ یافتہ“ آدمی میں روک کا مرکز اس کی ذات سے خارج میں ہوتا ہے جو مسلسل نگہداری اور جاسوسی کو ضروری بنا دیتا ہے۔ مسلسل نگہداری، خبرگیری اور جاسوسی پورے تنظیمی عمل میں اختیار اور منیجمنٹ کے خاص ذرائع ہیں۔ جبکہ اخلاقیات میں عمل اور روک کا مرکز انسان کے اندر ہوتا ہے جو حضورِ حق میں بامعنی ہوتا ہے۔ انسان کی اخلاقی خودی خالق کے دائمی حضور کا مرکز اور انسانی عمل کا منبع ہے۔ اخلاقی رویوں اور اخلاقی اعمال میں حضور انفسی ہے۔ جدید تنظیم اختیار کی بیلداری تشکیل ہے جو طاقت کے ”حضور“ کو آفاقی بنا دیتی ہے اور دائمی چوکیداری کے بغیر کھڑی ہی نہیں کی جا سکتی۔ ہر گھڑی دیکھنے والی آنکھ کے بغیر تنظیم ناممکن ہوتی ہے اور اب یہ آنکھ کیمرہ بن کر ہماری زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہو گئی ہے۔ ”ٹریننگ یافتہ“ انسان کا راہ راست پر رہنا طاقت کی اسی آنکھ کا مرہونِ منّت ہے جبکہ ”تربیت“ یافتہ انسان کا راہِ راست پر رہنا اس کے انفسی حضور میں اخلاقیات سے رہنمائی پاتا ہے۔

جدید تعلیم میں سزا کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ ناچیز سزا کی حمایت نہیں کرتا لیکن اس پر بات تو شاید ہو سکتی ہے۔ جدید تعلیم کے کارپوریٹ اداروں نے تعلیم کا پورا پیراڈائم ہی بدل دیا ہے، اور وقت کے ساتھ جدید تعلیم کے کارپوریٹ اور سرمایہ دارانہ پہلو مکمل طور پر غالب آ گئے ہیں۔ اس ماحول میں استاد اور شاگرد کے تعلق کی بات کرنا بدمذاقی اور گھٹیا لطیفہ بن گیا ہے کیونکہ اداروں نے استاد کا امتحا مکمل کر دیا ہے۔ اب بچے اور اس کے والدین کا تعلق ادارے سے ہے اور اگر استاد سے کسی درجے میں ہے تو وہ بھی ادارہ جاتی ہی ہے۔ اب تعلیمی ادارے میں سزا کے خلاف قانون سازی بھی ہو چکی ہے اور جس کا مقصد ایک اخلاقی برائی کا خاتمہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس کارپوریٹ تناظر میں استاد اور شاگرد کے تعلق کا خاتمہ کوئی اخلاقی برائی نہیں ہے بلکہ اہم سماجی پیشرفت خیال کیا جاتا ہے۔ اب جدید تعلیمی ادارے اور طالبعلم کا تعلق دکاندار اور گاہک کا ہے، اور اس معاشی رشتے میں سزا واقعی ایک اخلاقی برائی ہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں سزا کی قانونی ممانعت روایتی تعلیمی عمل کے مکمل طور پر تبدیل اور غیرمتعلق ہو جانے کا بالواسطہ اعتراف بھی ہے۔

ان گزارشات کے بعد یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ ہماری تعلیمی گفتگو میں ”تربیت“ بھی ویسا ہی بے معنی لفظ ہے جیسا کہ نصاب۔ دنیا ادھر سے ادھر ہو گئی ہے، بلکہ ہماری تو زیر و زبر ہو گئی ہے لیکن ہم ہیں کہ حالت انکار اور ہٹ دھرمی سے باہر نہیں آ پا رہے۔ ہم نصاب اور تربیت کا واویلا تو مچاتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کیوں مچاتے ہیں۔ ہم اپنی قومی تعلیم سے غیرمطمئن تو ہیں، اور سسٹم کے ایک دو پرزوں کے بارے میں چالاکی دکھانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے تجزیے کو بے سود سمجھتے ہیں۔ پھر ہم ایک ایسی چیز کے قائل ہیں جسے ہم نے ”علمی سادگی“ کا جعلی نام دے رکھا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ جسے ہم سادگی کہہ رہے ہیں وہ دراصل ہمارے قومی ذہن کی پستی ہے۔ ہم نے اپنی پستی کو سادگی قرار دے کر اسے بھی اپنی ایک ”اعلیٰ اخلاقی خوبی“ بنا لیا ہے۔ اور عین یہی وہ نام نہاد اخلاقی خوبی ہے جس کی آڑ لے کر ہم نے ہر طرح کے علوم کی تدفین مکمل کی ہے۔


متعلقہ خبریں


جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور نصاب محمد دین جوہر - هفته 17 ستمبر 2016

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...

جدید تعلیم اور نصاب

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل محمد دین جوہر - جمعه 16 ستمبر 2016

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جدید تعلیم اور امتحانات محمد دین جوہر - اتوار 11 ستمبر 2016

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...

جدید تعلیم اور امتحانات

جدید تعلیم کیا ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 08 ستمبر 2016

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...

جدید تعلیم کیا ہے؟

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل وجود - جمعرات 05 مئی 2016

امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر