وجود

... loading ...

وجود

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

جمعرات 01 ستمبر 2016 سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

Separation-Church-State

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔

تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور نئی دنیا کا ایک مفصل نقشہ بناتی اور بتاتی رہی ہے، اس میں جب وہ یہ بتائے کہ ”کیا نہیں ہونا چاہیے“ تو یہ سیکولرزم ہے اور جب یہ بتائے کہ ”کیا ہونا چاہیے“ تو یہ لبرلزم ہے۔ جب جدید عقل یہ بتا رہی ہو کہ ”کیا نہیں ہونا چاہیے“ تو اس وقت اس کی نظر مذہب پر گَڑی ہوتی ہے اور یہ سیکولرزم کی فکری تشکیلات کر رہی ہوتی ہے جن کا تعلق زیادہ تر سیاسی اور اجتماعی دائرے سے ہے۔ یہ ایک سیاسی آئیڈیالوجی ہے۔ جدید عقل کے پیدا کردہ سیاسی اور معاشی دعووں کو براہ راست چیلنج مذہب سے آتا ہے، اس لیے اس کا ”بندوبست“ اول اول ضروری ہے۔ توہم پرستی کیونکہ سیاسی دعوے نہیں رکھتی اس لیے سیکولرزم اسے قبول کر لیتا ہے اگرچہ وہ عقل کے اپنے قائم کردہ ٹھیٹھ معیارات کے برخلاف ہوتی ہے، جیسے اس نے آج کل سائنٹالوجی کو گود لیا ہوا ہے۔

اور جب جدید عقل یہ بتانا چاہے کہ ”کیا ہونا چاہیے“ تو نگاہ میں مراداتِ نفس انسانی اور دنیاوی آرزؤں کی قوس قزح ہوتی ہے۔ یہ قوس قزح امید کی اس واحد کرن سے پیدا ہوتی ہے جسے عقل یرغمال بنانے اور سفاک تاریخ کے نیم تاریک افق پر گھڑی بھر کو رنگ برنگ دکھانے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن افسوس کہ امید عقل کی یرغمال بنتے ہی مر جاتی ہے۔

سیکولرزم میں دیگریت کا پہلو نمایاں ہے اور دیگر کے بغیر سیکولرزم اپنی تشکیل نہیں کر پاتا، کیونکہ reflexive reason اس کے عین مرکز میں متحرک رہتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر سلبی ہے اور جدید انسان کے ”لا“ کا کل حاصل ہے۔ لبرلزم میں دیگریت کا عنصر نہیں ہے اور یہ اغلباً ایجابی ہے۔ لیکن چونکہ عقل کے بنائے ہوئے سارے نظریات عدم استحکام کا شکار ہو جاتے ہیں، لٰہذا تاریخی دباؤ میں لبرلزم بھی دیگریت سے بچ نہیں سکتا۔ اگر لبرلزم میں دیگریت داخل ہو جائے تو یہ فسطائیت ہے۔ یعنی تاریخ اور فطرت سے خوشحالی اور خوشیاں کشید کرتے ہوئے جدید اور غلبہ جُو انسان ”دوسرے“ کو پسند نہیں کرتا جو کباب میں ہڈی کی طرح ہوتا ہے۔ لبرلزم اپنے جوشِ کسب و حصول میں اس ”دوسرے“ کا وجود اپنی خوشیوں اور خوشحالی میں رکاوٹ قرار دیتے ہی فسطائیت بن جاتا ہے، کیونکہ حصول کی مکمل کامیابی کے لیے دوسرے کا خاتمہ ضروری ہے۔ لبرلزم جدید انسان کا ”لا“ کے بعد کا سفر ہے۔ فسطائیت، لبرلزم اور رومانویت کا مجموعہ ہے،اور “ریفلیکسو ریزن” رومانویت کا مجموعہ ہے، یعنی لبرلزم میں نفسی داعیات کی شدت کی وجہ سے نسل اساس رومانوی کبر وادعا غالب آجاتے ہیں۔

سیکولرزم میں عقلی داعیات غالب ہوتے ہیں اور مقتدائے عقل ماسوا کو قبول نہیں کرتا۔ لبرلزم میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی نفسی داعیات غالب ہوتے ہیں، جن میں شناخت کا رول مرکزی ہوتا ہے اور جو اصلاً نسلی ہے۔ اگر لبرلزم کے جذبۂ حصول پر شناخت، یعنی نسلی شناخت، غالب آ جائے تو فسطائیت نمودار ہو جاتی ہے۔

لبرلزم بنیادی طور پر نفس کی آٹونومی اور ارادے کی حریت کا علمبردار ہے، اور سیکولرزم ان کا مذہب سے محافظ۔ نفس کی آٹونومی کا مقصود لذت ہے، اور حسن و قبح اہوائی ہے، اس لیے اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کا یہاں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، اور ذوی الارحام سے جنسی تعلق اور کتے، گھوڑے وغیرہ جانوروں سے جنسی تعلق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ سماجی اور معاشی دائرے میں ارادے کی حریت کی توسیط قانون سے ہوتی ہے اور اجتماعی سیاسی دائرے میں صرف سیاسی طاقت سے۔ آئیڈیا اور قدر یہاں بھی غیر حاضر ہیں۔ سیکولزم اور لبرلزم سے بننے والے سیاسی، معاشی اور فوجی نظام میں سائنس معمار اور مزدور ہے اور فکری علوم اس کا سیوریج سسٹم ہیں، جو اس پورے سسٹم کے وجودی تعفن کو دور رکھنے اور اسے مسلسل پوچی لگا کے چمکانے کا کام کرتے ہیں۔

سیکولرزم کا روئے سخن خدا کی طرف ہے کہ تو نہیں ہے، بالکل بھی نہیں ہے، اور لبرلزم انسان سے مخاطب ہے کہ صرف تو ہی تو ہے، اور کوئی نہیں ہے۔ جب ”اور کوئی“ آ دھمکے تو دیکھتے ہی دیکھتے لبرل دنیا کسی ہٹلر، مسولینی، ہنری کسنجر، ریگن، تھیچر، ٹونی بلیئر، اور بش کو آواز دیتی ہے۔ ہم عصر دنیا میں یہ آوازیں لبرلوں کی چنگھاڑ اور کمزوروں کی آہ و بکا بن گئی ہیں، اور کسی بڑی جنگ کے کابوس پرے کے پرے بن کے اُترنے والے ہیں۔


متعلقہ خبریں


بنگلادیش سیکولر ازم کیلئے تیار، قومی مذہب اسلام نہیں رہے گا وجود - جمعه 22 اکتوبر 2021

بنگلا دیش کی حکمران جماعت ملکی آئین کو سیکولر ازم کی جانب واپس لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حکومتی وزیر مراد حسن نے بتایاکہ1972 کے سیکولر آئین کی طرف پلٹنے کیلئے نئی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اس ترمیم کے بغیر کسی رکاوٹ کے ایوان سے منظور ہو...

بنگلادیش سیکولر ازم  کیلئے تیار، قومی مذہب اسلام نہیں رہے گا

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور تربیت محمد دین جوہر - پیر 19 ستمبر 2016

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...

جدید تعلیم اور تربیت

جدید تعلیم اور نصاب محمد دین جوہر - هفته 17 ستمبر 2016

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...

جدید تعلیم اور نصاب

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل محمد دین جوہر - جمعه 16 ستمبر 2016

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جدید تعلیم اور امتحانات محمد دین جوہر - اتوار 11 ستمبر 2016

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...

جدید تعلیم اور امتحانات

جدید تعلیم کیا ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 08 ستمبر 2016

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...

جدید تعلیم کیا ہے؟

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

فرانسیسی عدالت کا تاریخی فیصلہ، 'برقینی' پر پابندی ہٹا دی گئی وجود - هفته 27 اگست 2016

فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسلمان خواتین کے لیے تیار کیے گئے تیراکی کے لباس "برقینی" پر عائد سرکاری پابندی کے خلاف تاریخی فیصلہ دے دیا ہے اور اس پابندی کو "بنیادی آزادی کی سنگین اور کھلم کھلا غیر قانونی خلاف ورزی قرار دیا۔" یہ مقدمہ انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس لیگ' نے...

فرانسیسی عدالت کا تاریخی فیصلہ، 'برقینی' پر پابندی ہٹا دی گئی

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر