... loading ...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو صوبے کی دوسری بڑی پارلیمانی طاقت گزشتہ8سال سے اقتدارسے باہر نہ ہوتی اور سندھ حکومت میں شہری علاقوں کی بھرپور نمائندگی ہوتی‘ پیپلزپارٹی گزشتہ8سال سندھ میں برسراقتدار ہے لیکن اس نے ایم کیوایم کو پاور میں شریک نہیں کیا ہے۔ حتیٰ کہ بلدیاتی قیادت کو بھی اختیارات سے محروم رکھا ہے۔ پہلے تو8ماہ تک میئر اور چیئرمین کے انتخابات کو التوا میں رکھا گیا اب جبکہ کراچی‘ حیدرآباد اور میرپورخاص میں ایم کیوایم کے میئر منتخب ہوچکے ہیں تو کراچی کے میئر وسیم اختر کو مسلسل جیل میں رکھا جارہا ہے۔
وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ میئر کراچی قیدی بن کررہیں گے۔ کسی کے منصب کو دیکھ کر جیل مینول تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہر قیدی کو جیل قانون کے مطابق ہی سہولت دی جاتی ہے اور کسی کو اس کے عہدے کی وجہ سے خصوصی سہولت نہیں دی جائے گی‘‘۔ میئر وسیم اختر اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے اپنے ’’باغیانہ‘‘ خیالات کے باعث عتاب کا شکار ہیں۔ ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم ہیں۔ ایم کیوایم کے ایک وکیل محفوظ یار خان ایڈووکیٹ نے ایک دن کی ریکارڈ مدت میں23 مقدمات میں وسیم اختر کی ضمانت کرائی تھی جو اب تک پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔
ایم کیوایم کے نئے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اس صورتحال سے خوفزدہ یا مایوس نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایم کیوایم کو الطاف حسین کے بغیر بھی چلاکردکھائیں گے۔ انہوں نے ایم کیوایم کا آئین اور جھنڈا تبدیل کردیا ہے۔ متحدہ کے پرچم سے قائد تحریک کی تصویر ہٹادی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے فیصلے اب ملک کے اندر ہوں گے۔ لندن سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ پارٹی کے بانی الطاف حسین سے کوئی ہدایت نہیں لیں گے۔ متحدہ قائدکا ویٹو پاور بھی ختم کردیا گیا ہے۔
ایم کیوایم کا قیام مارچ 1984ء میں عمل میں آیا تھا جس نے جلد ہی سندھ کے شہری علاقوں میں برسوں سے پائے جانے والے احساس محرومی کو زبان دی اور ملکی سیاست میں ایک طاقتور فریق کے طور پر شامل ہوگئی۔ شہری نوجوانوں کی محرومیوں کا ایک عنصر کوٹہ سسٹم بھی تھا جس کا تذکرہ گزشتہ دنوں ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بھی کیا ہے اور اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اس کے خاتمہ کی بات کی ہے۔ ایم کیوایم کی سب سے بڑی طاقت شہری علاقوں کے نوجوان تھے‘ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ملازمتوں کے بند دروازوں نے سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں میں نفرت‘ جھنجھلاہٹ اور ایک نہ رکنے والی بے چینی کو جنم دیا۔ کوٹہ سسٹم کا یہ عجیب وغریب قانون صرف سندھ میں نافذ ہے اور اس کے نتیجے میں سندھ انتظامی لحاظ سے ایک صوبہ ہونے کے باوجود‘ اندر ہی اندر‘ ملازمتوں کے مواقع‘ ترقیاتی فنڈز اور تعلیمی سہولتوں خصوصاً داخلوں کے مرحلوں پر دو حصوں میں از خود تقسیم ہوجاتا ہے۔
سندھ میں کوٹہ سسٹم کا یہ قانون آئینی طور پر1972ء کے لسانی فسادات کے بعد نافذ کیاگیا تھا اوراسے 1973ء کے آئین کی دفعہ27کے تحت قومی اسمبلی نے دس سال کا تحفظ دیا۔ وفاقی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے آفس میں ریفرنڈم کے ذریعے صوبائی اورعلاقائی بنیادوں پر ملازمتوں کے ایک کوٹہ کی تقسیم کی اوراس کے تحت سندھ کے دیہی علاقوں کو وفاق سے ملازمتوں سے ملنے والے کوٹہ یعنی19فیصد میں سے ساٹھ فیصد دلانا تھا اور باقی 40فیصد سندھ کے شہری علاقوں جن میں کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر شامل ہیں ان میں تقسیم کرنا تھا۔ اسی طرح سندھ کے تین بڑے شہروں کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر کو نکال کر صوبائی ملازمتوں کا بھی ساٹھ فیصد کوٹہ دیہی سندھ کو دے دیا گیا۔سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کوٹہ سسٹم کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا کیونکہ سندھ کے شہری علاقوں کی قیادت کو یہ خوف تھا کہ چونکہ کوٹہ سسٹم کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر نہیں کی گئی بلکہ اپنے سیاسی مفادکی بنیاد پر کی گئی ہے اس لئے پیپلزپارٹی کی قیادت سے خیر کی امید رکھنا بے کار ہے۔
پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں مردم شماری میں بے قاعدگیوں کے صرف زبانی دعوے ہی تھے لیکن جب جولائی 1977ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو سندھ کے ایک سابق ہوم سیکریٹری محمدخان جونیجو نے مارشل لاء حکام کے روبرووعدہ معاف گواہ کی حیثیت سے اعتراف کیا کہ 1972ء کی مردم شماری میں انہوں نے اوپر والوں کی ہدایت پر صرف کراچی کی آبادی کو تیس لاکھ کردیا تھا۔ محمد خان جونیجو نے یہ تو نہیں بتایا کہ جب انہوں نے کراچی کی آبادی کو تیس لاکھ ظاہر کیا تو اس وقت کراچی کی حقیقی آبادی کیا تھی؟ عام خیال یہ ہے کہ اس وقت کم از کم دس سے لے کر پندرہ لاکھ آبادی کی ڈنڈی ماری گئی تھی۔ اس طرح سندھ کے تین بڑے شہری علاقوں میں سے ایک یعنی کراچی کے پچیس فیصد سیاسی‘ شہری اورتعلیمی حقوق غصب کرلئے گئے۔1977کی تحریک نظام مصطفیٰؐ کے دوران بھی سندھ کے شہری علاقوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی طوفانی تحریک کا ایک مطالبہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا کیونکہ سندھ شہری علاقوں کے نوجوان کوٹہ سسٹم کے قانون کو اپنی ترقی اور فطری آزادی کے خلاف سمجھتے تھے۔
سندھ اسمبلی کے سابق قائدحزب اختلاف مرحوم شاہ فریدالحق نے گواہی دی تھی کہ مہاجر ‘پنجابی‘پٹھان اتحاد کے صدر نواب مظفر حسین (مرحوم) کی جانب سے سندھ اسمبلی میں پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب میں کہ 1973کے بعد سندھ میں جو ملازمتیں دی گئیں ان میں نئے اور پرانے سندھیوں کاتناسب کیا ہے؟ اس کے جواب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام مصطفےٰ جتوئی نے کہا تھا کہ سندھ میں کل 36ہزار نئی ملازمتیں دی گئیں۔ ان میں پرانے سندھیوں کی تعداد34ہزار پانچ سو اور نئے سندھیوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار ہے جبکہ 73ء کے آئین کے تحت جو اصول واضح کیاگیا تھا‘اس کے مطابق سندھ کے شہری علاقوں کا کوٹہ چالیس فیصد کے حساب سے چودہ ہزار چار سو ملازمتیں بنتا تھا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر کو چالیس فیصد حصہ ملنے کی بجائے صرف چار سوا چار فیصد حصہ ملا اور اب بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے اس قسم کی مسلسل بے انصافیوں نے سندھ کے شہری علاقوں سے نوجوانوں میں احتجاجی سوچ کو بھردیا۔ 1970 سے لیکر 1975 تک مہاجر پنجابی پختون اتحاد کے پرچم تلے کام کرنے والے نوجوانوں نے شکوہ کیا کہ ہم نے سندھ میں ان سے سیاسی اتحاد کیا لیکن ہمیں ہمارے آئینی حقوق دلانے کیلئے ان علاقے کے لیڈروں نے سیاسی طورپر سپورٹ نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوان اپنے مطالبات کے ساتھ ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ملکی سیاست میں بھٹکنے لگے اور انہیں کوئی یہ تک بتانے والا نہ تھا کہ ان کے ساتھ جو آئینی ناانصافیاں ہورہی ہیں اس کے خلاف وہ کس طرح جدوجہد کریں اور اپنے حقوق حاصل کرسکیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے اس سلسلے میں سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کی کوئی رہنمائی نہیں کی جن کو وہ ہمیشہ ووٹ دیتے آئے تھے۔
سندھ کے شہری علاقوں کا ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں یہ خیال تھا کہ اگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کے ساتھ ملازمتوں‘ تعلیم داخلے اور ترقیاتی فنڈز میں جو ناانصافیاں کی گئی ہیں اس کا ازالہ بھٹو کے بعد آنے والی حکومت کرے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔جب 1978 میں پاکستان قومی اتحاد‘ مارشل لاء کی کابینہ میں شمولیت پر آمادہ ہوا تو سندھ کے شہری علاقے ایک بار پھر مسرور ہوئے کہ ہمارے علاقوں سے کابینہ میں جانے والے سب سیاستدان پروفیسر غفور احمد‘ محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر خورشید احمد ماضی کی ناانصافیوں کے ازالے کیلئے کابینہ کے اجلاسوں میں آواز اٹھائیں گے۔ لیکن ضیاء الحق کی وزارت میں شمولیت کے چند ماہ بعد‘ وفاقی وزیر پیداوار کی حیثیت سے پروفیسر غفور احمد نے نظریہ ضرورت کے تحت کوٹہ سسٹم کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ اس سے قبل سندھ کے شہری علاقوں میں اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتیں کوٹہ سسٹم کو زبانی طورپر غیر اسلامی قرار دیتی تھیں۔ ان میں سے بہت سی جماعتیں آج بھی کوٹہ سسٹم کو زبانی طورپر غیر اسلامی قرار دیتی ہیں لیکن اس سے اگے ان کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی جانب سے سندھ کے شہری علاقوں کے آئینی مسائل سے بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر سمیت سندھ کے بڑے شہروں میں آباد نئے سندھی مایوس ہوگئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کریں۔
دوسری طرف مارشل لاء کے تسلسل کے باعث وہ کوئی اجتماعی سیاسی فکر کی تشکیل نہ کرسکے اس دوران 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوگئی اور ملک کی سیاسی تاریخ کے برخلاف سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجرین نے ایم آر ڈی کی تحریک کا نہ ساتھ دیا اور نہ مخالفت کی بلکہ صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ ایم آر ڈی کی تحریک اندرون سندھ پرجوش طریقے سے چلی نتیجتاً صدر ضیاء الحق نے اہل سندھ کے باشندوں کی دلجوئی کیلئے مختلف ظاہری مراعات دینے کا اعلان کیا۔ صدر ضیاء الحق نے 11 مارچ 1984 کو حیدر آباد میں سندھ یونیورسٹی کے سندھیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کوٹہ سسٹم میں مزید دس سال کیلئے توسیع کررہے ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے اس اعلان پر سندھ میں کوٹہ سسٹم کے فریقین کو یاد آیا کہ کوٹہ سسٹم کی میعاد نو ماہ قبل یعنی جولائی 1983 میں ختم ہوچکی ہے بعدازاں صدر ضیاء الحق نے کراچی میں منعقدہ سندھی ادبی میلہ میں بتایا کہ وفاقی کابینہ نے کوٹہ سسٹم میں مزید دس سال کیلئے توسیع کردی ہے۔کوٹہ سسٹم کے مسلسل نفاذ اور اس کی تقسیم میں ناانصافیوں نے مہاجروں کو قومی سیاست سے دور کردیا اور وہ بھی سندھیوں کی طرح قوم پرستی کے محدود جزیرے میں قید ہوکر سوچنے لگے۔ ان میں اپنے ختم ہوتے ہوئے تشخص کو بچانے کا خیال آیا اور مہاجر قومیت کے نعرے نے آہستہ آہستہ سر اٹھانا شروع کردیا‘ اس دوران فروری 1985 کے عام انتخابات کا مرحلہ آگیا جس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی صوبائی حکومت اور صوبائی انتظامیہ میں مہاجروں کے ساتھ ایک بار پھر زیادتی کی گئی جبکہ 1972 کے لسانی ہنگامے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں سندھیوں اور مہاجروں کے رہنماؤں نے ایک معاہدہ کیا تھا کہ سندھ کا گورنر مہاجر اور وزیراعلیٰ سندھی ہوگا۔ سندھ کے سیکریٹری مساوی ہوں گے‘ کابینہ میں دونوں فریقوں کی نمائندگی مساوی ہوگی۔ اور فنی تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم ختم کردیا جائے گا۔
اس کے برخلاف فروری 1985 کے عام انتخابات کے بعد‘ سندھ کے شہری علاقوں نے محسوس کیا کہ سندھ کی سیاست اور حکومت میں مہاجروں کا کوئی کردار نہیں ہے‘ گورنر ان کے لیڈروں سے ہونے والے معاہدے کے مطابق نہیں سینئر وزیر ان کا نہیں ہے سندھ کی کابینہ میں بے اختیار محکمے‘ شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے وزراء کو دیئے گئے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو وہ سیاسی تمکنت حاصل نہیں ہے جوکہ دیہی علاقوں کے اراکین اسمبلی کے طرز عمل سے ٹپکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سندھ کے تینوں بڑے شہروں کے باشندوں اور خصوصاً نوجوانوں نے یہ محسوس کیا کہ فروری 1985 میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کیلئے اسمبلی میں جدوجہد کروں گا کو اپنا انتخابی منشور بنانے کا اعلان کرنے والوں کو اس بات کی بھی اسمبلی میں اجازت نہیں تھی کہ وہ اس حساس اور انصاف دشمن نظام کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔ یہ حالت نوجوانوں کے اضطراب میں اضافہ کا باعث بنی اور وہ ایک ایسی قیادت کو تلاش کرنے لگے جو ان کے دکھوں کی بات کرسکے۔ یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے مہاجر قومی موومنٹ کو آناً فاناً ایک طاقتور جماعت کی شکل دیدی لیکن مہاجر قومی موومنٹ نے کوٹہ سسٹم کے مسئلہ کو دوسرے انداز میں حل کرنے کا فارمولا پیش کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ کوٹہ سسٹم پر ایمانداری سے عمل کرایا جائے۔ ہمارا آبادی کے لحاظ سے جو حصہ بنتا ہے وہ ہمیں دیا جائے مہاجر قومی موومنٹ نے سندھ کے شہری علاقوں میں سیاست کو الٹ دینے والے اس نئے فارمولے کی منظوری 8 اگست 1986 ء کے نشتر پارک کے جلسہ عام میں ہزاروں افراد کے اجتماع سے لی۔ الطاف حسین نے نشتر پارک کے جلسہ عام میں اعلان کیا کہ ہم کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف اپنا طے شدہ حصہ چاہتے ہیں یہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک نئی اور منفرد آواز تھی۔ لیکن چونکہ اس آواز کی پشت پر نشتر پارک کے جلسہ عام کی منظوری بھی شامل تھی۔ اس لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے مطالبے نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔دراصل 1973 ء کے آئین کی تشکیل کے بعد سندھ کو دیہی اور شہری‘ دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ تاکہ سر زمین سندھ کے حقیقی باشندے ’’فرزند زمین‘‘ کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ اور دوسری طرف وہ شہری علاقوں کے زیادہ ہونہار نوجوانوں سے فطری مقابلے سے محفوظ رہیں۔
دوسری طرف 1972 ء میں مردم شماری اس طرح کرائی گئی کہ شہری آبادی میں اضافے کے شواہد کے باوجود کاغذ اور اعدادو شمار پر دیہی آبادی میں اضافہ دکھایا گیا۔اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ سندھ کے دیہی علاقوں کو نہ صرف ملازمتوں میں ساٹھ فیصد حصہ ملا بلکہ سندھ کے سیاسی اقتدار میں بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کی آئینی بالا دستی قائم ہوئی۔ صرف ایک مثال سے اندازہ لگا لیجئے کہ 1972 ء کی مردم شماری میں ضلع نوابشاہ کے بعض علاقوں میں آبادی کا اضافہ سو فیصد دکھایا گیا ہے جس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی اور یہ صرف کاغذی اضافہ ہی ہے لیکن اس قسم کے کاغذ ہی اضافوں کے نتیجے میں سندھ کے شہری علاقوں کو صوبائی ملازمتوں میں صرف چالیس فیصد حصہ بھی نہ مل سکا۔ اسی طرح وفاق سے ملنے والی ملازمتوں کے حصے 19 فیصد میں مزید تقسیم دیہی اور شہری کی بنیاد پر کی گئی اور کراچی ‘ حیدرآباد اور سکھر کے حصے میں 6 ء 7 فیصد اور سندھ کے دیہی علاقوں کے حصے میں4ء11 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ آیا۔ جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں تعلیم تین گنا سے بھی زائد ہے اور شہری علاقوں میں نوجوانوں کا ابتدائی ذریعہ آمدنی صرف ملازمت ہے جبکہ دیہی علاقوں میں زراعت سب سے بڑا ذریعہ آمدنی ہے ان تضادات اور غیر منصفانہ تقسیم کے اثرات بہت جلد ابھر کر سامنے آنے لگے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان یہ محسوس کرنے لگے کہ ان پر ملازمت اور مزید تعلیم کے دروازے قانونی طور پر بند کردیئے گئے ہیں جس نے نوجوانوں کے ذہن میں ایک اشتعال اور نہ ختم ہونے والے غصے کو جنم دیا۔ کراچی‘ حیدرآباد کی بے چینی کے اسباب میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت کی جانے والی مسلسل ناانصافیاں بھی شامل ہیں۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے سندھ ایپکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کا احساس محرومی یاد دلایا ہے۔ کیا وفاق اور سندھ حکومت اس اہم مسئلہ کی سمت توجہ مبذول کرے گی؟۔
ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا آج ہم پچھتا رہے ہیں، ہم حکومت چھوڑ دیں یہ کہنا بہت آسان ہے جو بھی وعدے ہم سے کیے گئے پورے نہیں ہوئے۔ ایک انٹرویو میں وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ جو مسائل آ رہے ہیں اس کی وجوہات ب...
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما کامران خان ٹیسوری سندھ کے اچانک گورنر تعینات کر دیے گئے۔ گورنر سندھ کے طور پرعمران اسماعیل کے استعفے کے بعد سے یہ منصب خالی تھا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد مرکز میں پی ڈی جماعتوں کو حمایت دینے کے ...
یہ تصویر غور سے دیکھیں! یہ عمران فاروق کی بیوہ ہے، جس کا مرحوم شوہر ایک با صلاحیت فرد تھا۔ مگر اُس کی "صالحیت" کے بغیر "صلاحیت" کیا قیامتیں لاتی رہیں، یہ سمجھنا ہو تو اس شخص کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ عمران فاروق ایم کیوایم کے بانی ارکان اور رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ اُس نے ایم کیوای...
متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ عمران نے پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ نے ان کے شوہر کو بھلا دیا ہے۔ متحدہ کے شریک بانی ڈاکٹر عمران فاروق کی 12ویں برسی پر شمائلہ عمران نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ یا رب میرے لیے ایسا دروازہ کھول دے جس کی و...
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں کامران ٹیسوری کی ڈپٹی کنوینئر کی حیثیت سے بحالی پر کئی ارکان ناراض ہوگئے، سینئر رہنما ڈاکٹر شہاب امام نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ ڈاکٹر شہاب امام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو میرا تحریری استعفیٰ جلد بھیج دیا جائیگا۔ انہوں نے...
انسداد دہشت گردی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) قیادت کی اشتعال انگیز تقاریر اور میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیس کی سماعت ہوئی۔ مقدمے کے چشم دید گواہ انسپکٹر ہاشم بلو نے ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار اور دیگر کے خلاف گواہی دے دی۔ رینجرز کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رانا خالد حسین ...
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کی کراچی میں احتجاجی ریلی کے دوران شیلنگ سے زخمی ہونے والے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کو پولیس نے گرفتا ر کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی قانون کے خلاف وزیر اعلی ہاس کے باہر دھرنا دیا جس کے بعد پولیس کی جانب سے ریل...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
پاکستان میں سب سے زیادہ منظم جماعت سمجھے جانے والی ایم کیوایم ان دنوں انتشار کا شکار ہے۔ جس میں ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے رہنما ایک دوسرے کو ہر گزرتے دن اپنی اپنی تنبیہ جاری کرتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات میں ایم کیوایم لندن کے برطانیہ میں مقیم رہنماؤں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکس...
لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما ندیم نصرت کو بانی تحریک نے جو ٹاسک سونپا ہے وہ اس میں کس قدر کامیاب رہیں گے اور کئی دھڑوں میں تقسیم ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہے ؟ سیاسی مبصرین و تجزیہ کاروں کے ایک بڑے گروہ کی رائے یہ ہے کہ ندیم نصرت اپنے ٹاسک کو اس وقت تک پورا نہیں کرسکیں گے ج...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
ایم کیوایم کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے اب حکومت گرانے اور بچانے کے لیے استعمال کیے جانے کے انکشاف پر حکومت کی جانب سے دو اہم وزرا کو ذمے داری دے دی گئی وفاقی دارالحکومت کے باخبرذرائع کا کہناہے کہ عجیب بات ہے کہ چوہدری نثاراور اسحاق ڈار ایم کیوایم پاکستان کی حمایت میں آن کھڑے ...