... loading ...
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں۔اخوت و محبت کے یہی جذبات عوام کے سینوں میں پیوست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے کی کوششیں ہوئیں اور کافی تلخی اور عدم برداشت پر مبنی رویہ دیکھا گیا ہے۔افغانستان کی تزویراتی اہمیت زار روس، بعد ازاں بالشویکوں اور ہند پر قابض انگریزوں کے نزدیک یکساں تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی حساسیت و اہمیت میں کمی واقع نہ ہوئی۔ بڑی طاقتوں کی خواہش و کوشش تھی کہ افغانستان یا تو ان کی کالونی و مقبوضہ بنے یا پھر غیر جانبدار پالیسی اپنائے۔
خیبر پشتونخوا اور بلوچستان میں انگریز راج کی توسیع پسند پالیسیاں اس خوف کی بناء پر جاری رہیں، انفراسٹرکچر قائم کیا، ڈیورنڈ لائن جیسی سرحدی لکیر کھینچی گئی۔ پیش ازیں 1839 اور 1879 کی اینگلو افغان جنگوں میں انگریزوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ کوئٹہ ،ژوب ،لو رالائی ، پشین اور قلعہ عبداللہ کی گزر گاہیں بھی ان کی توسیع پسندانہ فوجی مہمات میں خطرات اور نقصانات سے خالی نہ تھیں ۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں کی وجہ سے انگریز فوج کی بڑی تعداد موت کے منہ میں گئی ،گھوڑوں، اونٹوں اورجنگی سازوسامان کے ضیاع کی الگ تفصیلات ہیں۔ چنانچہ اس نقصان اور مشکل کے پیش نظر پورے بلوچستان میں جہاں جہاں ضرورت پڑی سڑکوں کے ساتھ ساتھ ریلوے لائنیں بچھادی گئیں۔ انگریز عملاً مختلف علاقے ہتھیا چکا تھا۔ اس طرح 14 اپریل 1888 میں کوئٹہ سے چمن تک ریلوے لائن بچھانے کا آغاز کردیا اور کو ژک (خوجک سرنگ )کے مقام پر شاہکار سرنگ بنانے میں کامیاب ہوا۔ اس سرنگ کی لمبائی 2.43 میل ہے۔ 17 اپریل 1890 کو اس سرنگ پر کام مکمل ہوا۔گویا چمن اور قلعہ عبداللہ کا علاقہ ریل کے ذریعے بھی کوئٹہ سے جوڑ دیا گیا۔ انگریز ی تقسیم کے باوجود دونوں جانب کے عوام بہرحال تقسیم نہ ہوئے۔ رشتہ داریاں، تجارت اور نقل و حمل کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ گو یا دونوں جانب کے عوام کا یہ جوڑ، مذہبی اورنہ ہی لبرل انتہا پسندی توڑ سکی ہے ۔ اگرچہ دانستہ و غیر دانستہ حما قتیں اور شرارتیں بہت ساری ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور سفارتی اتار چڑھاؤ وقتا فوقتا دیکھا گیا ہے۔ سرحد پر اشتعال انگیزی اور اسے مہمیز دینے کی سعی بارہا کی جاچکی ہے۔ اب تو کیفیت حالت جنگ کی سی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بلوچستان کے متعلق 18؍ اگست کے بیان اور براہمداغ بگٹی کی جانب سے مودی کی تقریر کی حمایت کے خلاف مظاہرے ہوئے تو سرحدی شہر چمن میں بھی ایک مظاہرہ ہوا۔ ریلی پاک افغان سرحد پر ‘‘باب دوستی’’ پہنچ گئی۔ مودی اور براہمداغ کی تصاویر اٹھائے مظاہرین نے افغان سرحد کی طرف رخ کرکے بھارت کے خلاف نعرے لگائے ۔بھارتی پرچم نذر آتش کیا گیا۔ میرے خیال سے مظاہرین کی جانب سے ’’باب دوستی ‘‘پر تماشا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان بے قید اور اوباش قسم کے لوگوں کو سرحد تک جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے تھی ۔ یقینا مقامی انتظامیہ نے اس ضمن میں غفلت و لاپرواہی برتی ہے۔18 اگست کا دن افغانستان میں یوم آزادی و استقلال کے طور پر منایا جا تا ہے ۔ 18 اگست 1919 ء کو برطانیا نے افغانستان کی آزادی و خود مختاری کو تسلیم کرلیا تھا۔ چنانچہ افغانستان کی جانب سے بھی اسی منش کے لوگ ’’ دوستی گیٹ ‘‘ پہنچ گئے۔ اشتعال انگیز نعرے بلند کیے۔ پاکستان کا جھنڈا جلایا ۔ غالبا ًسنگ زنی بھی کی گئی۔ یوں باب دوستی پاکستانی حکام کی جانب سے بند کیا گیا۔ پانچ فلیگ میٹنگز کے بعد یعنی بارہ روزہ بندش کے بعداب سر حد کھول دی گئی ۔ان اجلاسوں میں دونوں جانب کے سیکورٹی حکام شریک ہوتے ہیں۔ بعض افغان سیکورٹی حکام پہلے ہی افغان سرحدی ضلع اسپین بولدک کی ’’ویش منڈی‘‘ میں پاکستانی کرنسی میں کاروبار پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے بعد درجنوں پاکستانی شہریوں (پنجاب سے تعلق رکھنے والے )کو قندھار سے پاکستان بدر کیا گیا۔ ان کی دستاویزات ضائع کردی گئیں۔ اطلاعات ہیں کہ ان افراد پر تشدد بھی کیا جاچکا ہے۔ نیٹو ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کی دونوں جانب قطاریں لگ گئیں۔ افغانستا ن کی طرف سے آنے والے سینکڑوں مریض اور زخمی سرحد کھل جانے کے انتظار میں تڑپتے اورسسکتے رہے۔یہ لوگ علاج و معالجے کی خاطر کوئٹہ کے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ یومیہ بیس پچیس ہزار افراد آتے جاتے ہیں۔ بارہ ہزار افراد چمن کے مزدور اور تاجر ویش منڈی جاتے ہیں، جو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ گویا مقامی تجارت کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ دو طرفہ تجارت ان دنوں بند رہی ۔ یہ تکلیف ، اذیت اور تجارتی خسارہ محض دونوں جانب کے اوباشوں کی خرمستی کی وجہ سے اٹھانا پڑا۔ اسلام آباد میں متعین افغان سفیر محمد عمر ذخپلوال کہہ چکے ہیں کہ جنہوں نے پاکستانی پرچم نذر آتش کیا وہ افغان حکومت اور عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ سفیر صاحب سے کلی اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ افغانستان کے اندر ایک ذہن فتنہ انگیزی پر کام کررہا ہے اور صوبہ قندھار اور سرحدی اضلاع میں بعض افغان حکام پاکستان مخالف جذبات ابھارتے ہیں۔ ان کی توجہ شر انگیزی پر مرکوز ہے۔ قبائل کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے جتن کئے جاچکے ہیں اور یقینا پاکستان کی جانب سے بھی باب دوستی پر احتجاجی ہجوم بغیر شہ و ترغیب کے نہیں گیا ہوگا۔ افغان حکومت کتنی خود مختار اور آزاد ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
حامد کرزئی اپنی حکومت کی آخری مدت میں امریکی افواج کے افغانستان میں مزید قیام میں توسیع کے معاہدے پر دستخط سے انکاری ہو گئے ۔یقینا ایسا افغانیت کے جذبے کے بجائے سیاسی اغراض کیلئے کیا کیونکہ ان کی رخصتی قریب تھی۔ اشرف غنی نے جونہی منصب صدارت کا حلف اٹھایا تو معاہدے پر دستخط کردیئے۔ چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اشرف غنی دراصل ان ہی کے دستخط سے صدر بنے ہیں ۔عبداللہ عبداللہ خود مہرہ ہیں، البتہ اشرف غنی پر خوب رعب جما رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اشرف غنی حکومت چلانے کے اہل نہیں ہیں ۔ اہل تو کوئی نہیں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی تشکیل کی ہوئی حکومت ہے جس میں ، جس کا جتنا بس چلا اپنا حصہ بٹورلیا۔عبداللہ عبداللہ نے خود کو چیف ایگزیکٹو بنانے کی ہٹ دھرمی دکھائی اور جان کیری نے معاً ان کی تمنا پوری کر دی ۔ آئین اور افغان عوام کی رائے کے برخلاف ’’چیف ایگزیکٹو ‘‘ کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ اس طرح عبد اللہ عبد اللہ اشرف غنی کی حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئے۔ وزارت داخلہ و خارجہ سمیت آدھی وزارتیں تو عبداللہ عبداللہ کے ہم خیال لے چکے ہیں۔ حیرتناک واقعہ تو حالیہ ‘‘وارساکانفرنس‘‘ میں پیش آیا جہاں افغانستان کی نمائندگی صدر یعنی اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹویعنی عبداللہ عبداللہ نے کی۔ گویا افغانستان کی نشست پر دونمائندے جلوہ افروز ہوئے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت کتنی آزاد اور خودمختار ہے۔چنانچہ ایک غیر نمائندہ حکومت جہاں ہو وہاں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بناؤ کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔گو یا جن کی افغان حکومت پر بالادستی قائم ہے وہ بھارت ہے اور بھارت کی فطرت شر وفساد سے لبریز ہے۔ بہر کیف پاکستان اور افغان عوام کے درمیان جس نفرت اور ٹکراؤ کا ماحول بنانے کی جس جانب سے بھی مکروہ تدبیر یں ہورہی ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گی۔ باب دوستی بند کرکے جس طرح عوام کا معاشی قتل و استحصال ہوا ، اس کیلئے یہ شرپسند لوگ اور ان کو اُبھارنے والے ذمہ دار ہیں۔
بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں ایف سی چیک پوسٹ پردہشت گرد حملے میں 4 اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ ترجمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں حملے میں ایک ایف سی اور3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے، تفصیلات کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔ فورسز اور دہشت گ...
بلوچستان میں پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 میجر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹربلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں 2 پائلٹ سم...
مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...
بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے جس سے صوبے کے بیشتر علاقے بجلی کی بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب گئے، تمام مواصلاتی نظام سمیت فضائی راستے بھی منقطع ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں مسلسل 30 گھنٹے سے زائد دیر تک کبھی تیز کبھی ہلکی بارش کا...
وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی، تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان کے دستخطوں سے جمع کروائی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق بدھ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خا...
کراچی سے چھینی اورچوری کی گئی فور وہیل گاڑیوں کے بلوچستان کی آئل فیلڈز میں استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔پولیس حکام نے بتایا کہ گزشتہ دنوں شارع نور جہاں سے ایک کار لفٹر منظور عرف بافا کو گرفتارکیا تو اس نے انکشاف کیا کہ اس نے 5 سالوں (جنوری 2017 سیاکتوبر 2021 تک) میں کم از کم 35نئی فو...
2022 کے پہلے مہینے میں ملک کی امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی اور ملک میں دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملوں میں معمولی کمی آنے کے باجود ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں موجود ایک آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ س...
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بلوچستان میں آئندہ حکومت سازی کیلئے متحرک ہوگئے، مولانا فضل الرحمان سے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے ملاقات کی جس میں مولانا عبدالغفورحیدری، مولانا عبدالواسع، آغا محمود شاہ، کامران مرتضیٰ ، اپوزیشن لیڈر کے پی کے اسمبلی اکرم خان درانی ا...
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز (پکس) کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا۔ پکس کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے 294 واقعات میں 376 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 606 ...
حق دوتحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو تین سال کیلئے جماعت اسلامی کا صوبائی جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا۔ امیرجماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی نے ذمہ داران وشوریٰ اراکین کی مشاورت سے حق دو تحریک کے قائد عالم دین حضرت مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو2021تا2024تین سال...
بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کی جانب سے چیک پوسٹ پر حملہ کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کا چیک پوسٹ پر حملے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دوسیکیورٹی اہلکارجام شہادت نوش کرگئے،لائس نائیک منظرعباس شہید کا ...
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے افسران اور اسٹاف سے الوداعی ملاقات وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے افسران اور دیگر اسٹاف کی جانب سے جام کمال خان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار۔تفصیلات کے مطابق جمعرات کو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے...