... loading ...
چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کے منظر عام پر آنے کے بعد سے دنیا بھر میں یہ تصور عام کیا گیا کہ انسان دراصل بندروں سے تبدیل ہوتے ہوئے اپنی موجودہ شکل میں آیا۔ ‘انسان کی اٹھان’ نامی تصویر تو خاصی مشہور ہو چکی ہے جس میں اس کی مرحلہ وار انسان بننے کی راہ دکھائی گئی لیکن 37 لاکھ پرانے ایک انسانی ڈھانچے پر جاری تحقیق اس پورے نظریے کو باطل ثابت کر رہی ہے بلکہ الٹا ہی چکر بتا رہی ہے۔
ویلز کے شہر سوانسی میں برٹش سائنس فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر روبن کرومپٹن نے کہا کہ انسان، بندروں اور چمپینزیوں سب نے ایک مشترکہ مورث اعلیٰ سے ارتقا پایا، جو دو پیروں پر سیدھا گھومتا تھا اور درختوں پر رہتا تھا۔
یعنی دراصل یہ بندر تھے کہ جنہوں نے خود کو تبدیل کیا اور ہاتھوں اور پیروں دونوں سے چوپایوں کی طرح چلے جبکہ انسان اپنے جد امجد کی طرح دو پیروں پر ہی چلتا رہا۔
تحقیق کہتی ہے کہ سیدھا کھڑا ہو کر چلنا درختوں سے اترنے اور کھلے میدانوں میں نکلنے کے بعد نہیں سیکھا بلکہ وہ اس سے کئی ملین سال پہلے ہی ایسا کرتا رہا ہے۔
پروفیسر کرومپٹن نے کہا کہ ‘انسان کی اٹھان’ تصویر عام ہوئی لیکن درحقیقت وہ غلط ہے۔ جدید انسان بالکل اپنے جد امجد جیسا ہی ہے جو جنگلوں میں رہتا تھا اور اب بھی واپس جا سکتا ہے اگر اسے دوبارہ سکھا دیا جائے کہ وہاں کیسے جینا ہے۔ “ہم وہ جانور نہیں ہیں جنہوں نے جنگل کو چھوڑ دیا۔ ہم اب بھی درختوں سے ویسا ہی تعلق رکھتے ہیں۔”
قدیم انسان کا یہ ڈھانچہ 1990ء کی دہائی میں جنوبی افریقہ سے ملا تھا، جسے ‘لٹل فٹ’ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کا سائز ایک جدید مغربی عورت جتنا ہی تھا۔ یعنی یہ بھی ایک عورت ہی ہے۔ یہ ڈھانچہ بہترین اور مکمل ترین حالت میں ہے۔ اس کا ایک بازو اور دونوں ٹانگیں موجودہیں جن پر تحقیق کے بعد یہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے یہ نتائج نکالیں اور کسی اندازے یا تکے سے کام نہیں چلایا۔
جب دنیا آپ کے سامنے بکھر رہی ہو، تمام عمر جس موت کو جھٹلایا وہ سب سے بڑی حقیقت بن کر سامنے کھڑی ہو، تو انسان کے منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ اس کی پوری زندگی کا لب لباب ہو سکتے ہیں۔ ایک زندگی جسے ہمیشہ 'طویل' سمجھا گیا، جب مختصر ہو کر ایک ساعت میں سمٹ آئے تو ماضی پر ایک اچٹتی ہوئ...