... loading ...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیکھے جانے والے جاندار بھی۔صدیوں کے ارتقاء میں ڈائنوسارز سمیت زمین پر زندگی کی اس کہانی کے کتنے ہی کردار صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ کتنے جانداروں کی شکل صورت تبدیل ہو گئی ، لیکن جو باقی رہے اور جو مر گئے سب کو زندہ رہنے کیلئے کھانے اورپانی کی ضرورت رہی۔ کھانے کے بغیر تو پھر کئی دن گزارے جا سکتے ہیں لیکن پینے کو پانی نہ ملے تو جاندار کو بےجان بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔پودوں کو تو پانی کی اور بھی ضرورت ہوتی ہے، پودے اپنی خوراک سورج کی روشنی اور پانی سے بناتےہیں، پانی نہ ملے تو دو دن میں ہرا بھرا پودا خشک ہوکر مر جاتا ہے۔ پانی نہ ہو تو ایک پودا ہو یا پوری فصل سب سوکھ جاتے ہیں اور جانداروں کےکھانے کے لئے کچھ نہیں بچتا۔
کہنے کو تو زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن سمندروں کی شکل میں موجود پانی کا یہ عظیم ذخیرہ جانداروں کے لئے زندگی نہیں موت کی وجہ بن سکتا ہے، کسی انتہائی ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی سمندر کا پانی پی کر کسی انسان یا حیوان کی زندگی نہیں بچ سکتی۔کسی زمینی پودے کو سمندر کے پانی سے نہیں سینچا جا سکتا۔مطلب یہ کہ سطح زمین پر موجود ستر فیصد پانی تو پینے کےقابل ہے ہی نہیں۔باقی کے تیس فیصد میں سے دس فیصدبرف کی شکل میں منجمد ہے یا زیر زمین موجود ہے۔اب باقی بچا بیس فیصد پانی جو دریاؤں اور جھیلوں کی شکل میں موجود ہے ۔یہی بیس فیصد پانی دنیا بھر کے تقریبا ساڑھے سات ارب انسانوں اور اتنے ہی دیگر جانداروں کے پینے اور استعمال کے لیے موجود ہے۔بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور انسانوں کی بڑھتی ضرورتوں کی وجہ سے صاف پانی کی قلت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ پانی ہوگا تو زندگی رواں دواں رہے گی ، بقاء کی خواہش انسانوں کو پانی کی تلاش اور ذخیرے پرمجبور کرتی ہے ۔
انسان نے دریاؤں کا پانی قابو کرنے کیلئے ڈیم بنالئے لیکن دریا میں پانی ہی کم آئے تو ڈیم میں بھی کتنا پانی جمع ہوگا۔ دریاؤں میں پانی بلند و بالا پہاڑوں پر جمی برف کے پگھلنے سے آتا ہے اس کے بعد بارش میٹھے پانی کا سب سے بڑا وسیلہ بنتی ہے۔ پہاڑوں پر برف اور بادلوں میں پانی ، سب کا سب سمندر سے بھاپ کی صورت فضاؤں میں جمع ہوتا ہے۔
انسانوں کی میٹھے پانی کی ضرورت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف انسان کو پینے اور استعمال کیلئے پانی نہیں چاہئے انسان کوکھانے کے لئے جو فصلیں اور دودھ دہی اور گوشت کے لئے جو جانور درکار ہیں، انہیں بھی بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے پہاڑوں پر جمے برف کےگلیشیئر پگھل کر چھوٹے ہو رہے ہیں۔ بارشوں کے تناسب میں بھی کمی آرہی ہے۔ یعنی دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔زیر زمین پانی کی سطح بھی نیچے سے نیچے ہوتی جا رہی ہے ، کنویں سوکھ رہے ہیں بورنگ کام نہیں آرہی ۔ ماہرین کا خیال ہے آئندہ جنگیں پانی کے حصول کے لیے ہوں گی۔
ان حالات میں بھی کچھ لوگ پانی کو انتہائی بے دردی کے ساتھ استعمال بلکہ ضائع کر رہے ہیں ۔ان کی گاڑیاں بے حساب پانی سے دھوئی جاتی ہیں ، ان کے لان میں بھی بے دریغ پانی استعمال ہوتا ہے ، ایسے لوگوں کاکہنا ہے گلیشئرز کا گھلنا ہمارا مسئلہ نہیں نہ ہی زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے ہمیں کوئی سروکار ہےہمیں تو پانی وافر مقدار میں مل رہا ہے ،ہم تو ایسے ہی پانی خرچ کریں گے۔ دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو پانی کی قلت کی مار سہہ رہے ہیں ، اُنہیں پینے کے لئے ایک لیٹر پانی کے حصول کیلئے بھی گھنٹوں لائنوں میں لگنا پڑتاہے۔ ان کے لئے پانی کا ایک ڈبہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ ۔ ایسے میں اگر آ پ کو پانی مل رہا ہے تو اس کو خد ا کی بیش قیمت نعمت جانیں۔ پانی کے استعمال میں حددرجہ احتیاط کریں ۔ کوشش کریں پانی ضائع نہ ہو، پانی کی ایک ایک بوند بھی بہت قیمتی ہے ۔ اسراف یوں بھی خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ، خدا کے بندے بن جائیں، پانی سمیت اس کی ہر ہر نعمت کی قدر کریں ، یہی شکرگزاری کی سب سے بڑی صورت ہے۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...