... loading ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں کے لئے من پسند چاٹ کھانے کو مل جاتی ہے۔ ہمارے چٹخارے دیکھنے میں شاندار اور کھانے میں مزے دار ہیں۔ کراچی کے دہی بڑے ہوں یا لاہور کےدہی بھلے نام میں کیا رکھا ہے جی ہم کو تو بس کھانے سے مطلب ہے۔ آپ کو ویسے کیا پسند ہے، چنا چاٹ، دہی بھلے یا گول گپے۔ منہ میں پانی بھر آیا نا۔۔ گول گپوں کا نام سن کر ہی دل کھانے کو مچل جاتا ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا یہ گول گپے جس کسی نے بھی ایجاد کیے کتنا ذہین آدمی رہا ہوگا۔ ظالم نے مادے کی تینوں اقسام ٹھوس مائع اور گیس کو کس خوبی سے املی کا چٹخارہ لگایا ہے، انگریز بیچارے تو اس قسم کے کھانے کی چیز کو دیکھ کر صرف اپنا سر ہی پیٹ سکتے ہیں۔۔
دیکھا جائے تو زندگی کی چاٹ کو بھی مختلف مسالوں سے تڑکا لگایا جاتاہے۔ زندگی جوعدم سے وجود میں آتی ہے اور پھر ملک عدم کو کوچ کر جاتی ہے۔ نومولود بچہ انسان کا ہو یا چڑیا کا کوری سلیٹ ہوتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے اس کو جس ہنر کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے سکھایا جاتا ہے۔ کچھ ماں سکھاتی ہے اور کچھ ماحول سکھاتا ہے۔ کہتے ہیں تجربہ سب سے بڑا ستاد ہے تو وہ ایسے ہی نہیں کہتے، بلی شیر کی خالہ ضرور ہے لیکن شیر کو پیڑ پر چڑھنا خود ہی سیکھنا پڑتا ہے۔۔
جانوروں کے بچوں کو زندگی گزارنے کا ہنر بہت جلدی سیکھنا ہوتا ہے کیوں کہ نہ سیکھنے کی صورت میں زندگی دوسرا موقع نہیں دیتی۔ ہرن کا بچہ پیدا ہونے کے فوری بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے دوڑنا اس کی جبلت میں شامل ہے۔ مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے۔ ۔ انسان کا معاملہ مختلف ہے، کیونکہ انسان بھی تو سب جانداروں میں سب سے مختلف اور منفرد ہے۔ انسان کا بچہ طویل عرصے تک ماں باپ یا بڑوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔وہ ان سے وہ سب کچھ سیکھتا ہے جو زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے۔ سیکھنا ایک جبلی عمل ہے۔ ہم بچپن سے جو دیکھتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہمیں بتا کر اور جتا کر سکھایا جائے، انسان ہونے کی وجہ سے بچےکا ذہن اپنے اطراف ہونے والے واقعات اور چیزوں کا ادراک کرتا ہے اور بچے انجانے میں بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔ یہ سیکھ اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ ان کے ارد گرد اچھا ہو رہا ہے تو وہ اچھا سیکھتے ہیں اور برا ہو رہا ہو تو وہ برا سیکھتے ہیں۔
کسی بچے کا رویہ اچھا یا بُرا کیوں ہوتا ہے، کوئی پڑھائی میں تیز کوئی غبی کیوں ہوتا ہے۔ کوئی سوال اٹھانے والا اور کوئی چپ چاپ مان لینے والا کیوں ہوتا ہے۔۔ یقینا ہر بچہ اپنی الگ شخصیت کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ خدا کی طرف سے اسے ہنر اور صلاحیت بھی الگ الگ دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ذہن ہر بچے کو ایک سا ملا ہے۔ کورے کاغذ جیسا ذہن جس پر تربیت حالات اور معاشرہ وہ کچھ تحریر کرتے ہیں جو اس بچے کی شخصیت بن جاتی ہے۔۔ ماں باپ اور گھر والوں کا رویہ کسی بچے کی شخصیت اور نشو نما میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ پھر ارد گرد کے ماحول کا نمبر آتاہے۔ اگر ماں باپ کے درمیان تو تو میں میں رہتی ہے۔ اگر باپ جھگڑالو ہے، اگر گھر میں کسی کو گالیاں دینے کی عادت ہے تو یقین کرلیں بچے کی شخصیت پر اس کا برا اثر پڑ رہا ہے۔ اگر گھر میں صفائی نہیں اگر گھر میں ترتیب نہیں اگر گھر میں سلیقہ نہیں تو بچے کی شخصیت اور ذہانت بھی تربیت اور سلیقے سے عاری ہوتی جائے گی۔ بچہ لاشعوری طور پر اپنی شخصیت اپنے ارد گرد کے ماحول سے بناتاہے یہی انسان کی جبلت ہے۔۔
گھر کا ماحول بات چیت کا طریقہ اور گھر والوں کا برتاؤ سب مل کر بچے کی شخصیت کو تعمیر کرتے ہیں جس نے کل بڑے ہو کر خود کسی بچے کا باپ کسی بیوی کا شوہر اور کسی کا بھائی کسی کا دوست بنناہے۔ گھر میں لڑائی جھگڑاہوگا تو بچہ کیسے اس کے اثر سے محفوظ رہے گا۔گھر میں شور شرابا ہوگا تو بچے کی شخصیت میں استحکام کہاں سے آئےگا،گھر میں بدبو ہوگی تو بچے کی شخصیت کہاں سے مہکے گی۔ گھر میں اداسی ہوگی تو بچہ کیسے مسرور ہوگا۔ گھرمیں جہالت ہوگی تو بچہ کیسے تعلیم کے قریب ہوپائے گا۔ یہ اداسی یہ بدبویہ جہالت بچے کی شخصیت میں رچ گئی تو اس کو کبھی اچھا انسان نہیں بننے دےگی۔۔اپنے بچے کو ایک اچھا انسان بنانا چاہتے ہیں تو گھر کا ماحول ٹھیک کریں، بات چیت کا طریقہ ٹھیک کریں اور ہاں بچوں کو اپنے ساتھ باہر ضرور لے کر جایا کریں۔ بچوں کو فوڈ اسٹریٹ بھی لے کر جائیں اور زندگی کی چاٹ سے لطف اٹھائیں۔۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...