... loading ...
شیخ محمد عبداللہ کو شیر کشمیر کے نام سے بہت عرصہ تک لوگ یاد کرتے تھے لیکن 1975میں جب انہوں نے اندراجی کے ساتھ ایک نام نہاد معاہدہ کرکے تاریخ ساز جدو جہد کا خاتمہ کیا تو شیر کشمیر کا خطاب آہستہ آہستہ ماند پڑگیا۔ 1982ء کی بات ہے کہ شیخ صاحب کے دست راست اور ہر دکھ سکھ میں ان کے ہمسفر مرزا افضل بیگ بستر مرگ پر پڑے تھے کہ اچانک شیخ عبداللہ ان کی عیادت کیلئے پہنچے۔ مرزا افضل بیگ کمزور اور نڈھال حالت میں تھے اور آنکھوں کی بینائی بھی بہت متا ثر ہوئی تھی۔شیخ نے ان کے سرہانے بیٹھ کر کہا بیگ صاحب میں آیا ہوں، مجھے پہچانا۔ کہتے ہیں کہ مر زا افضل بیگ کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ میں نے تمہیں بہت پہلے ہی پہچان لیا تھا لیکن۔ ۔۔۔۔!!!بیگ اسکے بعد خاموش رہے۔
1975ء کے اندرا عبداللہ معاہدے کے بعد جب افضل بیگ سے سوال کیا گیا کہ ان بائیس برسوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جس دوران میں آپ جموں وکشمیر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہر قسم کے آلام ومصائب بر داشت کرتے رہے تو مرزا افضل بیگ نے جواباََ کہا کہ وہ 22برس آوارہ گردی کے سال تھے۔صاف ظاہر ہے کہ انہی 22برس کے دوران ہی مرزا محمد افضل بیگ کو یہ پتہ چلا تھا کہ شیخ عبداللہ نے چہرے پر جو ماسک چڑھایا ہے وہ کسی بھی وقت اُتر سکتا ہے اور یہ حقیقت کھل کے واضح ہو جائیگی کہ اصلی شیخ عبداللہ صرف اور صرف اقتدار کا خواہشمند ہے۔ جاہ و حشمت کا بھوکا ہے۔
لیکن جب یہ حقیقت مر زا افضل بیگ پر واضح ہو ئی ہوگی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ شیخ عبداللہ کا سحر کا م کر چکا تھا۔ لو گ اس کی ہر ادا کے عاشق بن چکے تھے۔ اور اب شیخ سے دوری اختیار کرنا اپنے کیر ئیر کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا۔ افضل بیگ نے خود کو بھی انہی راہوں پر ڈالا اور نتیجہ یہ نکلا کہ بیگ پار تھا سارتھی مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہو اور 13نومبر1974کو تاریخ ساز جدوجہد کا خاتمہ اندراعبداللہ معاہدے کی شکل میں سامنے آیا۔
25 فروری 1975ء کو شیخ عبداللہ نے ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا اور مرزا افضل بیگ کو نائب وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کیالیکن شیخ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ مرزا افضل بیگ ان کی اصلیت سے آگا ہ ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت ان کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔چنانچہ 22سالہ رفاقت کو ختم کر دیا گیا۔25ستمبر 1978ء کو افضل بیگ کا بینہ سے فارغ کر دیے گئے۔ اور 29ستمبر کو انہیں تنظیم سے بھی خارج کر دیا گیا۔
مرزا افضل بیگ یہی کہا نی بستر مرگ پر بزبان حال سنا رہے تھے۔ ان کی زبان سے یہ مختصر کلمہ نکلنا تھا کہ میں نے آپ کو بہت پہلے پہچان لیا تھا،بے بسی اور بے کسی کی ایک داستان سنا رہا ہے۔۔افضل بیگ نے گمنامی کی حالت میں جان دیدی۔ اور کچھ مدت بعد لوگ بھول گئے کہ مر زا محمد افضل بیگ نامی بھی کوئی شخص تھا جس نے بھارت کے خلاف کشمیر کی ایک تاریخ ساز جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے شیخ کوکشمیری قوم کے سامنے ہیرو کے طور پر پیش کرنے کا بیڑا اٹھا یا تھا اور وہ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوا۔ یہ باتیں کہ شیخ کو اُبلتے تیل میں ہاتھ ڈالنے کو کہا گیا اور انہوں نے ڈالا،لیکن ہاتھ محفوظ رہا۔یا یہ افسانے کہ درختوں کے پتوں پر شیخ عبداللہ کا نا م تحریر ہے۔ اسی بیگ نے گھڑ کر پھیلائیں اور لوگ یقین بھی کر بیٹھے۔ اسی شخص کی کمال حکمت عملی سے شیر کشمیر کا خطاب لوگوں سے منوایا۔بہت ذہین شخص تھا لیکن یہی ذہانت اس کی گردن کا طوق بن گئی۔ ذرا سا اختلاف، ذرا سی نا گواری بھی شیخ کو برداشت نہیں ہوئی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا افضل بیگ 11جون 1982کو اس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے کہ بقو ل شاعر خد اہی ملانہ وصال صنم۔ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔
8ستمبر 1982کو شیخ عبداللہ فوت ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیخ عبداللہ نے یہ تین مہینے بڑی ہی بے چینی اور اضطراب میں گزارے۔ اس کے قریبی رفقاء کا کہنا ہے اسے احساس ہوگیاتھا کہ خواہ کسی کے بھی خاموش اشارے پر اس نے تحریک آزادی کو سبو تا ژ کیا ہو لیکن عملاََ کشمیری قوم اور اپنے ضمیر کے سامنے وہی مجرم کے روپ میں کھڑا ہے۔ شیخ عبداللہ کا ضمیر شرمندگی محسوس کر رہا تھا اس شرمندگی کا ا ظہار انہوں نے 13جولائی 1981ء کو یوم شہداء کے مو قع پر ایک خصوصی تقریب سے خطاب کر تے ہو ئے کیا۔ کہا کہ” ہم کشمیری ایک قوم ہیں۔ نا ہم ہندوستان کے غلام ہیں نہ ہی پاکستان کے غلام ہیں۔ ہم نہ اندرا گا ندھی کے غلام ہیں اور نہ ضیا ء الحق کے غلام ہیں۔ہم اپنی قوت پر زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے ” بات صرف اس حد تک محدود نہیں رہی بلکہ درگا ہ حضرت بل میں عید میلادالنبیﷺکی تقریب سے زندگی کی آخری تقریر میں بھی اس سے بھی سخت بات کی کہ”بھارت کشمیر میں ایک سازش کے تحت اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چا ہتا ہے، یہ کشمیر ہمارا ہے اور یہاں ہم کسی کو اکثریت اقلیت میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے”۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے قول کے عین مطا بق شیخ عبد اللہ اپنے کیے ہوئے پر نادم تھے، پچھتاتے رہے، لیکن اب اس کا فائدہ نہیں تھا۔لیکن کیا ان کے بیٹے فاروق عبد اللہ اور ان کے پوتے عمر عبد اللہ کیلئے وقت نے یہ موقع فراہم نہیں کیاہے کہ وہ اپنے والد اور دادا کی غلطی کا ازالہ کریں۔ تاکہ شیخ عبد اللہ کی بے چین روح بھی کسی حد تک سکون حاصل کرسکے۔ میرا خیال ہے کہ فاروق اور عمر عبد اللہ کو کشمیریوں کا قرض اتارنے کا بھی موقع فراہم ہوا ہے اور یاد رہے کہ تاریخ بار بار ایسے مواقع فراہم نہیں کرتی۔ اللہ ہم سب کو اپنی غلطیاں درست کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس آج(منگل کو) پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں شروع ہو گا، اجلاس میں مسئلہ کشمیر، مسلم امہ کو درپیش معاشی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجز کیساتھ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی غورکیا جائے گا۔ کانفرنس میں 150سے زائد قراردادیں منظور ہ...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...
وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...
پاکستان بار بار یہی بات دہرارہا ہے لیکن بھارت فوجی قبضے اورتسلط پراَڑاہوا ہے ،نتیجہ آنے تک مقد س اورجائزجدوجہد جاری رکھیں گے بھارتی مظالم کے آگے سینہ سپر87سالہ ناتواں بزرگ لیکن جواں عزائم اورمضبوط اعصاب کے مالک چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس انٹرویوپینل:شیخ امین ۔مقصود من...
ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
زندہ قوموں کی زندگی کارازصرف ’’خود احتسابی‘‘میں مضمر ہے۔ جو قومیں احتساب اور تنقید سے خوفزدہ ہو کر اسے ’’عمل منحوس‘‘خیال کرتی ہیں وہ کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتی ہیں۔ احتساب ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی فرد، جماعت اور تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا صحیح...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...