... loading ...
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں کل جماعتی وفد 4ستمبر2016ء کوکشمیر وارد ہوا ۔پورا کشمیر بشمول بھارت اور پاکستان دن بھر کشمیر سے متعلق نئی تازہ خبریں جاننے کے لئے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر نیوز چینلز بدلتے رہے تاکہ کشمیر میں دو مہینے سے جاری خونیں رقص پر روک لگ جانے کی کوئی امید کی کرن نظر آجائے ۔مگر ہوا وہی جس کا پہلے سے اندیشہ تھا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔بھارت کی مرکزی سرکار کشمیر کے حالات کے حوالے سے مکمل طورپر غیر سنجیدہ ہے ۔اس نے 2010ء طرز پر کل جماعتی وفد اس لئے بھیجا کہ شاید حریت والے ’’Face saving‘‘کے لئے دلی سے ایک ’’بے اختیار یا بااختیار‘‘ٹیم سے ملاقات کے خواہش مند ہیں اور یوں حریت لیڈران سے مل کر پُر ہجوم پریس کانفرنس میں ایجی ٹیشن ختم کرنے کا اعلان کریں گے ۔زمینی حقائق سے بے خبر یا غلط اطلاعات پر بھروساکرنے والی نئی دہلی کا ابتداء سے ’’ مسئلہ ‘‘یہی رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ ’’چالاک ‘‘سمجھ کر دنیا جہاں کے لوگوں کو بیوقوف سمجھتی ہے ۔یہ لوگ کشمیر کے درد کے خاتمے کے لئے باربار انہی سے ملتے ہیں جنہوں نے انہی کی چھاتی کا دودھ پیا ہے ،رہے ناراض لوگ ان کو دق کرنے کے لئے پر امن حالات میں ’’ایجنٹ وغدار‘‘قراردیا جاتا ہے برعکس اس کے خراب حالات میں ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘!کل جماعتی وفد کی 4ستمبر کی تمام تر اچھل کود سے معلوم ہوا کہ ان کا حریت کانفرنس سے ملنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو مرکزی سرکار ’’واجپائی اور منموہن سرکار‘‘کی طرح چند روز قبل دعوت نامہ بھیجتی ۔باعث حیرت یہ کہ 3ستمبر کی شام محبوبہ جی نے بحیثیت صدر پی،ڈی،پی دعوت نامہ بھیجا اور میرا یقین ہے کہ اگر بطور چیف منسٹر بھی وہ بھیجتی تو بھی حریت والے ملنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی چابی دلی کے ہاتھ میں ہے کسی کشمیری لیڈر یا حاکم کے ہاتھ میں نہیں۔
وفد میں شامل جو لوگ حریت والوں سے ملنے گیے کیا انھیں معلوم نہیں تھا کہ آج کے حالات نجی ملاقاتوں کی اجازت فراہم نہیں کررہے ہیں جیسا کہ 2010ء میں انھوں نے کیا تھا۔اگر ملاقات نجی نہیں بلکہ مذاکرات کے لئے تھی تو کیا مذاکرات پولیس کے پہرے یا جیلوں میں کبھی ہو ئے ہیں ؟پھر مذاکرات کس پر کرنے تھے ،مسئلہ کشمیر یا پرتشدد ایجی ٹیشن کوختم کرنے کے لئے ؟مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کا دلی کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔ رہی بات پر تشدد حالات کو پرامن حالات میں بدلنے کی تو ،حریت کو دلی والوں کے تمام تر حرکات ،سکنات اور دھمکی آمیز بیانات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پر امن حالات میں دلی کسی بھی حریت لیڈر کو گھاس ڈالنے کاروادار نہیں تو پھر وہ’’ غدار اور ایجنٹ‘‘ہو کر بھی ہمدردی کا کام کیوں کرے ؟جہاں تک بعض ’’باتونی ‘‘حضرات کے اس شکوے کا تعلق ہے کہ گیلانی صاحب کو دروازہ بند کر کے بے رُخی نہیں برتنی چاہیے تھی جو کشمیری روایات کے خلاف ہے ،تو پوچھا جا سکتا ہے کہ جس ’’طاقتور اسٹیک ہولڈر‘‘کے دروازے پر کل جماعتی وفد کی جمہوری،سیکولراور اہنسائی فوج نے اسی(80) کے قریب لاشیں چھ سو(600) سے زیادہ نابینا اوردس ہزار زخمی چھوڑے ہوں، اس سے ’’نرمی ‘‘کی اُمید کیوں؟ کہیں ایسا کرکے غمزدہ خاندانوں کو غلط پیغام نہیں جاتا ۔آج کی متحدہ حریت کے لیڈروں نے ایک ہی بات کہی کہ بتاؤ اب تک کے مذاکرات اور وعدوں کا کیا ہوا؟کیا کل جماعتی وفد کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟
نئی دہلی کی ناعاقبت اندیشی اور تکبرانہ روش اس کو اپنے ہاتھوں کھودی ہوئی گہری کھائی میں گرانے والی ہے ۔میں نے مارچ2011ء میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان ’’زندہ گیلانی دلی کے لئے بہت اہم‘‘لکھا تھا ۔اس کے چند اقتباسات ملاحظہ فرماکر دیکھ لیجئے کہ کیا دلی درست سمت میں جارہی ہے یا اپنے ہاتھوں’’ کھودی بداعتمادی کی قبر‘‘میں گرنے والی ہے ۔ ’’وقت رکنی والی چیز نہیں ہے یہ عالم مکان و مقام اپنی فنا کی جانب بہت تیزی کے ساتھ دوڑتی جارہی ہے اس کو روکنے یا تھامنے کی قوت کسی میں نہیں اس لئے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے اس نے اس کی زندگی کی ایک گھڑی مقرر کر رکھی ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح ہر انسان پیدا ہونے کے بعدایک ایک گھڑی گزرنے کے ساتھ ساتھ موت کے بہت قریب جاتا ہے ۔سید علی شاہ گیلانی اپنی طبعی اور فطری عمر کی اس دہلیز پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے عموماََانسان خدائے لم یزل سے ملنے کا مشتاق رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے آخری طویل آپریشن سے قبل محترم گیلانی صاحب نے قوم کے نوجوانوں سے لیکر سید صلاح الدین احمد تک سبھی تحریک آزادی سے جڑے افرادکو انتہائی جذباتی اور درد بھرے انداز میں وصیت کی تھی کہ آپ لوگ تحریک آزادی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے آخری دم تک کوشاں رہنا ۔ہم جانتے ہیں کہ اس امت کی عمر بہت ہی مختصر ہوتی ہے، الا یہ کہ اﷲ تعالیٰ کسی کو اپنے فضل سے نوازے ۔سید علی شاہ گیلانی صاحب نہ صرف پیرانہ سالی کے دور سے گزر رہے ہیں بلکہ انھیں کئی مہلک امراض نے کئی مرتبہ بڑی بے رحمی سے نشانا بنا کر ان کے چاہنے والوں کو انتہائی درد و کرب میں مبتلا کردیا ہے‘‘ ۔
سید علی گیلانی کشمیر کی سرزمین میں ایک ایسے شخص کے طور پر ابھر چکے ہیں جن کے خیالات ،جہدمسلسل،دین سے والہانہ اور سرفروشانہ تعلق،تحریک آزادی کشمیر اور اس کو اسلامی طریقہ کار سے منطقی انجام تک پہنچانے کی بے پناہ خواہش اور کوشش،عالم اسلام کے قائدانہ رول سے فرار اختیار کرنے پر ہر دم اظہار کرب،فلسطین ،افغانستان ،چیچنیا ،عراق اور پاکستان کی مظلوم قوم سے لگاؤ اور ان کی اسلامی نقط نگاہ سے اپنی حد تک ممکنہ حمایت ،مسئلہ کشمیر اور اس کے نشیب وفراز کے شاہدحقیقی ،مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس تک کے سفر کے گواہ،جماعت اسلامی میں شمولیت ،مسلم متحدہ محاذکا قیام،عسکریت کی حمایت،متحدہ حریت کانفرنس میں ممبر سے لیکر چیرمین تک کا رول،جماعت اسلامی سے ناراضگی کے بعد تحریک حریت کا قیام ، درجنوں کتابیں، ہزاروں تقریریں اور بھارت کی بے پناہ قوت کی پرواہ کیے بغیر اپنے موقف پر ثابت قدم رہنے والے کو مستقبل کا مورخ کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کر سکتا ہے ۔
سید علی گیلانی کو جو مقام آج حاصل ہے ، پہلے کسی بھی کشمیری لیڈر کو حاصل نہیں تھا اس جملے سے بہت سوں کو اختلاف ہو سکتا ہے اور اس کی کئی وجوہ سے گنجائش بھی موجود ہے مگر جن کو کشمیر کا غیر متنازع لیڈر خیال کیا جاتا ہے تب کے کشمیر میں بھارت کی آٹھ لاکھ فوجیں نہیں تھیں اور نہ ہی بھارت کے لیڈروں میں بے وفائی کا عنصر اس قدر غالب آچکا تھا،نہ ہی کشمیر میں لکھے پڑھے لوگ اتنے زیادہ تھے ،نہ ہی اتنی زیادہ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں موجود تھیں ،نہ ہی فکری اختلافات کا اس قدر ہجوم تھا،نہ ہی معیشت اور میڈیا نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ ہی مسلم سماج میں منافقت کا اتنا رنگ غالب آ چکا تھااور نہ ہی کوئی حزب المجاہدین ،لشکر طیبہ ،جیش محمدﷺاور کوئی جہاد کونسل تھی ۔ان کی غیر متنازع حیثیت کا جو شور مچایا جاتا ہے، اس میں اسی جیسے بہت سارے عوامل شامل تھے۔ لہذا جہاں ان کی غیر متنازع حیثیت کو ایک خوبی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، دراصل ان ساری چیزوں کی عدم موجودگی نے ہی انھیں مقبول لیڈر کے طور پر اُبھارا اور میرے نزدیک اسمیں جہاں شخصی راج سے یہاں پیدا ہوئی شدید نفرت کا عنصرشامل تھا وہی اُس غیر متنازع لیڈر کا مذہبی کے بجائے سیکولر لیڈر ہونے نے بھی انھیں خاصی شہرت عطا کی تھی اور اسی کے نتیجے میں وہ جہاں کشمیریوں کے لئے قابل قبول تھے وہی لداخ کے بُدھوں اور جموں کے ہندؤں کے لئے بھی۔۔۔۔اور اگر شیخ صاحب اپنی پہلی نہج پر قائم رہتے تو شاید انھیں بھی وہ ’’غیر متنازع‘‘حیثیت اور مقام نہ ملتا جس کو لیکر آج کئی قلمکار اسے ان کی ایک خوبی کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
دہلی سرکارخوب جانتی ہے کہ کشمیر میں ’’مسئلہ کشمیر ‘‘کی وجہ سے بے یقینی کبھی بھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی مسئلے کے حل ہو نے تک اس کے خاتمے کے امکانات موجود ہیں۔ اس مسئلے کی بنیاد دلی نے مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں خود ڈالی ہے پھر کشمیر کے اہم لیڈر مرحوم شیخ محمد عبداﷲ کے ذریعے اس کے من پسند حل کی بڑی کوششیں کیں۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے لیکر شیر کشمیر اور بابائے قوم کے خطابات سے نوازنے کے بعد معاہدوں پر معاہدوں نے بھی اس مسئلے کو حل نہیں کیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وفات سے پہلے مرحوم شیخ صاحب نے اپنے کئی ہم جولیوں کے سامنے کہا کہ یہ(یعنی دلی والے)بھروسے کے قابل نہیں ہیں۔غالباََ شیخ صاحب کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اس لئے کہ کبھی قربت سے بہت ساری نئی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ شیخ صاحب کے بعد نیشنل کانفرنس کی باگ ڈور ڈاکٹر فاروق عبداﷲ نے سنبھالی۔ ان کا1990ء تک کا عرصہ غفلت میں ہی گزرا۔ یہاں تک کہ پانی سر سے اوپر گزرا۔ راجیو فاروق اتحاد نے رہی سہی کسر نکال کر رکھ دی ،مسلم متحدہ محاذ کو ہرانا ان کا ایجنڈا قرار پایا جسکی کوکھ سے ایسی وحشت ناک بندوق برآمد ہوئی کہ تصور سے بھی بڑھکر ۔فاروق صاحب لندن تشریف لے گئے اور قوم دو بندوقوں کے رحم وکرم پر ایک لاکھ نوجوان دیکر بھی مصیبت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائی۔ اس وقت نیشنل اور کانگریس نے بندوق کو اپنی غفلت اور غلطیوں کا ردعمل قرار دینے کے بجائے اسے پاکستان ،جماعت اسلامی ،پیپلزلیگ اور لبریشن فرنٹ کی سازش قرار دیکر اسے جان چھڑانے میں کامیابی حاصل کی مگر بہت ہی کم وقت کے بعد1996ء میں نیشنل کانفرنس دوبارہ میدان جنگ میں واپس کود پڑی ۔اس دوران ’’پکڑو اور مارو‘‘کے خونیں آپریشنز ،اخوان اور ایس ٹی ایف کو مکمل چھوٹ دینے کے باوجود بھی نہ ہی جماعت اسلامی ختم ہوئی اور نہ ہی لیگ اور فرنٹ!!!بلکہ یکایک 2008 میں قوم اس طرح اُٹھ کھڑی ہوئی کہ بھارت کی آٹھ لاکھ فوجیں اور ان کی تماتر ذہانت بے کار ثابت ہوئی اور پھر 2009اور 2010 میں تو ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی جب کشمیریوں نے ان کے پارلیمنٹ میں دہشت گرد قرار پائی بندوق کو چھوڑ کر گاندھی گھاٹ پر موجود ’’اہنسا اورعدم تشدد‘‘کی گاندھی جی کی ’’کتاب‘‘سے پر امن طرز کی تحریک شروع کرنے کے لئے ان ہی کے منشاء کے مطابق ایک باب منتخب کر لیا ۔یہ الگ بات ہے کہ اب وہ دلی کو راس نہیں آرہا ہے، اس لئے کہ بندوق بردار کے مقابلے میں سنگباز یا نعرہ باز کو مارنے میں اسے دشواری محسوس ہو رہی ہے ۔
دلی والے یہ بھی مانتے ہیں کہ مشرف اپنے دور اقتدار میں جتنی رعایتیں دلی کو دے رہا تھا اتنی اب کوئی اور نہیں دے سکتا۔مگر طاقت کے نشے میں چور دلی والوں نے اسے مشرف کی بزدلی اور پاکستان کی کشمیر مسئلے سے جان چھڑانے اور تنگ آنے کی پالیسی پر محمول کیا اور یہی کچھ کشمیر میں بندوق کے در آتے وقت انھوں نے خیال کیا کہ بندوق کشمیر میں وقت گزرنے کے ساتھ ہی ساتھ ختم ہوگی ۔اور ہم نے دیکھا کہ نہ ہی بندوق ختم ہوئی اور نہ ہی بندوق بردار غائب ہو ئے چونکہ گمان پالنے سے کسی کو روکا بھی نہیں جا سکتا ہے لہذا دلی جیسی علاقے کی طاقتور حکومت کو بھی اس حماقت سے روکانہیں جا سکتا ہے۔ بھارت کشمیریوں کو ایک کمزور ، متفرق اور منتشر قوم سمجھ کر ان کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کی پالیسی پر کار بند ہے حالانکہ خودبھارت کے لئے نہ صرف مسئلہ کشمیر ناسور ہے بلکہ غربت و افلاس کے دیس کی بجٹ پر ایک غیر ضروری بوجھ بھی ہے جس سے برداشت کرتے ہوئے بھارت کے ہاتھ بد نامی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا ہے ۔
دہلی کے بقول مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ قیادت کا فقدان ہے۔ یہ اگر چہ ہمالیہ سے بھی بڑا جھوٹ ہے مگر وقتی طور پر اسے اس لئے قبول کرنے کی گنجائش ہے کہ کشمیر میں نظریوں کا تصادم ہے اور ہر فریق اپنے برحق ہونے پر بضد ہے ۔جہاں دلی کا یہ عذرکافی باوزن معلوم ہوتاہے وہی دلی والے اس عذر کو پیش کرنے میں بد نیت بھی ہیں حالانکہ کافی عرصہ بعد سیدعلی گیلانی کی شکل میں انھیں کشمیر میں ایک ایسا لیڈر دستیاب ہواہے جس کے ساتھ اس مسئلے کو حل کر کے دہلی بہت کچھ حاصل بھی کر سکتاہے اس لئے کہ آج جو حیثیت اور مرتبہ گیلانی صاحب کو کشمیر میں حاصل ہے وہ کل کسی اور کو حا صل ہو جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بھارتی سرکارنے بندوق کی جنگ کے بعد پرامن اور جمہوری طرز پر انقلابی تحریک کو بھی قبول نہیں کیا توآنے والا وقت نہ صرف بھارت کے لئے بلکہ کشمیریوں کے لئے بھی بہت ہی خطرناک ثابت ہوگا۔ اس لیے کہ کشمیر میں عام مایوسی کے بعد نوجوان 1987ء کی طرح ہی مایوس نظر آرہے ہیں اور دلی والے یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ 2016ء ہے1987ء نہیں ۔پھر علاقائی سطح پر کچھ ایسی تبدیلیاں ہونے والی ہیں جن میں بھارت اپنی ہاتھوں کھودی گہری کھائی میں گر کر پھنستا ہوا نظر آتا ہے ۔جس روز امریکی فوج افغانستان کو چھوڑ کر چلی جائے گی دو مملکتیں بہت ہی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہوں گی نمبر ایک مسلم پاکستان کی سیکولر حکومت اور فوج ۔نمبر دو سیکولر بھارت کے ہندتوا کے ایجنڈے پر خفیہ طور پر کاربند سیکولر حکومت ،اس لئے کہ ان دونوں نے القاعدہ اور طالبان سے اتنی دشمنی مول لی کہ القاعدہ اور طالبان کی لغت میں ایسی دشمنی پر معافی کا کوئی تصور ہی موجودنہیں ہے ۔اس دشمنی کا کڑوا پھل اگرچہ آج کل حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام اور فوج چاروناچار کھاتی جا رہی ہے اور فی الوقت اتنا کچھ کرنے کے باوجود طالبان اور القاعدہ کے دلوں میں پاکستان کے ہاتھوں لگے زخموں کادرد ختم نہیں ہو رہا ہے۔ نہ صرف حالات پتا دے رہے ہیں بلکہ بھارت کاافغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے پر بار بار اظہار تشویش سے بھی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے بعد ان دونوں کے نشانے پر ’’شاید‘‘بھارت ہو گا اور یہ کام طالبان اور القاعدہ کے لئے بہت آسان ہے۔ اس لئے کہ جموں و کشمیر میں پہلے سے بھارتی حکومت کے ساتھ بر سر پیکار عسکری تنظیمیں خود بھی اپنی بقاء کی جنگ سے دوچار ہیں اور ’’شاید‘‘یہ کام ان کے لئے سونے پر سہاگا ثابت ہو ۔
بھارت جیسی’’مدبر‘‘ریاست کے لئے یہ احمقانہ ہی نہیں بلکہ خودکشی کے مترادف اقدم ہوگا کہ وہ حریت کانفرنس کو چھوڑ کر جہاد کونسل ،القاعدہ یاطالبان جیسی تنظیموں کے ساتھ کل پھنس کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ مذاکرات کے لئے سامنے آئے۔ اس لئے کہ ’’دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کی بے چارگی اور بے بسی ‘‘آج اس کے سامنے ہے کہ افغانستان سے نکلنا بھی مصیبت اور ٹھہرنا بھی مصیبت ۔۔۔پھر بھارت امریکا بھی نہیں ہے جس کی سرحدیں القاعدہ اور طالبان کے لئے کافی دور ہوں۔ اس سے بھی بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ بھارتی سرحدوں کے اندر ایک کشمیر میں ہی شورش نہیں بلکہ یہ شورش کئی ریاستوں میں ہے جو ایک بہانے کی منتظر ہیں اور خود بھارتی سرکاراس بات کا کئی مرتبہ اعتراف کر چکی ہے کہ کشمیر ہی نہیں شمالی ریاستیں بھی ان کے لئے سنگین مسائل ہیں۔ کیا ایسے ملک کو اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے اس گھڑی کاانتظار کرنا چاہئے جس کی سوئیاں اس کی مرضی سے چلنے کے بجائے اس کے دشمنوں کی مرضی کے مطابق چلنے والی ہوں ۔
بھارت ابھی سے ایک اورسنگین خطرے سے دوچار ہوتا جارہا ہے اور وہ ہے’’عالم ارضی کی بہت ہی خطرناک اور خاموش قوت ‘‘کے ساتھ دشمنی مول لینی کی غلطی ،میرا مطلب ہے چین !!!جو بھارت کی سرحدوں میں بے خوفی کے ساتھ گھس کر اسکی زمینیں تک ہڑپ کرتا جا رہا ہے مگر بھارت احتجاج کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتا ہے۔ احتجاج بھی ویسا نہیں جیسا کہ پاکستان کے خلاف کیا جاتا ہے ۔بھارت کے لئے چین ،پاکستان اورافغانستان کے علاوہ اس خطے میں جو اندرونی دشمن موجود ہیں سبھی ایک نقطے پر متفق دکھائی دیتے ہیں اور وہ ہے بھارت کو کمزور کرنے کی کوشش اور خواہش ۔۔۔۔مسئلہ کشمیر واحد وہ مسئلہ ہے جو بھارت کے لئے نہ صرف اندرون ملک خطرہ بنا ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ اکثر بھارت کی ناک کٹنے کا باعث بنا ہوا ہے ۔یہ بلاشبہ بھارت کی کمزوری ہے جس کو حل کرنے کا اس کے پاس سے آج سے بہتر وقت کوئی اور نہیں اس کا حل بھارت کی سلامتی کے ساتھ ساتھ اسکی معیشت کے لئے بھی بہتر ہے اور سید گیلانی کی شکل میں ایک لیڈر بھی دستیاب ہے جو اس کے ساتھ جڑے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ قوم ان کے فیصلے سے مطمئن بھی ہو سکتی ہے جبکہ کل ’’لیڈروں کی فوج‘‘کی بڑھتی صورتحال نہ صرف کشمیریوں کے لئے بلکہ خود بھارت کے لئے بھی کافی پریشان کن ہوگی ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...
جموں و کشمیر میں نواز شریف کی تقریر کو خوب سراہا گیا اور اسے موجودہ حالات کے مطابق بہت ہی حوصلہ افزا قرار دیا جارہا ہے۔ عام کشمیریوں کا ما ننا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کے جذبات و احساسات کو پوری ایمانداری کے ساتھ پیش کیا گیا اور جس طریقے سے میاں نواز شریف نے ریاست جموں کشمیر کے عوام ...
مقبوضہ کشمیر میں اتوار کو مسلسل44ویں روز بھی ہڑتال ، دن ورات کرفیو اور بندشوں کا سلسلہ سختی کے ساتھ جاری رہنے کے باعث معمول کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔جبکہ شمال وجنوب میں فورسز کے ہاتھوں شبانہ چھاپوں، توڑ پھوڑ ، مارپیٹ اور گرفتاریوں کے بیچ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جار ی ر...
آل پارٹیز حریت کا نفر نس (گیلانی)نے حکومتِ ہند کے آبادکار پنڈتوں کے لیے کمپوزٹ ٹاؤن شپ قائم کرنے کے منصوبے پر بضد رہنے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کشمیریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے اور پنڈتوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی او...
بزرگ رہنما اوتحریکِ حریت جموں و کشمیر کے سربراہ سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ ’’تحریکِ حریت جموں و کشمیر‘‘ اگرچہ ریاست کے طول وعرض میں پھیلی ایک مضبوط اور فعال تنظیم ہے تاہم اس کو مز ید وسعت دینا اور زیادہ فعال بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جس کی طرف فوری توجہ کرنا ناگزیر ہے۔ معر...
بزرگ کشمیری رہنماسید علی گیلانی کو نئی دہلی کے میکس اسپتال میں جمعہ 10مارچ کو تشویشناک حالت میں داخل کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز دن کے دو بجے وہاں سے فارغ کئے گئے ہیں اوران کی حالت اب تسلی بخش ہے۔حریت ترجمان ایاز اکبر نے وجود ڈاٹ کا م سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سید علی گیلانی کو جمعہ...
سکھوں کی تنظیم دل خالصہ نے مرحوم محمد مقبول بٹ کو 32ویں برسی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم نے اپنی قوم کے لوگوں کی آزادی کیلئے اپنی جان کی قربانی دی۔تنظیم کے لیڈرکنور پال سنگھ نے مرحوم محمد مقبول بٹ کی والدہ کو ’’باہمت خاتون‘‘ کے خطاب سے نوازتے ہوئے کہا کہ م...
قائد حریت سید علی گیلانی نے پاکستانی پارلیمنٹری پینل کی اس سفارش کہ ’’پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم سرفروشوں کی حوصلہ افزائی بند کرے اور ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائے‘‘ کو غیر منصفانہ اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف گروپوں کا د...
آل پارٹیز حریت کا نفرنس کے چیر مین سید علی گیلانی نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کشمیری خاندانوں کو درپیش گونا گوں مسائل حل کرنے اور ان کی بازآبادکاری کی طرف خاص توجہ مبذول کریں، جو بھارتی افواج کے مظالم سے تنگ آکر مقبوضہ خطے سے آزاد علاقے کی طرف ...
بھارت ایک روز بعد 26جنوری کو یوم جمہوریہ کے طور پر منا نے جارہا ہے تاہم کشمیری عوام ہر سال کی طرح اس روز کو کو یوم سیا ہ کے طور پر منا نے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔بزرگ رہنماقائد حریت سید علی گیلانی نے 26جنوری کو کشمیریوں کے لئے یومِ سیاہ قرار دیتے ہوئے اس دن مکمل ہڑتال اور سرکاری...
حریت کا نفرنس کے چیئر مین سید علی گیلانی نئے سال کے پہلے دن بھی اپنے گھر حیدر پورہ میں نظر بندرکھے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ نئے سال کے آغاز کا پہلا دن جمعتہ المبارک سے شروع ہوا اور وہ نماز جمعہ کی ادائی سے بھی محروم رہے۔ سید علی گیلانی کے ساتھ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ۔ گزشتہ سال 20...
پاکستان کی کشمیر پالیسی ویسے تو من حیث المجموع تضادات کا مجموعہ رہی ہے ۔لیکن 1999ء سے ،اس نے ایک نئی شکل اختیار کی ،جسے کشمیر کش پالیسی کا نام دینا زیادہ بہتر محسوس ہورہا ہے۔ٹریک سے چڑھتی اُترتی اس پالیسی کا نقصان سب سے زیادہ ان مجاہدین کو ہوا جنہوں نے چند ہی سالوں میں دہلی کی چو...