... loading ...
یاد کریں آپ نے آخری بار سورج کو نکلتے ہوئے کب دیکھا تھا‘ کتنا عرصہ ہوا ‘ آپ نے چودہویں کا چاند نہیں دیکھا‘ آپ کو کسی پھول کی خوشبو سونگھے کتنا عرصہ ہوا ‘ کب آپ نے پرندوں کی بولیاں سنی تھیں یا کب آپ نے آخری بار خود کو قدرت سے قریب محسوس کیا تھا سوالات کچھ مشکل ہیں، خاص طور پر شہروں میں رہنے والے انسان نما روبوٹس کے لئے ، جن کی زندگی کام پر جانے سفر کی تھکن کھانے ٹی وی دیکھنے اور سونے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔
ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اس مشینی دور میں ہم فطرت سے کتنا دور اور قدرت سے کتنے بیگانے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ قدرت اپنی تمام ترر عنائیوں کے ساتھ سارا وقت ہمارے ساتھ موجود رہتی ہے لیکن ہم ہیں کہ اپنے ارد گرد سے بے خبر‘ اپنے آپ میں مگن جئے جارہے ہیں‘ بسوں گاڑیوں میں دھکے کھاتے ‘ سگریٹ اور گاڑیوں کا دھواں نگلتے ہم کسی درخت کی ٹھنڈی چھاوں میں بیٹھنے کا سوچتے بھی نہیں۔ درختوں کے بیچ اٹھلا کر چلتی صاف تازہ ہوا جس میں سانس لینے سے روح تک شاداب ہوجاتی ہے اور مفت میں دستیاب ہے لیکن ہم نے قسم کھا لی ہے کہ اس ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں گھسنے نہیں دیں گے ۔ کسی باغ میں جاکر نہیں بیٹھیں گے ۔ کسی ٹھنڈے سائے کی مانند چمکتی چاندنی‘ ماہ تاب کا نکھرا رنگ روپ اور ہم ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے دوران بجلی والوں کو گالیاں دیتے موم بتی یا ایمرجنسی لائٹ جلا کر اپنے وجود کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔ دن بھر اپنے ارد گرد موجود بدبوں سے لڑتے ‘ خود پر پرفیوم کے اسپرے کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ خوشبو سے رشتہ نبھانے کا کام ہوگیا ہے ‘ لیکن روح معطر نہیں ہوپاتی، کیونکہ کسی پھول کی اچھوتی خوشبو سونگھنے کا وقت ہماری پاس نہیں ہے ۔ معذرت کہ میں سب کی بات نہیں کررہا ‘ کچھ لوگ غم روز گار کے اتنے مارے ہوئے نہیں ان کے گھروں میں لان بھی ہوتے ہیں۔ وہ جاگنگ بھی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ بھی فطرت سے دوری میں عام آدمی کے قریب کھڑے ملیں گے ۔
کراچی، لاہور یا پاکستان کے کسی بڑے شہر میں یوں ہی سڑک پر کسی کو دیکھ کر خوش دلی کے ساتھ مسکرا دیں اس کی تیوریوں پر بل پڑ جائیں گے ۔ کسی کے پیر سے آپ کا پیر ٹکرا جائے وہ لڑنے پر تیار ہوجائے گا‘ بس کا ڈرائیور گاڑی آہستہ چلائے یا تیز پسنجر شور ضرور مچائیں گے ۔ گھر میں داخل ہوں تو بچے خوف سے سہم کر ادھر ادھر ہوجائیں گے ۔ غصہ ہے کہ ہماری ناک پر دھرا ہے ۔ ذرا آئینے میں اپنی صورت دیکھیں‘ دیکھیں کتنا تناؤ ہے ۔ مان لیا کہ مسائل ہیں‘ بسوں گاڑیوں کے دھکے ہیں‘ مہنگائی ہے ‘ دفتروں میں کوفت اور بیزاری ہے اور گھروں میں گھٹن اور لوڈ شیڈنگ ہے اور اس سب کا اثر ہمارے چہرے سوچ اور عمل پر پڑ رہا ہے ۔ لیکن یہ بڑا منفی اثر ہے جس سے ہم‘ ہمارا گھر کنبہ ہی نہیں معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ فطرت سے تعلق جوڑ کر ہم اس منفی اثر کو کم کرسکتے ہیں۔ بات کوشش کرنے کی ہے ۔ قدرت سے قریب ہونے کی کوشش کریں‘ اپنے ارد گرد پودوں درختوں کو محسوس کریں۔ کھلی ہوا میں سانس لینے کی کوشش کریں۔ رات کو تاروں سے بھرے آسمان کو دیکھیں آپ اس سمے خود کو قدرت سے اتنا قریب محسوس کریں گے کہ خدائی شاہ رگ میں دوڑتی محسوس ہوگی۔ یہ شاعری نہیں نہ ہی کسی قسم کی خوش فہمی یا غلط فہمی ہے ۔ ٹھوس سائنسی تحقیق ہے جس کے مطابق قدرت سے قریب ہونے سے بلڈ پریشر نارمل ہوتا ہے اور دماغی تناؤ میں نمایاں کمی آتی ہے ۔ یعنی آپ کی صحت بہتر ہوتی ہے اور آپ اچھا محسوس کرتے ہیں۔ برٹش میڈیکل جرنل کے مطابق اس چیز کو ایکو تھراپی کہا جاتا ہے ۔ یعنی قدرت سے قریب ہوکر ذہنی اور جسمانی صحت کوبہتر بنانا۔ سائنس دانوں نے پودوں اور درختوں کے ساتھ جانوروں اور پرندوں کو انسانوں کے نفسیاتی اور رویوں سے منسلک مسائل کے حل کے لئے کامیابی سے استعمال کیا ہے ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ پھول پودوں یا پالتو جانوروں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں وہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ٹینشن فری ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اکثر اعصابی تناؤ کے مریضوں کو ایکوریم رکھنے اور اسے کچھ دیر مسلسل دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایکوریم میں پانی اور اس میں تیرتی مچھلیاں دیکھنے سے انسان کے تنے ہوئے اعصاب کو آرام ملتا ہے اور انسان پر سکون ہوجاتا ہے ۔ ویسے بھی جانور اور پودے ہمارے پانچویں ڈائنا مک میں شامل ہیں اور انسانی شعور برتر کی بقا اور اس کا تسلسل خود اپنے آپ اور خود سے منسلک تمام ڈائنا مکس کے ساتھ بہترین تعلق بنانے میں ہے ۔
بات ڈائنا مکس کی ہو رہی ہے تو یہاں ان کے بارے میں کچھ بتانا بہت بلکہ ضروری ہوگا۔ کیونکہ اس مشینی دور میں اکثر لوگ خود سے بیگانے ہیں اس لیے ان کے پاس دیگر ڈائنا مکس کے بارے میں جاننے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی ان کو اس بات کا ادراک ہے کہ اپنے وجود کے علاوہ اپنے ارد گرد کے لوگوں‘ ماحول اور مادی کائنات کے ساتھ تعلق کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ دماغ کو بیدار کرنے اور اس سے بہتر کام لینے کی سائنس کے مطابق انسان سے وابستہ آٹھ ڈائنا مکس ہیں اور انسان کو ان سب میں بہتری کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس کی زندگی زیادہ خوش و خرم اور بہتر بن سکے ۔ زندگی کا پہلا پہلا ڈائنامک ہے انسان کی اپنی ذات‘ دوسرا ڈائنامک ہے انسان کا خاندان یعنی اس کے بیوی یا شوہر اور بچے ۔ تیسرا ڈائنامک ہے انسان سے وابستہ دیگر لوگ‘ رشتہ دار پڑوسی دوست احباب اسکول کالج یا دفتر کے ساتھیوں سے اس کا رشتہ۔ چوتھا ڈائنا مک ہے پوری نسل انسانی‘ قومیں اور لوگ۔ پانچواں ڈائنامک ہے پودوں جانوروں اور زمین پر بسنے والی دیگر تمام حیات سے انسان کا تعلق۔ چھٹا ڈائنامک ہے مادی کائنات کے ساتھ انسان کا رویہ اور اس میں پائی جانے والی اشیا سے برتاؤ۔ ساتواں ڈائنا مک ہے انسان کا روحانی اور مذہبی رویہ اور اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ اس کا تعلق اور آٹھواں ڈائنا مک ہے اس کائنات کے خالق اور اس کے چلانے والے پروردگار کا جسے اللہ تعالیٰ‘ خدائے بزرگ و برتر کا ڈائنامک کہا جاتا ہے ۔ یہ تمام ڈائنا مکس انسان کی اعلیٰ اقدار کے ساتھ بقا کے لیے انتہائی ضروری ہیں لیکن یہاں میں صرف پانچویں ڈائنا مک کی بات کررہا ہوں۔ یعنی آپ کے ارد گرد موجود فطرت سے آپ کا رشتہ۔ یقین کر لیں آپ فطرت سے اپنا تعلق بنالیں گے تو باقی کے سب ڈائنا مکس کے ساتھ بھی آپ کا تعلق اچھا ہوتا چلا جائے گا۔ جب آپ خوش و خرم اور صحت مند ہوں گے تو اس کا اثر آپ کے خاندان پر بھی اچھا ہوگا۔ لوگوں کے گروپس سے بھی آپ بہتر رویہ رکھیں گے یعنی دفتر یا کاروبار پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آپ اخلاقیات اور مذہب کے بہترین اصولوں پر بھی خود بہ خود عمل شروع کردیں گے ، یعنی حقوق العباد کی ادائیگی بہتر ہوجائے گی اور یقینا اس طرح آپ کائنات اور اس کے خالق سے قریب ہوتے چلے جائیں گے تو چلیں اپنے آپ کو اپنے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کو مزید بہتر بنانے کے لئے کوشش شروع کردیں۔ سب سے پہلے چہرے کے مسلز کو ڈھیلا چھوڑیں‘ مسکرانے کی کوشش کریں‘ کھلے ماحول میں کسی باغ میں یا پودوں کے پاس جائیں‘ گہرے سانس لیں۔ آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کو کتنا سکون ملتا ہے اور ہاں آپ کے رویہ میں آنے والی اس مثبت تبدیلی کو آپ کے گھر والے ‘ دفتر والے یہاں تک کے عام لوگ بھی محسوس کریں گے ۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...