... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
لانس کا فون بند ہوا تو میرے دل کو ایک عجیب سی سوگواری اور بے زاری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس لیے نہیں کہ کل میں اسرائیل سے رخصت ہونے والا تھا بلکہ اس لیے کہ مجھے آج اہل خانہ کے لیے شاپنگ کرنی تھی۔ یہ میرا سب سے اہم مسئلہ ہے کہ میں بلا ضرورت کسی دُکان میں داخل ہوکر بھاؤ تاؤ کروں۔ ایک تو میرے پاس وقت کی ہمیشہ کمی رہتی ہے۔ دوسرے بازاروں میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ ان مراکز تجارت میں چاہے وہ میلوں پر پھیلے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز ہوں یا کسی پرانے شہر کے تنگ اور پررونق بازار۔ ان سب میں مجھے یکساں گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ بیگم کے اور پیروں کے پاس خالی ہاتھ جانے میں بڑا نقصان ہے۔ بیگم کو جانے کس نے بتایا تھا کہ بحیرہ مردار کا کیچڑ بہت اچھا مڈ ماسک سمجھا جاتا ہے۔
بچوں کے لیے بھی کچھ لینا تھا۔ سو بادل نخواستہ خود کو بستر سے سمیٹا اور ناشتے کے بعد عبدالقادر کو اپنا مسئلہ بتایا تو آدھے گھنٹے بعد اس کا بیٹا عمار میری رفاقت کے لیے حاضر تھا۔ عمار بالکل میرے بیٹے جیسا ہے بیس برس کا۔ پر اعتماد، چال میں پھرتی، بدن ماشاء اللہ توانا اور مزاج گلستان کی ہواؤں جیسا، اس پر یہ کہ یروشلم کی ہر گلی، دُکان اور دُکانداروں کی چال بازیوں سے واقف۔ یروشلم کے بازاروں میں مجھے اسے بھاؤ تاؤ کرتے دیکھ کر لگا کہ اسے کراچی میں ایک خریداری ٹریننگ اسکول کھول دیا جائے تو تربیت کے لیے آنے والی خواتین کا ایسا رش ہوگا کہ جیسے پولیس اور کسٹمز میں میں بھرتی کے لیے آنے والوں کا ہوتا ہے۔ خریداری کے لیے وہ دُکاندار سے مکالمہ ایسا کرتا تھا جیسے ہم ہندوستان سے کبھی کشمیر کی بات کیا کرتے تھے۔ اس کے دلائل طویل، بے رحمانہ، اور براہ راست الزام تراشی پر مبنی ہوتے تھے۔ امریکا اگر اسے اپنے تیل کی خریداری کی دلالی پر لگا دے تو عربوں کو بیس ڈالر فی بیرل سے ایک ٹکا اضافی نہ مل پائے۔ اکثر مجھے غریب دُکاندار پر رحم آجاتا جو پورا پورا دن گاہک اور سودے کے انتظار میں کے لیے بیٹھے ہیں۔
شاپنگ کے انہیں لمحات میں اس نے مجھ پر بھی اپنی چالاکی کا جال پھینکا اور اس کا آغاز اس نے ایک غیر محسوس سی ستائش سے کیا۔ اس میں ایک سی ترغیب اور انا پرستی کا مساج تھا۔ وہ آہستگی سے گویا ہوا کہ میرے والد کے مطابق مجھے مہم جوئی کا بہت جنون ہے۔
میں نے بھی اس فریب میں براہ راست کودنے کی بجائے ایک محتاط رویہ اپنایا اورجواباً وضاحت کی کہ ایسا کچھ خاص نہیں۔ اس کے باوجود اس کی ناپختہ کاری حاوی ہوگئی اور وہ کہنے لگا کہ یہودیوں کے دو اہم انبیا کے مزارات نبی زکریا اور نبی ابسلام کے مزارات میں لے جاسکتا ہوں۔ ’’وہاں تومیں پہلے ہی ہو آیا ہوں‘‘ میں نے بھی اپنے تمنائی کا حوصلہ کچھ پست کرنے کی ٹھانی۔ ’’ارے نہیں! وہاں اندر جانے کی ایک سُرنگ ہے۔ جو ان کے زیر زمین مقابر تک لے جاتی ہے۔ ہمیں ان خفیہ راستوں کا بہت علم ہے۔ اب میرے اندر کا انڈیانا جونز بیدار ہوگیا۔ ہم اکثر ان راستوں سے وہاں چلے جاتے ہیں تو کوئی قدیم سکہ یا اور تاریخی نوادر مل جاتا ہے جسے ہم چپ چاپ لے آتے ہیں اور مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔
سچ بتائیں ان نوادرات کا ان اندھیرے مقابر اور زمین میں دھنس چھپ کر رہنا بہتر ہے کہ ان کے عوض ہماری جوانی کے بہتر ایام اور سب کے لیے دید و درشن کے مواقع کا بہم ہونا۔ مجھے اس کی دلیل میں جواں سال توانائی کی ایک دانائی بھری توجیہہ محسوس ہوئی۔
تم ان نوادارت کا کیا کرتے ہو؟ اب میں نے سوال کیا۔
ہم انہیں بیچ دیتے ہیں ــ‘‘ اس نے بھی مختصر سا جواب دیا۔
کسے اور کتنے پیسوں میں؟‘‘ یہ میرا گلا سوال تھا۔
میرے سوال پر اس کا چہرہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ سے چمک اٹھا وہ بتانے لگا کہ اس کے کسی ساتھی کو ایک سکہ ملا تھا جسے ایک یہودی بیوپاری نے سو ڈالر کا خریدلیا تھا۔ مجھے لگا کہ سکندر اعظم کے سکے کی قیمت میں یہودی ہر حال میں فائدے میں رہے اور مسلمان اس خطرے اور محنت کے عوض فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ یہ سکہ بالآخر برطانیا یا امریکا میں ہزاروں ڈالر کے عوض بیچا گیا ہوگا۔ اس کی دعوت میں میرے تجسس کی سیرابی کا بہت سامان تھا مگر پھر بھی میں نے اپنے پیشے، عمر اور مراتب کے اعتبار سے اسے ناقابل عمل جانا۔ وہ مقامی نوجوان تھے ، کم عمر اور مہم جو، میرا بطور سیاح وہاں قیام ویسے بھی بہت نازک مرحلہ تھا اور ایسے میں کسی بد انتظامی اور بگاڑ کے نتائج ناخوشگوار ہوسکتے تھے۔ میں نے اسے اگلی دفعہ کا وعدہ کرکے جان چھڑائی۔ اسے میرے جواب سے مایوسی ہوئی مگر عین اس لمحے اس کے فون پر عبدالقادر کا فون آگیا۔ وہ مجھ سے گفتگو کا خواہشمند تھا۔ اس نے میرے شاپنگ کے تجربے کا احوال لینے کے بعد ایک بم گرادیا۔ آج رات ایک بڑے ڈنر کا میں نے اہتمام کیا ہے۔ میرا سارا گھرانہ تم سے ملنے کا خواہشمند ہے اور وہ سب جمع ہوں گے سو آپ نے ضرور آنا ہے۔ میں نے اپنی بیوی سے فرمائش کی ہے اورکہا ہے کہ میرا پاکستانی بھائی آرہا ہے۔ بہترین طعام تیار کرو۔ میں نے دھمکی دی ہے کہ اس کی خاطر مدارات میں کوئی کسر رہ گئی تو اب بھی کئی خواتین مجھ سے شادی پر رضامند ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس دھمکی کے بعد ایسا عمدہ کھانا بنائے گی کہ تمہارا جی خوش ہوجائے گا۔ وہ ویسے بھی بہت عمدہ کھانے بناتی ہے۔ ‘‘
اس کا یہ اعلان سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ بد بخت نے پوچھے بغیر، میرا پروگرام جانے بنا اپنی طرف سے یہ اہتمام کرلیا تھا۔ میں ڈاکٹر لانس اور اس کے طبی قبیلے کو کیا جواب دوں گا۔ برسوں کی دوستی بگڑ جائے گی۔
ہم سرجن بہت کم وقت میں بہت بڑے فیصلے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایک جانب میرے لیے ایک غریب آدمی کا جذبۂ خیر سگالی تھا تو دوسری طرف ایک دوست کی پر تکلف دعوت۔ دوست کو سمجھانا اور گریز کرنا آسان تھا۔ اس دعوت میں جاکر میری انا کو تسکین ضرور ملتی مگر قادر کو انکار کرکے دل کو جو گھاؤ لگتا وہ بہت عرصے تک مندمل نہ ہوپاتا۔ سو میں نے بھی فوری حامی بھر لی کہ اس کے گھر آنا بالکل ایسے ہی ہوگا جیسا میں اپنے بھائی کے گھر کی پورے خاندان کی دعوت میں شریک ہوا ہوں۔
میر ے لیے اب سب بڑا مرحلہ ڈاکٹر لانس کو سمجھانے کا تھا چونکہ وہ خود بھی دیانت دار انسان ہے لہذا میں نے اس کے معاملے میں سچ کی طاقت کو سب سے بہتر جانا۔ جب اسے قادر کی دعوت کا بتایا تو وہ چونکہ خود بھی بہت انسان دوست اور فطرتاً غریب پرور اور محبتیلا انسان ہے لہذا خوش دلی سے مجھے معاف کردیا۔ اس کی خوش دلی نے مجھے اور بھی ریزہ ریزہ کردیا کیوں کہ اس نے میری معذرت کو اس عمدہ وضاحت سے تقویت بخشی کہ ہم تو میرے اگلے دورے میں جوہانسبرگ میں پھر اکٹھے ہوں گے یہ غریب لوگ بے چارے تم سے پھر کب مل پائیں گے ، تمہارا ان کے ہاں جانا زیادہ ضروری ہے۔ لیکن تم پاکستانیوں پر تو کم بختوں پر شیطان بھی بھروسا نہیں کرتا۔ کائنات میں ایسی خود غرض اور بے اصول مخلوق تو اللہ نے شاید جانوروں میں بھی پیدا نہیں کی۔ کوئی اور ہوتا تو مجھے پاکستان اور پاکستانیوں کی شان میں ایک لفظ برداشت نہ ہوتا مگر ڈاکٹر لانس یہ لائسنس صرف پرانی دوستی کی وجہ سے لے رہا تھا کیوں کہ اس کا بیانیہ جب اس جملے پر ختم ہوا کہ شاید یہ ہی برائیاں ہیں جس کی وجہ سے تم دنیا میں میرے بہترین دوست ہو تو اس کی زہر افشانی شیرینی ہزار رنگ بن کر روح میں گھل گئی۔ اس فون کے اختتام پر میری شاپنگ بھی تقریباً مک گئی اور میں اپنے مسجد الاقصی والے گروپ سے ملنے چل پڑا۔
عصر کے وقت میں مسجد الاقصی القدیم پہنچ گیا۔ عین اس مقام پر جہاں آقائے دو جہاں نبی محترم محمد مصطفے ﷺ نے آج سے قریباً چودہ سو سال قبل صلوۃ الانبیا کی امامت کی دو رکعت دنیا کی اس تیسر ی مقدس ترین مسجد کے در و بام پر اک نگاہ ِرخصت ڈالی اور چل دیا۔ مسجد الاقصیٰ جدید کے باہر سیاحوں کا ایک انبوہ ِکثیر جمع تھا۔ اتوار کو یہاں اور قبتہ الصخری میں غیر مسلموں کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ میری خوش قسمتی کے شیخ نائف، حاتم اور نبیل انصاری تینوں ہی مجھے ڈیوٹی پر موجود مل گئے۔ وہ بڑی خندہ پیشانی سے سیاحوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ سیاح رخصت ہوئے ، عصر کی نماز ختم ہوئی تو ہم اپنے مخصوص مقام پر آن بیٹھے۔ ہمیں دیکھ کر بہت سے وہ افراد بھی آن بیٹھے جنہیں میں نے اپنے قیام کے دوران چھوٹے موٹے طبی مشورے دیے تھے۔ سب ہی میری رخصت پر دل گرفتہ تھے، گلے لگا کر عرب رسم کے مطابق گالوں کا بوسہ دیتے تھے، سب ہی مصر تھے کہ اگلے دورے میں میرا قیام ان کے آستانہ ٔ عشق پر ہوگا۔ میرے لیے انہیں بھی اللہ حافظ کہنا گراں تھا تو ان تین اعلی ہستیوں کو بھی جو اس مقام عظیم کے خادمین الحرمین ہیں۔ ان کی محبت، تعلق میں لگاؤ نے میرا دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیت لیا تھا۔ ان کی معلومات میرے لیے فلسطین اور عربوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے مشعل راہ بنی تھی۔ تاریخ کا جو کیپسول انہوں نے میرے حلق سے انڈیلا تھا وہ تو ایسا تھا کہ اس کو سمجھنے کے لیے کئی کتب اور لیکچر درکار ہوتے۔ مجھے پہلے حاتم اور پھر نبیل انصاری نے گلے لگایا۔ شیخ نائف البتہ آب دیدہ ہوئے۔ میرے دونوں ہاتھ اپنے نرم مشفق ہاتھوں میں لیے اور کہنے لگے کہ ہم تو چراغ سحری ہیں اب بجھے کہ تب لیکن زندگی رضائے الہی سے بہت بھرپور اور مکمل گزاری ہے۔ اب ایک ہی تمنا ہے کہ مسیح علیہ السلام اور مہدی موعود دنیا میں تشریف لائیں تو ان کا اس احاطے میں خیر مقدم کرسکوں۔ یہیں پر ان کی امامت عالم کا جلوہ برپا ہوگا۔ وہ جب یہاں اپنی دو رکعت صلوۃ ادا کرلیں گے تو عالم فانی میں ایک جنگ عظیم Armageddon برپا ہوجائے گی۔ تم مسافر ہو، اللہ مسافر کی دعا جلد سنتا ہے تم میرے لیے یہ دعا کرنا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے ایک پیکٹ عطا کیا، کہنے لگے میرے پوتے کے لیے اس میں ثوب اور میری پوتی کے لئے اس میں حجاب ہے انہیں بتانا کہ یہ ان کے فلسطینی عرب دادا کا تحفہ ہے۔
دل گرفتہ و دل بہ گریہ میں رخصت ہوا تو قبتہ الصخری کا سنہری گنبد شام کے سورج کی آخری کرنوں کو بوسہ دے کر رخصت کررہا تھا۔ مسجد اقصیٰ کی بے رنگ پتھریلی دیواروں پر میں نے ایک نگاہ ڈالی۔ وہ سارا گروپ مجھے بوجھل قدموں سے ہاتھ ہلاتے ہوئے رخصت ہوتا دیکھ رہا تھا۔ یہ میرے اپنے لوگ تھے جن سے میرا دل مل گیا تھا، جی تو چاہا کہ میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رؤں مگر سیاح کا ضبط اور غرور آڑے آ گیا۔ میں بہت آہستگی سے مسلمانوں کی مکہ المکرمہ، مدینہ المنورہ کے بعد تیسری اہم عمارت سے اللہ کا شکر ادا کرتا ہو انکل آیا کہ مجھے اس کی زیارت کا شرف باکمال حاصل ہوا۔ (جاری ہے )
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...