... loading ...
پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ہم مہاجر افسران اور اہل سیاست کو محبت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور بلاوجہ کی Mohajir Bashing یعنی مہاجر گیدڑ کُٹ( سندھی زبان میں ہانکا کرنے کو کہتے ہیں) پر اُتر آئے ہیں تو ایسا نہیں۔ اعلی درجے کے مہاجر افسر اور سیاست دانوں کا داخلہ اب آپ کو اسلام آباد میں بالکل ممنوع دکھائی دیتا ہے۔ مقصود اس سے قطع تعلق نہیں بلکہ صوبائی اور مرکزی بیوروکریسی میں ان کی روز افزوں کمی اور پسپائی کی نشاندہی ہے۔
پہلا قصہ پنجابی سیاست دان کا ہے۔ جنرل ضیا الحق کا دور تھا، این ایچ جعفری صاحب سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تھے۔ ہمارا اسلام آباد سے کراچی تبادلہ مقصود تھا۔ ان کے دودھ شریک بھائی اور فرسٹ کزن پروفیسر نعیم جعفری نے فون کیا تو انہوں نے خود ہمیں اپنے دفتر بلوایا۔ فہرست میں ہمارا نام خاصا نیچے تھا۔ یہ ان کی اپنی فائلوں میں دبی ہوئی ایک فہرست تھی۔ وہ چاہتے تو آسانی سے ہماراتبادلہ کسی بھی محکمے میں کرسکتے تھے۔ مہاجر افسران کسی کا کام نہیں کرتے اور آپ کا کام ان میں شل ( سندھی میں اﷲ نہ کرے) نہ پڑے۔ وہ سوئٹزرلینڈ میں پیک ہوا Evian کامنرل واٹر بھی اُبال کر پیئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ایم کیو ایم کے مہاجر وزیر بھی سندھ میں مہاجر افسران کو اپنے محکموں میں جگہ دینے سے ہچکچا تے تھے۔ ان کے من پسند ڈی ایم جی کے وہ سندھی افسر ہوتے تھے جن کا افسری کا انداز ویسا ہی ہوتا ہے جو شاہد آفریدی کا بیٹنگ کرتے وقت ہوتا ہے۔ ڈی ایم جی کی بم اور بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے وہ انضباطی اور انتقامی کارروائی سے اکثر محفوظ رہتے ہیں۔
سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے سجھاؤنی دی کہ کوئی وفاقی وزیر اپنے کراچی میں واقع کسی دفتر کے لیے ہمارا نام تجویز کریں تو انہیں فی الفور اس تبادلے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ ہم وزیر تجارت زاہد سرفراز سے ملے۔ انہیں کراچی سے کسی میمن دوست نے فون کیا تھا۔ کمپیوٹر کا زمانہ نہ تھا لیکن سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے نام خط ان کے عملے نے پندرہ منٹ سے بھی کم عرصے میں تیار کرکے دستخط کراکے ہمارے حوالے کردیا۔ خط جاری ہونا اتنی بڑی بات نہ تھی بلکہ انہوں نے کہا وزارت کے فنڈ سے ہمیں سفری ایڈوانس بھی دیا جائے۔ جس پر فی الفور کارروائی شروع ہوگئی۔ جعفری صاحب خط دیکھ کر حیران ہوئے۔ زاہد سرفراز کی اس سخاوت اور دوستانہ سرپرستی اور عجلت کو پنجابی ہونے کے ناطے قانون اور ضوابط کی عدم پابندی اور بھن جکڑی (سندھی میں شکست و ریخت ) پر سات خون معاف ہونے کا طعنہ دیا اور ہمیں کہا کہ کل ہمارا تبادلے کا نوٹیفیکشن جاری ہوجائے گا۔ انہوں نے اتنی بڑی مشکل حل ہونے پر اپنے بڑے بھائی اور ہمارے سسرالی عزیز نعیم جعفری کو مبارکباد بھی دی۔ اگلے دن جب ہم اپنا تبدیلی کا پروانہ لینے پہنچے تو موصوف نہ صرف ایک ہفتے کے لیے وہاں کی سول سروس کے مطالعاتی دورے پر کوالالمپور روانہ ہوگئے تھے بلکہ ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ فائل بھی اپنی دراز میں بند کر گئے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست کرنل ریاض کو شکایت کی تو وہ بھاگم بھاگ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پہنچے۔ جوائنٹ سیکریٹری بریگیڈئیر فضل رحیم جو ان کے کورس میٹ رہے تھے، ہمارے ساتھ پیش آنے والی واردات سن کر انگریزی میں سیکریٹری صاحب کی شان میں باآواز بلند Bloody Clerk Mentality کاتضحیک آمیز نعرہ مستانہ بلند کیا۔ انٹر کام پر فائل طلب کی۔ اس پر لکھا Spoke to Brig Salik. Conveying his displeasure over the delay. Order Issued as per Minister Commerce letter .
اب مہاجر وزیرسیکریٹری ٹرانسپورٹ زبیر قدوائی صاحب نے ہماری شمولیت ایک وفاقی وفد میں سوئیڈن کے لیے کردی۔ افضال منیف صاحب نے ہماری شمولیت چیف سیکرٹری سید سردار احمد سے خصوصی طور پر اپنی نگرانی میں قائم ہونے والے ایک پراجیکٹ کے لیے کرائی تھی۔ وہ ہم سے خوش بھی بہت تھے۔ خود بھی بہت نستعلیق آدمی تھے۔ ارد شیر کاؤس جی جو بڑے بے باک صحافی اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی ایم کیو ایم میں شمولیت پر بڑا ٹھیک ٹھاک ریکارڈ لگاتے تھے۔ ہم فائل لے کر ان کے پاس گئے تو کہنے لگے بیرون ملک کا معاملہ ہے۔ ہم ایڈیشنل چیف سیکرٹری سائیں فضل اﷲ قریشی صاحب سے منظوری لے لیں تو انہیں ہماری شمولیت پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ انہوں نے ساتھ ساتھ چتاؤنی بھی دی کہ فضل اﷲ قریشی صاحب بہت متعصب آدمی ہیں۔ غیر سندھیوں کے کام نہیں کرتے۔ ہمیں سفارش لگانی ہوگی۔ وہ ہمارے شہر حیدرآباد کے تھے۔ اس وجہ سے حیدرآباد خود بھی ایک سفارش تھا۔
ان کا دفتر سامنے ہی تھا اور وہ وزیر صاحب کے ماتحت بھی تھے مگر مہاجر وزیر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ انٹر کام پر انہیں ہماری پارت(سندھی میں لحاظ ) کا کہتے۔ فضل اﷲ قریشی صاحب نے ہم سے پوچھا کہ میمن ہونے کے ناطے ہم سول سروس میں کیسے آگئے۔ کافی بھی پلائی اور فائل فوراً منظور کرکے ہمارے حوالے کردی۔ افضال منیف صاحب کو اس چمتکار پر یقین نہ آیا تو انٹر کام پر خود فضل اﷲ قریشی صاحب سے تصدیق کی۔ فائل اپنے پاس رکھ لی کہ دوپہر میں وہ سب فائلیں نکالیں گے تو اس کو بھی فارغ کردیں گے۔ دوپہر وہ کسی کام سے نکل گئے اور رات کو لندن روانہ ہوگئے۔ ایک ہفتے بعد واپس آئے اور پرانی تاریخ لگا کر فائل نکالی۔ تب تک وفد کو ہمیں چھوڑ کرسوئیڈن گئے تین دن ہوچکے تھے۔ کراچی کے لیے جو بسیں آنی تھیں وہ سندھ سرکار کی Non-Representationسے پنجاب کو مل گئیں۔ ایسے ہی ایک مہاجر وزیر طارق اسمعیل تھے۔ دن میں دو فون وزیر بننے سے پہلے کرتے تھے۔ سٹی کورٹ کی مختلف مجسٹریٹوں کی عدالت میں ان کے حلقے کے کئی کام پھنسے ہوتے تھے۔ ہم یہ کام بغیر کسی لالچ کے خوش دلی سے کردیا کرتے تھے۔ اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی کسی کمیٹی کے سامنے ہماری پیشی تھی۔ طارق اسمعیل ان دنوں وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات تھے۔ وقت سے پہلے پہنچے۔ وزیر صاحب دفتر میں اجلاس سے آن کر بیٹھے تھے۔ نائب قاصد نے بتایا کہ اخبار پڑھ رہے ہیں۔ کافی پی رہے ہیں۔ ہم نے پرچی بھیجی تو کہنے لگے کہ وہ ہم سے واقف نہیں۔ کام ہے تو ہم ان سے کراچی میں ملاقات کریں۔ پارٹی کی ہدایت ہے کہ کراچی والوں کے کام ایک ضابطے کے تحت کراچی سے ہی کیے جائیں۔ ہم نے پرچی پر لکھ دیا کہ دنیا گول ہے اور گھومتی بھی ہے۔ بہت دن بعد جب ان پر پولیس سختیاں کرتی تھی تو ہم ان کا احوال سن کرمزے لیتے تھے حالانکہ ان کے Tormentors پولیس والوں میں اکثر ہمارے ماتحت رہے تھے اور لحاظ بھی بہت کرتے تھے۔
ان سے دل برداشتہ ہوکر ہم نے سینیٹ کے مارشل سے پوچھا کہ سینیٹرعبدالغفار خان جتوئی اجلاس میں شریک ہیں تو جواب اثبات میں ملا۔ وہ ہمارے پرانے واقف تھے۔ پرچی بھجوائی تو وہ اس کے ساتھ ہی اجلاس چھوڑ کرچلے آئے۔ سیدھے کیفے ٹیریا میں لے گئے۔ پہلے ناشتے کا پوچھا پھر کافی پر بات ٹہری۔ کہنے لگے کہ رات کا کھانا ہم ان کے ساتھ کھائیں، ان کی گاڑی کھڑی ہے وہ استعمال کریں۔ ہم نے کہا رات کا کھانا دوستوں کے ساتھ ہے تو اصرار کرنے لگے کہ انہیں بھی لے آئیں۔ ہم غریبوں کی عزت افزائی ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ سینیٹرصاحب بہت بڑے ہسپتال کے مالک، ماہر امراض قلب اور سندھ کے بڑے مشہور جاگیردار خاندان کے فرد تھے۔ ہم نے معذرت کی تو کہنے لگے مجتبیٰ خان جتوئی وزیر مواصلات ہیں۔ وہ ان کے بھتیجے تھے۔ ہم چار عدد درخواستیں آؤٹ آف ٹرن فون کنکشن کے لیے لکھیں۔ ان دنوں لینڈ لائن کنکشن کے لیے بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ آسانی سے نمبر نہ آتا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا کریں گے ان کنکشن کی درخواستوں کا تو جواب ملا۔ بابا کراچی میں پندرہ ہزار کی بکتی ہے۔ دلبر، مٹھڑا، ابھی سندھ خالی ہاتھ جانا تو اچھا نہیں۔ بچوں کے لیے کچھ تو لے کر جائیں۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک لفافہ نکالا اس میں پچیس ہزار روپے تھے کہنے لگے اچھا ہمارے شہر کی سوکھڑی لینے کے لیے یہ تو رکھو۔ ہم نے انکار کیا تو ناخوش نظر آئے، کہنے لگے کہ ہماری ہر بات ٹھکراتے ہو۔ سائیں آپ ڈاکٹر ظفر الطاف کے سچے شاگرد ہو۔ وہ ہماری اس ادا سے گھائل تھے کہ جب سیاسی مخالفت کے دور میں افسر لوگ ان سے ملنے سے کتراتے تھے۔ ہم دھڑلے سے اپنی ایس ڈی ایم کی نمبر پلیٹ والی گاڑی ان کے ہسپتال کے باہر کھڑی کرکے ہفتے میں ایک آدھ دفعہ ضرور ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ ہمیں حیران کیا کرتا تھا۔ اﷲ بخشے ایسے اعلی ظرف افراد اب کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...