... loading ...
ایتھوپیا کی کافی
بہت دن ہونے کو آئے۔ ایتھوپین ائیر لائن کی میزبان کا نام شاید، نشان تھا ۔ایک کاؤنٹر پر انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر ایتھوپیا کی خاص کافی پیالی بھر بھر کر لنڈھا رہی تھی۔ اس طرح کے چار پانچ کاؤنٹر ہال میں تھے جہاں کافی کی سبیل لگائی گئیں،دیگر معلومات کے کاؤنٹر علیحدہ تھے۔۔ایتھوپیا کی ائیر لائن نے پروازوں کا آغاز کیا تو انہیں لگا کہ پاکستانی بوریا بستر باندھے ان کے جہاز میں بیٹھنے اور کافی پینے ہی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پاکستانی پہلی افتتاحی پرواز سے ان کی ٹکٹ کی کھڑکیوں پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جیسے ایک زمانے میں انٹرنیٹ کی آمد سے قبل وی سی آرپر چلنے والی ٹوٹے والی پنجابی فلموں پر جان نچھاور کرنے سنیما گھر پہنچ جاتے تھے۔
غریب ملکوں کا وہی المیہ ہے جو ان پڑھ غریب کا ہوتا ہے کہ اس کا لالچ سڑک پر میلے کپڑوں میں ناچ رہا ہوتا ہے۔ لوگ جلد بھانپ لیتے ہیں۔ کنارہ کش ہوجاتے ہیں یا پیش بندی کرلیتے ہیں۔جب کہ امیر کی خوبی یہ ہے کہ اس کا معیارِ ہوس ،عربوں کے ثوب کی طرح دن میں تین دفعہ تبدیل ہوتا ہے اور ہر وقت عود و عبیر سے مہک رہا ہوتا ہے۔
پاکستانیوں میں کافی کا ذوق نہ ہونے کے برابر ہے ۔کھڑے چمچ کی چائے (پیالی میں اتنی چینی کہ چمچ کھب جائے اور سیدھا کھڑا ہوجائے وہ حیدرآباد دکن میں اس نام سے پکاری جاتی ہے ) وہ بھی زور زور سڑکی لے کر میزبان، ویٹر اور گھر کی خواتین کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے زیادہ شوق سے پیتے ہیں۔ وہی اُن کا محبوب مشروب ہے۔
ان بے چارے اہل حبشہ نے اپنی پروازوں اور دفتر کا آغاز کیا تو مظفر حسین شاہ جو چیف منسٹر سندھ تھے ۔افتتاح کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔حکومت کا چل چلاؤ کا دور تھا۔ سرکاری ایوانوں میں خاص مصروفیت بھی نہ تھی۔ ع وہ نہ آئیں گے تو فراقؔ ہمیں۔۔کام ہی کیا ہے ،انتظار کریں۔۔والا معاملہ تھا۔جنرل عبدالوحیدکاکڑ کو فارمولا تیار کرنے میں معاونت کے لیے مشاورت کی لیبارٹری کھل گئی تھی۔ اس وقت کے صدر گرگ باراں دیدہ غلام اسحق خان اور وزیر اعظم کے لیے Out you go کی صدائے گستاخ کسی وقت سنائی دینے والی تھی۔
مظفر حسین شاہ
اس سہ پہر افتتاحی تقریب میں چند منٹ تقاریر ہوئیں پھر مہمان داری اور میزبانی کا سلسلہ فلور پر پھیل گیا۔ ہم نے اپنے پسندیدہ چیف منسٹر کی تقریر بغور سنی۔ وہ انگریزی بولتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ مزاج بھی اسم بامسّمٰی شاہانہ اور رکھ رکھاؤ والا۔ ورنہ سندھ سرکار میں کیا وڈیرے ،کیا لاچار کامورے (سندھی میں ملازم اور اہل کار کو کہتے ہیں) جب انگریزی بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ لیاری میں کسی غریب کے گھر کی چھت ٹپک رہی ہے۔ پنجاب کے ایک سابق وزیر اعظم اور پنڈی کے فرزند جمہوریت ایک سیاست دان جب تقریر کررہے ہوں تو اردو اور انگریزی دونوں ہی میں مناسب اور محفوظ الفاظ ڈھونڈتے وقت اتنی لمبی آ۔ آ کرتے ہیں کہ لگتا ہے کوئی ان کے گلے میں وائپر لے کر اُتر گیا ہے اور کم بخت نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔
ایتھوپین فضائی کمپنی کی سرو قد اور خوش مزاج میزباں، نشان ایسی تھی کہ احمد فراز کا وہ مصرعہ اس کی رنگت اور آنکھ کو دیکھ کر سمجھ آجاتاتھا ع کہ اس کو سرمہ فروش آہ بھر کر دیکھتے ہیں۔
شاہ صاحب کا مطالعہ بے حد وسیع ہے اور مشاہدہ بھی کچھ ایسا کمزور نہیں۔ ٹہلتے ٹہلتے وہاں اسٹال کے پاس آئے تو آہستہ سے پوچھا How is the 4th cup۔ہمیں اندازہ نہ تھا کہ وہ اپنے آخری ایام اقتدار میں افسروں کے ناؤ نوش پر ایسی کڑی نظر رکھیں گے۔ ہم نے بھی جب ہلکی سی شرارت سے جواب دیاStill hot تو وہ مسکراکر آگے بڑھ گئے۔
ہم نے آخری ایام اقتدار اس لیے کہا کہ26 مئی 1993ء کو جسٹس نسیم حسن شاہ نواز شریف حکومت بحال کرچکے تھے اور شاہ صاحب کی وزارت اعلیٰ کو بظاہر خطرہ نہ تھا مگر ان تک یہ بے نظیر صاحبہ کے بلند شکووں کی یہ باز گشت پہنچ گئی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بڑی Glitter ہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کے اس فیصلے کے علاوہ وہ ان سے اپنے والد کے عدالتی قتل کے فیصلے کے حوالے سے بہت رنجور تھیں۔ جسٹس شاہ اس سات رکنی بینچ کے ممبر تھے جنہوں نے ان کے والد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا بحال رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔جولائی 1993 کا تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا۔ امتیاز شیخ صاحب جو شاہ صاحب کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ پہلے ہمارے رفیق کار تھے۔بعد میں ہمارے مہرباں ہوگئے۔مناصب کی دوری کے باوجود سندھی روایات کے بموجب بہت لحاظ مروت سے پیش آتے تھے۔ ہمیں فون کیا کہ شاہ صاحب اسلام آباد جارہے ہیں۔پروٹوکول بہت کم ہوگا مگر ہمیں ان کے ساتھ حکومت کے آج خاتمے کے باوجود ویسے ہی ادب، لحاظ اور احترام سے پیش آناہے۔اُنہیں جہاز پر ان کی نشست تک پہنچا نے کا فریضہ خود میرا ہوگا۔
شاہ صاحب آئے تو وہی سنجیدہ مسکراہٹ، وہی بردباری۔پوچھنے لگے اسلام آباد کی جانب سے کون سی اہم شخصیات اس فلائٹ میں سوار ہونے آئی تھیں۔ہم نے کہا ہم نے سفید شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں حکیم محمد سعید کو بہت شاداں و فرحاں جاتے دیکھا ہے وہ سب کو بڑی گرم جوشی سے علیک سلیک کررہے تھے۔ہم نے کہا As if Moses about to find his fire ۔شاہ صاحب ہنس دیے اور کہنے لگے کہ حکیم صاحب تو ہمیشہ کے بہت شائستہ اور ادب آداب والے ہیں۔ہم نے کہا آج ان کے سلام میں وہی گرم جوشی اور بے تابیٔ توجہ تھی جو ایک شاعر نے بیان کی ہے کہ ع
any important Sindhi notable؟
کرسٹوفر لی
ہم نے کہا ہائی کورٹ کی کار سے اداکار کرسٹوفر لی(جنہوں نے بعد میں فلم جناح میں مرکزی کردار اداکیا)جیسے ایک صاحب اُترے تھے۔ اُن کی آمد اس لیے ذرا انہونی تھی کہ ان کے ساتھ دو عدد فرشتے افسران تھے۔ ہمارے انکشاف پر شاہ صاحب نے صرف اتنا ہی کہا کہ I am glad you didn’t liken your new CM to Terry Thomas (برطانوی اداکار جو جرنیلوں کے مزاحیہ کردار اداکرنے کے لیے مشہور تھے)۔
ٹیری تھامس
زمانہ Pagerکا تھا۔موبائل فون نہیں آئے تھے۔انٹرنیٹ حاصل کرنے کے لیے سفارش لگانی پڑتی تھی۔ای میل اکاونٹ کی Disk Operating System (D.O.S) پر سیٹنگ کے لیے جہاز جیسا سی پی یو اٹھا کر متعلقہ کمپنی کے دفتر لے جانا پڑتا تھا۔ ہمارے Pager پر مختصر سا چیف سیکرٹری کے دفتر سے پیغام تھا۔Hang on airport .Call after 5.p.m.C.S now sleeping.
جام صادق کے وزیر اعلی بننے کے بعد سے چیف سیکرٹری کے دفتر کی اہمیت بہت کم ہوگئی تھی۔بیوروکریسی کا مرکز اختیارات سی ایم ہاؤس منتقل ہوگیا تھا۔ تقرریوں،تبادلوں، ترقیوں کا معاملہ وہاں سے کنٹرول ہوتا تھا۔ورنہ 1979میں جب مسعود زمان یہاں چیف سیکرٹری تھے تو ڈپٹی سیکرٹری ان کے دفتر کے احاطے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ہم وزیر تجارت حمید ڈی حبیب سے ناراض ہوئے تو گجراتی ہونے کے ناطے، ہمارے بڑوں سے واقفیت اور اپنی زیادتی کا ادراک رکھتے ہوئے انہوں نے مسعود زمان کو فون کیا کہ وہ ہمیں سندھ حکومت میں پوسٹنگ دے دیں۔جنگ کے دفتر کے سامنے ایکسپورٹ پروموشن کے دفتر سے ہم جب سیکرٹریٹ پہنچے تو نہ صرف سیکورٹی کو ہمارے بارے میں ہدایات تھیں۔بلکہ سی ایس کی آمد سے پہلے خوشبو کے چھڑکاؤ کے اثرات فضا میں مہک رہے تھے۔انٹرکام پر ہوم سیکرٹری کو ہدایات دی گئیں کہ ہمارا خیال رکھیں اور اچھی پوسٹنگ دیں۔Orders in writing to follow ہوم سیکرٹری خود ایک پرانی مزدا 929 پر دفتر آتے تھے۔باوردی درست ڈرائیور اسے سارا دن چمکاتا رہتا تھا۔گریڈ اکیس کے آئی جی ارباب ہدایت اللہ گریڈ بیس کے ہوم سیکرٹری مظہر رفیع کے پاس جو ان دنوں انسپکٹر سے ڈی ایس پی کی ترقی کے علاوہ پولیس اور جیل کا بجٹ کنٹرول کرتے تھے۔اس وقت تک حاضری دینے کے حوصلہ مند نہ ہوتے جب تک ڈپٹی سیکرٹری پولیس ہمایوں فرشوری سے حال احوال نہ کرلیتے اور بڑے صاحب کے موڈ کا ادراک نہ ہوجاتا۔۔آئی جی جیل خانہ جات منظور پنھور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکشن افسر کے دورے پر آتے وقت خود جیل کے صدر دروازے پر کھڑے ہوتے تھے۔ہوم سیکرٹری کا دیدار تو انہیں عید بقرعید پر نصیب ہوتا تھا۔(جاری ہے)
کرسٹوفر لی بطور جناح
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...