... loading ...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ جزیرہ العرب کے جنوب میں یمن کے مقام پر قائم قوم سبا کی تہذیب معلوم تاریخ میں دنیا کی چار بڑی اور طاقتور تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی ان کی مضبوط معیشت کا دارومدار قوم سبا کے قدیم دارالحکومت مارب میں قائم پانی کا ایک ڈیم تھا جس میں سے قوم سبا نے بہت سی نہریں نکال کر اس تمام خطے کو آبپاشی کے ذریعے جنت کے باغات میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ مضبوط معیشت کا انحصار اسی آبپاشی کے نظام سے منسلک تھا۔ اس قوم کے تجارتی قافلے بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ جزیرہ العرب میں شمال کی جانب سفر کرکے فلسطین اور شام تک جایا کرتے تھے۔ بے پناہ خوشحالی نے اس قوم میں نافرمانی اور اللہ سے بغاوت کی روش پیدا کردی۔ انہوں نے اللہ کی رحمت کی بجائے اپنے معاشی وسائل پر انحصار شروع کردیا جس کی پاداش میں ان کو سزا دینے کے لئے قدرت نے ان کی معاشیات پر اس طرح ضرب لگائی کہ مارب میں موجود عجوبہ روزگار پانی کا ڈیم منہدم ہوگیا۔ڈیم کی تباہی نے اس خطے کو آہستہ آہستہ سرسبز خطے سے ایک بے آب وگیاہ صحرا میں تبدیل کردیا۔دوسری مشکل یہ پیش آئی کہ یورپی منڈیوں کا وہ مال جسے بحیرہ روم میں بحری جہازوں کے ذریعے مصر اور پھر یہاں سے اسکندریہ کی بندرگاہ سے براستہ بحیرہ احمر یمن کی بندرگاہ، اوریہاں بھاری ٹیکس ادا کرکے اس سے آگے ہند تک پہنچایا جاتا تھا یہ سلسلہ انتہائی کم ہوگیا کیونکہ یورپ نے مال کی دور تک رسائی کے لئے متبادل راستے تلاش کرلئے تھے۔ تجارتی مال کے لئے متبادل راستوں کے دریافت ہونے نے قوم سبا کی رہی سہی معیشت کو بھی دیوالیہ کردیا اور یوں معاشی وسائل پر نازاں قوم سبا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
جدید تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یورپ میں جب صنعتی ترقی نے معیشت کو عروج پر پہنچایا تو اسی ترقی کے بطن سے جنگی صنعت نے بھی جنم لے لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب آہستہ آہستہ بے خدا معاشرے میں تبدیل ہونے لگا جس کی ابتدا اس طرح کی گئی کہ رومن کیتھولک عیسائیت کی ناکامی کو جواز بناکرپہلے مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دیا گیا، اس کے بعد اللہ کے تصور کو انسانی زندگی کے ہر معاملے سے خارج کر کے ایک خالصتا مادی اور لادینی معاشرے کا قیام عمل میں لایا گیا۔مغرب کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی شہ رگ پر یورو۔ صہیونی گروہ نے اپنی گرفت مضبوط کرلی جس کا خمیازہ مغرب کے کروڑوں عوام کو پہلے جنگ عظیم اول اور اس کے بعد جنگ عظیم دوم کی شکل میں بھگتنا پڑا جس نے نہ صرف مغرب کو معاشی زوال کے دہانے پر پہنچا دیا بلکہ عالمی سیادت کا رخ لندن سے واشنگٹن کی جانب موڑ دیا گیا جس کے بعد نصف صدی مغرب کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں لگ گیے لیکن وہ برطانیا جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا سکڑ کر ایک جزیرہ نما تک محدود ہوگیا۔
سوویت یونین کی تحلیل کے سیاسی اور عسکری عوامل کچھ بھی ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کے میدان جنگ میں اسے گھسیٹنے کا بڑا مقصد اسے معاشی دیوالیہ سے دوچار کرنا تھا اور چشم عالم نے یہ نظارہ دیکھا کہ دنیا کے سب سے بڑے رقبے اور سب سے بڑی جوہری قوت کا حامل ملک سوویت یونین خود اپنے وزن تلے کچلا گیا اور وہ ماسکو جو کسی دور میں ایک عالمی قوت کا دارالحکومت تھا اب وہاں روسی عوام کی لمبی لمبی قطاریں محض ایک ڈبل روٹی کے حصول کے لئے لگنے لگیں اور وہ سوویت فوج جس کے احساس سے ایک دنیا کانپتی تھی اس کے بڑے بڑے کمانڈر روسی شہروں میں جوتے فروخت کرتے پائے گئے۔
اس ساری تمہید کا مقصد اس بات کو جاننے کی کوشش کرنا ہے جس میں اس وقت وطن عزیز کی معاشی اور سیاسی صورتحال گھری ہوئی نظر آرہی ہے۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف پاکستانی حکمرانوں نے پانی کے معاملے میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا اور بھارت کو کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر بند باندھنے کی چھوٹ دیکر اسے آبی جارحیت کی کھلی چھٹی دی تو دوسری جانب اسی بھارت سے بلا مقصد دوستی کی پینگیں بڑھاکر مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے اپنے طور پر جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی اور جب پاکستانی وزیر داخلہ کی جانب سے بھارتی رویہ کا منہ توڑ جواب دیا گیا تو وزیر موصوف نے اسلام آباد سے فرار میں ہی عافیت جانی اور دہلی جاکر دم لیا اور اب وہاں پہنچ کر مقبوضہ کشمیر میں مزید بھارتی فوج روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کی اس ہٹ دھرمی کے پیچھے امریکا اور برطانیا سمیت عالمی قوتوں کی مرضی پوشیدہ ہے۔دوسری جانب موجودہ حکمرانوں کی سفارتی اور خارجہ پالیسی بالکل ناکام ہے معلوم نہیں اقتدار میں آنے کے لئے انہوں نے بڑی قوتوں کو کس قسم کی یقین دہانی کرائی ہے کہ آبی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے تناظر میں بھارت کے سامنے منہ کھولتے ہوئے ان کی زبانوں کو تالا لگ جاتا ہے۔
خطے کی نازک ترین صورتحال کے تناظر میں اس وقت حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی کا جو اعلان کیا ہے وہ قبل از وقت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جعلی شناختی کارڈوں کے اجراء اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے حکومت کو اس جانب دھکیلا ہے، خاص طور پر افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت اور ان کے سامان سے پاکستانی شناختی کارڈ کی برآمدگی کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے، لیکن اس جانب قدم اٹھاتے ہوئے خطے کی نازک سورتحال کو بھی مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہیں بھارت اور کی پشت پر کھڑی عالمی قوتیں پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو پاکستان کے خلاف ہی نہ استعمال کرنے لگیں۔اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین کی افغانستان میں یلغار کے بعد سے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں پناہ گزین ہوئی تھی، ابھی افغان مہاجرین کا بڑا حصہ واپس افغانستان واپس نہیں گیا تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکا نے منصوبہ بندی کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کردی جس کی وجہ سے مزید افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوگئے کئی دہائیوں سے پاکستان میں موجودگی کے دوران ان کی دو نسلیں پاک سرزمین پر پیدا اور جوان ہوئی ہیں اور لاکھوں افغان مہاجرین نے کے پی کے کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں اپنے بڑے اور چھوٹے کاروبار جما لیے ہیں جو اس وقت وطن عزیز کی معیشت کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لینڈ مافیا اور بھتہ خور عناصر کے منہ سے بھی رال ٹپک پڑی ہے کہ ان افغانوں کی مہنگی جائیدادیں اور کاروبار اونے پونے ہتھیا لئے جائیں۔صرف کے پی کے کے صحافتی ذرائع اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ افغان مہاجرین کے کیمپوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کے لئے صوبے کی بااثر شخصیات بھی ملوث نکلی ہیں اور اب ہاؤسنگ اسکیم مالکان کی نظریں شمشتو کیمپ سمیت صوبے کے دیگر کیمپوں اور پوش علاقوں میں ان کی جائیدادوں پر ہیں۔ ذرائع کے مطابق وطن عزیز میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے افغانوں نے اب پاکستان سے مایوس ہوکر بھارت میں سرمایہ کاری کا سوچنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان جہاں پر ملی بھگت سے غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر سادہ لوح افراد کو لوٹا جاتا رہا ہے اب ان پراپرٹی ڈیلروں نے پھر سے نئے ناموں کے ساتھ بااثر شخصیات کی خدمات حاصل کرلی ہیں پہلے مرحلے میں ان نوسر بازوں نے اضاخیل مہاجر کیمپ میں تیس برس سے مقیم ہزاروں افغان مہاجرین کو توہین آمیز طریقے سے بے دخل کیا اور دریائے کابل کے کنارے اس مہنگے رقبے پر بجائے کوئی سرکاری منصوبہ شروع کیا جاتا ان افراد نے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانی شروع کردیں۔ اسی طرح صوبے کے دیگر حصوں میں ایسے ہی کاروباری منصوبے شروع کرنے کے لئے افغان مہاجرین کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ رجسٹرڈ افغانوں اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کو31 دسمبر تک ملک چھوڑ دینے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے کاروباری افغانوں کی قیمتی املاک پر بھی یہ مافیا نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ اس سارے معاملے میں وطن عزیز کی پولیس بھی کسی طور پر پیچھے نہیں۔ چاروں صوبوں میں جہاں جہاں افغان مہاجرین کے کاروباری سلسلے ہیں وہاں پر کئی جگہ پولیس بھی بھتہ وصول کررہی ہے۔ یہ سلسلہ پنجاب سے سندھ تک دراز ہوچکا ہے۔ کراچی سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ملیر پولیس نے مشہور زمانہ بندے مار پولیس ایس ایس پی راؤ انوار کی سرپرستی میں افغان بستیوں کو ظلم وستم کا نشانا بنانا شروع کردیا ہے۔ راتوں کو غریب افغانوں کو ان کے گھروں سے اٹھاکر تھانے منتقل کردیا جاتا ہے اور پھر رہائی کے بدلے ان سے ہزاروں روپے بٹورے جاتے ہیں۔اس وجہ سے روزانہ گرفتاریوں کے خوف سے ان بستیوں کے افغانوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں فٹ پاٹھوں پر راتیں گزارنا شروع کردی ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پولیس اہلکار افغانوں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران میں نہ صرف خواتین سے بدتمیزی کرتے ہیں بلکہ ان کے گھروں سے طلائی زیورات اور دوسرا قیمتی سامان بھی لے جاتے ہیں۔ رشوت نہ دینے والے افغانوں کو فارن ایکٹ کے مطابق گرفتار کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اس کے علاوہ ملیر پولیس کے اہلکار ان افغانوں کو یہ بھی دھمکی دیتے ہیں کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ہے اور تمیں مقابلے میں پار کردے گا۔اسی خوف کی وجہ سے ان بے کس افغانوں کو پولیس کا ہر مطالبہ ماننا پڑتا ہے جس کی وجہ سے افغانوں کی بڑی بڑی آبادیوں میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ان افغانوں سے شناخت کی پڑتال کے لئے ان کے کارڈ لیے جاتے ہیں اور واپس کرنے کے لئے دو سے پانچ ہزار روپے تک کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ افغانوں کے زیرِ ملکیت پیٹرول پمپوں سے بھی اب پولیس مختلف حیلے بہانوں سے مفت میں ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔ اعلی حکام یا اخبار والوں کو اطلاع دینے کی صورت میں جعلی مقابلوں میں مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اس قسم کی صورتحال کی اطلاعات ملک کے دیگر حصوں سے بھی آرہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت یہ لاکھوں افغان اپنا سب کچھ پاکستان میں لٹا کرکسی نہ کسی صورت واپس افغانستان پہنچیں گے تو ان کے دل میں پاکستان کی کیا قدر ہوگی؟ کبھی ہم نے سوچا کہ کہیں یہ وہی صورتحال تو نہیں ہے جو بھارت اور امریکا بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان میں نفرت کے گہرے بیج بوئے جائیں۔
یہ افغانی پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے تھے ان کے اس طرح اچانک واپس جانے کے بعد پاکستانی معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ کسی بھی عام سے ماہر معاشیات سے پوچھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے حکمرانوں اور کرپٹ بیوروکریسی نے جس انداز میں وطن عزیز کی اقتصادی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے، وہ پوری طرح آئندہ آنے والے دنوں میں اس قوم پر واضح ہوجائے گا۔ پانی کی کمیابی اور توانائی کے منصوبوں پر سیاست نے پہلے ہی اس قوم کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے اب رہی سہی کسر افغانوں کو اچانک اس ملک سے بے دخل کرکے پوری کی جارہی ہے۔ اس سارے معاملے میں حیران کن بات یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں یا اسلامی سیاسی جماعتیں جو کبھی افغانوں کا دم بھرتی تھیں، خاموشی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی ہیں انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ اس سے ملک کے معاشی اور سیاسی مستقبل پر کیا اثر ات مرتب ہوں گے۔
حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...
افغان عبوری وزیرخارجہ امیر متقی نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، پاکستان اور افغانستان کے پاس بہتر تعلقات اور تعاون کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ا نہوں نے کہا کہ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نےاپنے ایک انتہائی متنازع بیان میں خیبر پختونخوا کو "افغانیوں"کا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی کو، افغان مہاجرین کو ان کی ’اپنی ہی زمین‘ میں ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ایک افغان اخبار "افغانستان ٹائمز" کو انٹرویو دیتے ہو...
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پاکستان میں مندرج افغان مہاجرین کے عارضی قیام میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی جو رواں ماہ 30 جون کو اختتام پذیر ہورہی تھی۔اب نئی توسیع شدہ مدت کے تحت پہلے سے من...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...