... loading ...
برہان مظفر وانی کی’’ مشکوک اور مبہم پولیس کارروائی ‘‘کے نتیجے میں ہوئی موت نے کشمیر کی سیاست اور عسکریت میں بلا مبالغہ زلزلہ برپا کردیا ہے ۔یہ تصور کسی بھی شخص نے سرینگر سے لیکر دلی تک نہیں کیا تھا کہ حزب المجاہدین کے ایک نوجوان کمانڈر کی موت پر ایسی ہلچل پیدا ہوگی کہ سرینگر سے لیکر نیویارک تک بڑے بڑے لیڈر اور رہنما بھی حیرت میں ڈوب کر اپنی بے بسی اور بے کسی کا مظاہرہ کریں گے ۔آج کل ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال چھایا ہوا ہے کہ آخر ایک بندوق بردار نوجوان کی شہادت پر ایسا طوفان کیوں برپا ہوا کہ سترسے زیادہ نوجوان احتجاج کرتے ہو ئے شہید ہو گئے ،پانچ سو سے زیادہ نوجوان’’ پیلٹ گن کے چھرے ‘‘لگنے سے بینائی سے ہی محروم ہو گئے اور دس ہزار سے بھی زیادہ زخمی جبکہ گرفتاریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے ؟میرا خیال ہے کہ پہلے ہمیں برہان وانی کے والد بزرگوار مظفر وانی کے اس بیان کو پھر یاد کرنا ہو گا جو انھوں نے ہندوستان کی کئی نیوزایجنسیز کو اپنے پہلے بیٹے کی شہادت پر دیا تھا کہ برہان کا عسکریت میں شامل ہونے کا سبب ’’ریاستی جبر‘‘ہے ۔
ریاستی جبر کی یہ آواز کشمیر میں 1947ء سے لیکر اب تک یعنی2016ء تک باربارسنائی دی مگر ’’دلی میں برسراقتدار مہاجنوں‘‘نے کبھی بھی اس کمزور آواز پر کان دھرنے کی کو شش نہیں کی ۔مرحوم شیخ محمد عبداﷲ سے پہلے اور ان کے بعد بھی لوگوں نے نہ صرف دلی والوں تک ہزار ہا طریقوں سے یہ بات پہنچانے کی کوشش کی مگر دلی والوں نے کبھی بھی اس کی شنوائی تو درکنار سن لینے کی بھی اطلاع کشمیریوں کو نہیں دی ۔ غالباََمرحوم شیخ محمد عبداﷲ نے دلی کے اس رویہ سے تنگ آکر ہی ان کے سامنے گٹھنے ٹیک دئیے تھے اور دلی اب تک کشمیر میں آئی وسیع ذہنی اور فکری تبدیلی کو سمجھنے میں ناکام رہ کر کشمیر کے ناسور کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنے کے برعکس خود ’’پچاس اور ساٹھ کی دہائی ‘‘کے طور طریقوں سے ہی ہر نئی شورش کو دبا کر بزعم خویش کامیاب ہو جاتی ہے حالانکہ یہ بدترین عقلی اور فکری دیوالیہ پن کی بین دلیل ہے ۔ حیرت کاعالم یہ کہ ریاستی جبر کے ذیل میں پیدا شدہ مسائل کا ذمہ دار بھی مظلوم کو ہی قرار دیا جاتا ہے ۔دورِ حاضر کا نیا المیہ یہ ہے کہ اب ’’دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ‘‘لفظ ریاست کو ایسی مقدس گائے منوانے کا احمقانہ عقیدہ پال رہا ہے کہ ان کے نزدیک اس ’’مقدس گائے کے گوبر‘‘ کو مقدس نہ ماننے والا بھی ’’دہشت گرد نہ صحیح دہشت گردی کو تقویت پہنچانے والا ایک سبب بن جاتا ہے ۔ان کے خیال میں ’’ریاست‘‘کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جب ،جیسے اور جس طرح بھی کسی کو چاہے جینے یا نہ جینے کا فیصلہ کر سکتی ہے، ان کے نزدیک ’’حق اور صداقت کا میعار‘‘ہی ریاست ہے ۔دلی کا دانشور طبقہ اس فکری اور شعوری زوال کابری طرح شکار ہوا ہے جس کا خوب مظاہرہ اُنھوں نے شہید برہان کے قتل کے بعد تمام ٹیلی ویژن چینلز پر اس مرتبہ کیا ہے۔ اس لئے کہ ماضی کے برعکس اس دفعہ دلی کے ’’تختہ شاہی‘‘پر وہ نریندر مودی براجمان ہے جس کے نزدیک کشمیر کے قتل عام کے حوالے سے ’’متکبرانہ چپ‘‘مسئلے کا وہ اعلیٰ عقلی حل ہے جس تک اس سے پہلے کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کورسائی نہیں ہوئی تھی ۔
دلی کی کشمیر کے تئیں ’’گھمنڈ سے بھرپور پالیسی ‘‘کا نتیجہ ہی یہ تھا کہ کشمیر کے معروف سیاسی رہنماؤں یاسیاسی اورپر امن ذرائع سے مسائل کے حل پر یقین رکھنے والے سینکڑوں کارکنوں نے بندوق تھام کر اپنے لئے پر خطر میدان کو شعوری طور پر منتخب کر لیا جن میں چند ایک کے نام یہ ہیں سید صلاح الدین احمد(چیرمین جہاد کونسل)شہید شمس الحق (امیر حزب المجاہدین)شہید ریاض الرسول،شہید غازی نصیب الدین ،شہید، برہان الدین حجازی،شہید اشفاق مجیداور شہید شیخ عبدالحمیدوغیرہ ۔یہ اور اسی طرح کے ہزارہا لیڈران اور کارکنان 1990ء تک صبر و ضبط کا دامن تھامے اس انتظار میں تھے کہ شاید آج نہیں تو کل نئی دہلی کا’’اندھابہرہ حاکم‘‘ان سے کئے گئے وعدوں کونبھا لے گا ۔مگر ان کی ہر آواز صدا بہ صحر ثابت ہوئی ۔کسی نے اس پر کان نہیں دھرا بلکہ اس کے برعکس ان کے لئے جیلوں کے دروزے کھولے گئے جہاں تشدد اور توہین سے ان سیاسی لیڈران اور کارکنان کی تواضع کی گئی ۔عقل حیران رہ جاتی ہے دلی کی بے شرمی اور حیا سے عاری رویہ پر !1990ء تک جو لوگ سیاسی میدان میں ’’مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے تھے‘‘انھیں دلی کی ظالمانہ پالیسی نے جب بندوق کی جانب دھکیل کر سرحد پار پہنچا دیا اور پوری ریاست آگ وآہن کی زنجیروں میں پھنس کر برباد ہو گئی تو نئی دلی میں خواب خرگوش میں مست حکمران جاگ اٹھے اور حل کے برعکس ’’نئی ساحرانہ پالیسی ‘‘کا آغاز سونے کی زنجیریں لہرا کر لیڈروں کو اپنے دام میں پھنسانے کی مکروہ اور طفلانہ طریقوں کی ابتدا کی گئی، یہ سوچتے ہو ئے کہ جب کشمیر کا ایک شیخ بائیس برس بعد پھنس سکتا ہے تو کل کا صلاح الدین اور یسٰین ملک کیوں نہیں؟دلی ہر نئی تحریک کو پرانے حربوں سے رام کرنے کی بیہودہ پالیسی پر اب تک کاربند ہے حالانکہ کشمیر کے دریائے جہلم سے اب پانی کے ساتھ ساتھ کافی خون بہہ چکا ہے آج خدانخواستہ اگر بڑے سے بڑے لیڈر بھی دلی کے اشاروں پر بک سکتا ہے تو بھی تحریک کشمیر پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا ۔
پر امن سیاسی میدان سے مایوس ہو کرجب کشمیری ’’عسکری میدان‘‘میں آگئے اور کئی حضرات گرفتار ہو گئے تو دلی کا ’’بد باطن حکمران اور بیوروکریٹ طبقے‘‘ کے اشارے پر بہت سارے لوگ مختلف آڑ لیکر میدانوں ،پہاڑوں ،جنگلوں اور جیلوں میں مختلف پیشکشوں کے ساتھ پہنچنے لگے جن میں پہلی پیش کش بندوق سے دست کش ہو کر سیاسی میدان میں آکر ’’پرامن حل‘‘کی جانب بڑھنے اور حالات اس کے موافق بنانے کی تھی ۔بعض حضرات نے دلی پر بھروسا کرتے ہو ئے سیاسی راہ کو منتخب کر لیا مگر آج وہی حضرات ببانگ دہل دلی کو بے وفا اور بے بھروسہ قرار دیکر صاف صاف کہتے ہیں کہ دلی دراصل کشمیریوں کا وقت ضائع کرتے ہو ئے معاملے کو لمبا کرنا چاہتی ہے تاکہ نئی نسلیں مایوس ہو کر اپنی راہیں بدلنے پر مجبور ہو جائیں ۔بھارتی حکمران اب تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ کشمیری تھک ہار کر ’’مسئلہ کشمیر‘‘سے پلہ جھاڑ لیں گے ۔یہ غلط فہمی ان میں’’نریندر مودی‘‘کے برسراقتدار آنے کے بعد اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب وہ مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر ’’بھگوا فورس‘‘کے دانشوروں کو بٹھا کر کھلے عام کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہو ئے بھارتی رائے عامہ کو ان کے خلاف کھڑا کر کے ’’جاری قتلِ عام‘‘کا جواز فراہم کرنا چاہتی ہے ۔
عقل اس پاگل پن پر حیران ہے کہ آخر ایک مظلوم قوم کی بربادی کے بعد اس کے ساتھ اس قدر بھیانک مذاق اور استہزاء کیوں؟بندوق والوں سے کہا جاتا ہے کہ بندوق چھوڑ کر پرامن طریقوں کو اختیار کرتے ہو ئے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے میں مدد دیدو،پر تشدد مظاہرین سے کہا جاتا ہے کہ پر امن مظاہرے کرو پر تشدد نہیں ،جبکہ پر امن مظاہرے کرنے والے حریت لیڈران کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ہے اور پوری ریاست میں ان کے کارکنان کو ڈھونڈ کر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ آزادی پسندوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر کچھ دلی سے حاصل کرنا ہے تو مین اسٹریم میں آجاؤ جبکہ مین اسٹریم میں آئے لوگوں کو نہ اٹانومی ملی نہ ہی سیلف رول ،بلکہ ٹھینگا دکھا کر انھیں اپنی اوقات ایسے وقت میں یاددلادی جب وہ نہ ہی حریت کیمپ میں جاسکتے ہیں نہ ہی مین اسٹریم سے باہر نکل سکتے ہیں ۔کشمیر میں دغا اوردھوکے کی یہ سیاست اس قدرمشہور ہے کہ شیخ صاحب ،فاروق عبداﷲ اور مفتی سعیدجیسا ہندنواز وقت بے وقت اس کا دکھڑا بیان کرتا رہا ۔حتیٰ کہ سید علی گیلانی صاحب کے بقول شیخ صاحب یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’دلی والے بھروسے کے قابل نہیں ہے‘‘۔
کشمیر کی نئی نسل عسکریت میں تب جوان ہوئی جب ان کے گردوپیش میں ’’جہاد اور مجاہدوں کے قصے‘‘بیان کیے جاتے ہیں ،افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی طاقتور افواج کے کھدیڑنے سے متعلق واقعات ان کے کانوں میں پڑے ہیں ،عراق میں امریکیوں کا ظلم بیان کیا جاتا ہے ،فلسطین کی تحریک سے غذا پہنچائی جاتی ہے ،اور پھر اس کو یہ بتا دیا جاتا ہے کہ کشمیر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو 1990ء سے اب تک قتل کیا جاچکا ہے ۔دس ہزار لا پتا کر دئیے گئے ہیں ،کئی لاکھ کو انٹروگیشن سینٹروں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے اور کئی جسمانی طور پرنوخیز ،عصمت ریزی کے روح فرسا واقعات اس کے کانوں میں پڑتے ہیں تو وہ تنگ آکر ردعمل کا شکار ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سو مایوسی کے بعد وہ اب ایک آخری قدم اٹھانے کا متمنی اور متلاشی نظر آتا ہے کہ آخر میری قوم اس ذلت ناک حالت میں ہی کیوں جیتی رہے گی ؟ اس سب پر دلی کا متکبرانہ رویہ آگ کا کام انجام دیتا ہے اور نئی نسل دلی کے تکبر کو توڑنے کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں ۔پرامن ذرائع اور طریقے اگر موجود اور میسر ہو تے تو شاید اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔
امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...
بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...
بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...
جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...
امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...
بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...
مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...
بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...
بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...
بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...
یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...