... loading ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان کی پارٹی بدعنوان اور کرپٹ ترین لوگ ہیں اور یہ اداروں کو تباہ کر رہے ہیں‘‘ ۔ چونکہ اُس وقت زور فوج اور نواز لیگ ، دو اطراف سے لگایا گیا تھا اس لئے اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی اس بیانئے کی خوب پزیرائی ہوئی۔ بعد ازاں جب میاں صاحب کو اسی بدعنوان اور کرپٹ سیاسی جوڑے کو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت گلے لگانا پڑا تو یہی بیانیہ ان کے گلے پڑ گیا۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اتنی ہی بدعنوان اور نا اہل یا ایماندار ہے جتنی تیسری دنیا کے کسی بھی ترقی پزیر ملک کی ہو سکتی ہے۔ لیکن ہماری ایک پوری نسل کے اذہان میں آصف علی زرداری کرپشن کے ہم معنی کر دئیے گئے حالانکہ کرپشن کس نے نہیں کی اور کون نہیں کررہا؟ اصل میں بات یہ ہے کہ جب بھی آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کو اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اقتدار کے دسترخوان سے کچھ نہ کچھ بچا کھچا حصہ نہ صرف اپنی پارٹی کے نچلے کیڈر تک جانے دیتے ہیں بلکہ اپنے ناقدین اور مخالفین تک بھی پہنچانا نہیں بھولتے۔ وہ بڑے بڑے عہدوں سے لے کر چھوٹی چھوٹی نوکریوں تک پر بھی اپنے کارکنان یا پسندیدہ لوگوں کو گھسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجے میں وہ ایک جیالے کو نوکری دے کر یا کوئی ایک غلط الاٹمنٹ کر کے پورے محکمے اور علاقے میں اپنا تاثر خراب کر لیتے ہیں۔
دوسری طرف اقتدار کے یہ چند قطرے جب نچلی سطح تک پہنچتے ہیں تو ان کا کارکن ، جو عرفِ عام میں جیالے کہلاتے ہیں ، وہ بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور شراب کے مٹکے میں گر جانے والے چوہے کی طرح چوک میں کھڑے ہو کر بڑھکیں لگا رہے ہوتے ہیں کہ ’’کہاں گئی وہ بلی نامراد؟‘‘اس معاملے میں میاں نواز شریف بڑے عقل مند بلکہ اگر صحیح الفاظ میں کہیں تو چٹور واقع ہوئے ہیں۔ چونکہ ذات کے (کشمیری) شیخ ہیں اس لئے کسی کو ہاتھ سے دیتے ہوئے ان کو ہول اٹھنے لگتے ہیں۔ میاں برادران اقتدار صرف اور صرف اپنی ذات، اور اگر بچ جائے تو اپنے خاندان تک محدود رکھتے ہیں۔ پارٹی کارکن ، لیڈر، ہمدرد ،ووٹرز سب جائیں بھاڑ میں، ان کو میرٹ کا جھنجھناتھما دیا جاتا ہے جسے وہ اپنی سیاسی ضرورت کے باعث دن رات بجاتے پھرتے ہیں۔ یہ اپنے متاثرین شامل باجہ حضرات کے لئے ایک ہی پیغام ہوتا ہے کہ ’’اپنے لئے کھا نا اور ہمارے لئے لے آنا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ اب کچھ عقل مندوں نے تو میاں صاحب کے اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ ان کے خاندان کا حصہ بننے کے لئے بھی راستے ڈھونڈ لیے ہیں۔ بعض لوگ کیپٹن صفدر صاحب والا راستہ اپناتے ہیں ،بعض میاں منیر والا، بعض لوگ اسحاق ڈار والا اور بعض علی عمران (المعروف بیکری ملازم کو پھینٹی لگانے والے) والا راستہ اختیار کرتے ہیں اور دلی مراد پاتے ہیں ۔اب تک تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس طرح سے ہی ان لوگوں کی میاں صاحب کے اقتدار میں شراکت داری کی مراد ضرور برآتی ہے۔ ورنہ جاوید ہاشمی سے لے کر راجہ ظفر الحق، وہ تمام لوگ جنہوں نے میاں صاحب کے اقتدار کے راستے کے کانٹے اپنی پلکوں سے چنے ،اور ان کی غیر موجودگی میں ملک میں ان کی پارٹی کے لئے جدوجہد کرتے رہے، وہ آج کل سیاست کے عجائب گھر میں سجے پڑے ہیں۔ میاں برادران کی طرف سے مقامی حکومتوں کو اقتدار میں حصہ نہ دینا، شہباز شریف کا کابینہ کو اپنی ذات تک محدود رکھنا ، اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
چونکہ میاں صاحب کے اقتدار کی ملائی کھانے والے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اس لئے معاملات نہ صرف کنٹرول میں رہتے ہیں بلکہ صفائی سے سرانجام بھی دئیے جا تے ہیں اور یوں بڑے چپکے سے ان کے سمدھی اسحاق ڈار کے دبئی میں پلازے اُگ آتے ہیں، سیٹھ حسین داؤد اور میاں منشاء کھربوں پتی ہو جاتے ہیں اور یوں میاں صاحبان ہر جلسے میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’اگر میرے خلاف ایک پائی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو آپ کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے سمدھی کو اتنی تگ و دو کے بعد اقتدار میں حصہ ملا ہوتا ہے، اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ رولا ڈالے گا؟
ان دونوں روایتی پارٹیوں سے ہمارے خان صاحب کا طریقۂ واردات بہت الگ، منفرد اور الیکٹرانک ہے۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں ، ایک جالندھر کے نیازی پٹھان اور اوپر سے یہودیوں کے داماد؟ توبہ توبہ ۔ فرض کریں ان کے ادارے کے لئے اگر خیرات اور صدقات وصول کرنے کے لئے ایک درجن اکاونٹس ہیں تو انتہائی اعلیٰ آڈٹ فرم سے پوری ایمانداری کے ساتھ جانچ پڑتال صرف ایک اکاونٹ کی ہوگی۔ باقی گیارہ اکاونٹس جو پاکستان سے باہر دیگر مختلف ممالک میں مشتہر کئے جائیں گے ، ان میں جمع کروائی گئی رقوم کو تو وہ ڈکار لئے بغیر ہضم کرجاتے ہیں۔ کوئی اعتراض کرے تو آڈٹ رپورٹ اس کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ مزید برآں ان کے خیراتی ادارے کے لئے عطیات جمع کرنے والوں کو بیس فی صد تک باقاعدہ کمیشن دیا جاتا ہے۔ لیکن خان صاحب ایسی تمام جگہوں پر ،جہاں وہ خود مدعو کیے جاتے ہیں، جمع شدہ رقم کا کمیشن اپنی ذاتی جیب میں ڈالنا نہیں بھولتے۔ یہ ہوشربا معلومات ہمیں ان کے عطیات جمع کرنے والے شعبے کے ایک رکن نے بتائی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی ملال بھی اس میں شامل ہے۔اوپر کے تینوں طبقہ ہائے اشرافیہ دیکھیں تو کہنا پڑے گا کہ اس قوم کی قسمت ہی خراب ہے۔ لیکن پھر یہ دیکھ کو دل کو سکون حاصل ہوتا ہے کہ ’جیسی روح ویسے فرشتے‘ کے مصداق اس قوم کے اعمال اسی لائق ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں کہاں ایسا نہیں ہوتا؟ بالکل بجا لیکن وہاں پر لیڈر یہ ساری لوٹ مار اقتدار کے حصول کے عمل کے دوران کرتے ہیں اور جب اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ جاتا ہے تو پھر ایسی حرکات و سکنات سے تائب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ ساری حرکات اقتدار حاصل کرکے کی جاتی ہیں۔ بس اتنا سا فرق ہے۔
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...
ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...
مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد...
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب سے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ ’’کچھ قوتیں ان کو ہٹانا چاہتی ہیں‘‘ تو مملکتِ خداداد پاکستان کے ایک جمہوریت پسند شہری کے طور پر ہمارا ماتھا ٹھنکا، لیکن چوں کہ ہمارے آزاد اور مادر پدر آزاد ’’ معزز‘‘ ...
جناب خلیق ارشد اور ان کے ہونہار صاحبزادے ، گلزار خلیق کا اس قدر محبت بھرا اصرار تھا کہ اپنی نیند قربان کر کے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی سالانہ نمائش کے لئے ناچار پہنچنا ہی پڑا۔ جب سے لاہور کا ایکسپو سینٹر بنا ہے اور جناب ضیاء المصطفیٰ اعوان جیسے لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے اس میں تو...
چور جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو چوری کا مال برآمد ہو ہی جاتا ہے تو کیا پاکستان کے برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی اور جعل سازی کرنے والے میڈیا اداروں کی باہمی لڑائی کے نتیجے میں اب چوری کا مال برآمد ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جو...