... loading ...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ کل ہی بھارتیوں کے زیر انتظام افغان فوج کے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ،ٹویٹر کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ ایران کاافغانستان کے سرحد ی گاؤں ’خاف ‘ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور افغانستان کے عبداللہ عبداللہ نے چاہ بہار بندرگاہ کو جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس کے بعد اب ایران بھی افغانستان کے ساتھ براستہ ریلوے لائن منسلک ہو گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت خطے کے باقی ممالک، بشمول بھارت ،افغانستان کے ساتھ کسی نہ کسی طور تیزی سے جُڑ رہے ہیں ، انہوں نے افغان طالب علموں کے لئے تعلیمی وظائف کا اعلان کردیا ہے، جب کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تکلف نہیں ہے ۔ ویسے بھی پاکستان کے جن سرحدی علاقوں میں قدرتی طور پر افغانوں کے لئے تعلیمی بیس کیمپ بننے تھے ، وہاں ہم نے ایران کے زیر اثر قبائل کو بسا کر ، نہ ختم ہونے والی فرقہ ورانہ جنگ میں خود کو دھکیل دیا ہے۔ افغان فوج کے افسران کی تربیت بھارت میں ہورہی ہے، حالانکہ ہماری تو افغان پالیسی رہی ہی ہماری فوج کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دینی مدارس سے چُن چُن کر نکالے گیے افغان طلباء کو بھارتی مسلم دینی اداروں میں دھڑادھڑ داخلے دئیے جا رہے ہیں۔ جب افغانستان کے ساتھ مختلف مسائل کے باعث طورخم اور چمن کے بارڈر بند ہوتے ہیں تو ایران اپنے بارڈر کھول دیتا ہے اور بھارت ہوائی جہازوں کے ذریعے وہاں سے مال اور مسافر اٹھاتا ہے۔ ایسے میں میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر کچھ عناصرایسے بھی پیدا ہو گیے ہیں جو مسلسل افغان مہاجرین کے نام پر افغان قوم کو گالم گلوچ کر تے رہتے ہیں تا کہ گزشتہ چالیس سال کی میزبانی سے جو ساکھ افغانوں کی نوجوان نسل میں پیدا ہوئی ہے اس کا بیڑہ غرق کیا جا سکے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو پہچاننے اور قومی زندگی سے تلف کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ کسی مشرقی یا مغربی ہمسایہ ملک کے گھس بیٹھیے ایجنٹ تو نہیں؟
یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ ان دو مزید ریل رابطوں کے قائم ہونے سے قبل افغانستان تک ریل کے صرف دو ہی راستے ہوا کرتے تھے ، ایک طورخم تک کا راستہ اور دوسرا چمن کا راستہ۔ ان دونوں راستوں پر ٹرین چلا کرتی تھی۔ لیکن جب مرحوم ضیاء الحق کے دور میں پاک فوج نے امریکیوں کو افغانستان کے لئے خدمات پیش کیں اور اشیاکی نقل و حمل کے کاروبار میں چھلانگ لگائی تو بہانا روس کے خلاف افغان جنگ کا بنایا اور پشاور سے طورخم اور کوئٹہ سے چمن کے ریلوے لائنوں کو سامان کی نقل و حمل کے لئے بالکل ہی ترک کردیا ۔ حالانکہ دنیا بھر میں ایسے ریل راستے جن پر مال گاڑیاں نہ دوڑیں وہاں ریلوے کا کاروبار ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوا کرتا ہے۔ اب صرف اس ریلوے پٹری کو زندہ رکھنے کے لئے پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک ٹرین کبھی کبھار چلائی جاتی ہے شاید وہ بھی نہیں۔ پہلے اسے دونوں افغان جنگوں کو بہانہ بناکر بند رکھا گیا اور اب تخریب کاری کا۔ اس کی بعض برانچ لائنوں کو یا تو مقامی افراد اکھاڑ کر لے گئے ہیں یا پھر ان کو ویسے ہی نئے منصوبوں کے تحت سڑکیں بناتے وقت انہیں زمین میں دفن کر دیا گیا ہے۔
تاہم ہمیں ریلوے کے حکام نے بتایا ہے کہ کوئٹہ سے چمن تک ایک مسافر ٹرین روزانہ چلتی ہے جس میں مسافر کم اور (اسمگلنگ کا) سامان زیادہ ہوتا ہے۔ اس ٹرین کو ایک نجی ٹھیکیدار چلاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ٹکٹ کوئی نہیں خریدتا۔ ریلوے نے ایک آدھ دفعہ اسے بھی بند کرنے کی کوشش کی تو اس سے مستفید ہونے والے کوئٹہ کے پختون بپھر گئے کہ یہ تجارت (دراصل ا سمگلنگ )کرنا ان کا قانونی اور نسلی حق ہے اور ایسا کرنے کا حق انہیں بھٹو مرحوم نے ایک تاریخی جلسے میں اعلان کرتے ہوئے دیا تھا جس میں انہوں نے اُس وقت کے افغان صدر کے گنجے سر پر ہل چلانے کی بڑھک لگائی تھی۔ بعد کی آنے والی حکومتوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اسے نہ چھیڑا جائے اور اسے ایسے ہی چلتے رہنے دیا جائے۔ اگر طورخم اور چمن کی سرحدوں تک افغان راہداری تجارت کے کنٹینرز بذریعہ ریل بھجوائے جائیں تو پاکستان کی قومی شاہراہوں پر رش کم ہوگا بلکہ ا سمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی اور ان روٹس پر ریلوے بھی منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔
حکومتِ پاکستا ن کے مختلف عہدیداروں اور ہمارے فوجی اداروں کے مختلف ادوار کے رویوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم اس بات پر حیران ہوتے ہیں۔ کابل میں پاکستان مخالف جذبات کیوں پائے جاتے ہیں۔ وہاں پر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں اور ہمارا قومی پرچم جلانے والوں کی سیاسی و معاشرتی اوقات اتنی ہی ہوجتنی پشاور میں اے این پی کی یا پھر کوئٹہ میں ہزارہ کی۔ یعنی اقلیت ہونے کے باوجود ، انتہائی اہم عہدوں پر قابض ہونے کی وجہ سے انتہائی موثر! لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود زمینی اور نسلی رابطوں کو غیر موثر یابند کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟
ویسے قیامِ پاکستان کے وقت جب ہمیں مغربی پاکستان کی ریلوے ملی تھی تو اس کے اُس وقت تک کے مجوزہ منصوبوں میں ریلوے کے رابطوں کو طورخم سے جلال آباد تک اور چمن سے قندھار تک بڑھانا شامل تھا۔ ریلوے کے ان رابطوں میں اس توسیع کے بغیر ہم ان روٹس سے کمائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ دنیا بھر میں ریلوے کو منافع میں چلانے کا ایک ہی اصول ہے یعنی مسافروں کے علاوہ صرف سامان کی نقل و حمل۔ دنیا میں ریلوے کے صرف وہی روٹس کامیاب مانے جاتے ہیں جن پر مال گاڑیاں چلائی جا رہی ہوں، صرف مسافر ڈھو کے کوئی بھی ریل چلانے والا ادارہ کبھی بھی منافع کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاہراہِ ریشم کے جن بھی راستوں پر ریلو ے کو بحال کر رہا ہے وہاں پروہ مسافر ٹرینوں کی بجائے مال گاڑیاں چلا رہا ہے ۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ستر سال گزر گیے ہم نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے ، مال گاڑیاں بند کی ہیں اور مسافر ٹرینیں چلائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تمام تر دعووں کے باوجود ریلوے کا خسارہ چھتیس ارب روپے ہے اورہم اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم چل تو رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہورہا کہ زرداری دور کی طرح سولہ ارب روپے کا خسارہ بھی ہو اور کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چل پا رہی ہو؟
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہماری روڈ ٹرانسپورٹ کا کاروبار اس قدر منافع بخش ہو گیا ہے کہ یہ تناسب یا تو منشیات اسمگلنگ میں ہے یا پھراسی سڑک کی ٹرانسپورٹ میں۔ ایک ٹرک والا ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا کمی کے باعث چھ سے آٹھ ماہ میں اپنے ٹرک کی قیمت واپس وصول کر لیتا ہے۔ دنیا کے کس کاروبار میں ایسا ہوتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کے بھائیوں پر زمینوں کے کاروبار میں پیسے بنانے کے علاوہ ٹرکوں کے ذریعے افغانستان میں ایساف اور نیٹو افواج کو نقل و حمل کی خدمات پر پیسے کمانے کا الزام بھی ہے۔ اور وہ جوچند جرنیلوں کو’نشانِ عبرت‘ بنانے کے تاریخی واقعات میڈیا کے ذریعے قوم کے کانوں میں سے اتارے جا رہے ہیں ، وہ بھی اسی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
ایسے میں کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم افغانستان کے ساتھ کسی بھی ہمسایہ ملک یا اس کی کسی بھی پراکسی کے اثر سے نکل کر اپنی آزادانہ دوطرفہ تعلقات کی پالیسی کو ازسرِ نو تشکیل دیں؟
افغان نیشنل آرمی کے کمانڈرز اور ارکان پارلیمنٹ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کو پرتعیش گاڑیوں میں بٹھاکر ان کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتے ہیں موجودہ افغان حکومت کے ساتھ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ ہواتھا،جس سے پاکستان کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوسک...
کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش حم...
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے میں پاکستان پر منصوبہ بندی کے افغان حکام کے الزامات غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ افغان حکام کی طرف سے جن سمز پر رابطوں کا الزام عائد کیا گیا تھا ، وہ افغان نیٹ ورک کا ہی حصہ نکلیں ، جب کہ اس کے تیکنیکی جائزے میں بھی حقائق افغان حکام کے الزامات کے برعکس نک...
پاک افغان سیکورٹی حکام کے درمیان چمن سرحد پر "باب دوستی "دوبارہ کھولنے کے حوالے سے فلیگ میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ اجلاس خود افغان حکام کی جانب سےدرخواست پر بلایاگیا تھا مگر اس کے باوجود افغان حکام نے اپنے سرحدی علاقوں میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اپن...
اس ہفتے کی اہم لیکن ایسی خبر جسے نظر انداز کردیا گیا، افغانستان میں موجود امریکی کمان سے بھارت سے کہا ہے کہ وہ افغان فوج کے لیے فوجی امداد میں اضافہ کرے۔ بھارت نے دسمبر 2015ء میں افغانستان کو چار جنگی ہیلی کاپٹر دیے تھے، اب امریکی اور افغان حکام چاہتے ہیں کہ انہیں مزید بھی دیے جا...
افغانستان میں کریش لینڈنگ کرنے والے پنجاب حکومت کے ہیلی کاپٹر کے عملے کو افغان طالبان کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد پاکستان پہنچا دیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار چھ افراد کے عملے کو قبائل کے درمیان معاہدے کے تحت رہا کیا...
افغانستان کے ایک سینئر پولیس عہدیدار نے، جنہیں ملک کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، صوبہ قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ قندھار کے پولیس چیف جنرل عبد الرازق نے کہا کہ کاروباری سودوں میں پاکستانی روپے کے استعمال کو جرم قرار دے دیا ہے لیک...