... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
راجہ ممریز کے ہاں سے واپسی پر میرے ذہن میں تقدیر سے متعلق بہت سے سوالات منڈلاتے رہے۔میں ان کی زندگی کو لمحوں کی ایک ایسی خطا سمجھتا ہوں جس کی سزا صدیوں کو ملی۔عبدالقادر بھی غیر محسوس طریقے پر تمام مسافت کے دوران میں چپ تھا۔اسے ممکن ہے راجہ ممریزکے بارے میں کچھ کچھ معلوم ہو مگر وہ ان کے پنڈی کے پس منظر اور پنجاب کے عظیم شاعر وارث شا ہ کے بقول ’’د کھ درد وچھوڑے عمراں دے عاشقاں صادقاں دی تقدیر ہووے ـ‘‘کا کوئی درد اور ادراک نہ رکھتا تھا۔اس کی سرخ آنکھوں کے بارے میں میرے سوال پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رات بھر تاش کھیلتا رہا ہے ۔
یروشلم پہنچ کر اس نے مجھے ہوٹل اُتارا اور خود اپنی نیند کی کمی پوری کرنے گھر چل دیا۔ہوٹل کی لابی میں مجھے دیکھ کر منیجر رفیق صاحب اپنی سیٹ سے اچھل پڑے اور بھاگ کر میری طرف آئے ۔ میری سلامتی کی انہیں فکر تھی۔یہ تفکر ان کے چہرے پر بھی عیاں تھا اور تواتر سے پوچھے گئے سوالات میں بھی ۔میں نے انہیں جب حلحول میں اپنے قیام شب کا بتایا تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔اُن کا اصرار تھا کہ ایسی کوئی نوبت آئے تو میں انہیں ضرور بتاؤں۔اُن کا خیال تھا کہ میں بے رحم موساد کے ہاتھ لگ گیا ہوں۔وہ کہہ رہے تھے کہ اسرائیل میں سنگ دل قانون تو بہت ہے مگر حقوق نہیں۔ان کے ہاتھ لگ جاؤ تو زندہ برآمد ہونا مشکل ہے۔ان کے چہرے پر تفکرات اور ان کے جذبات میں امڈتی سچائی دیکھ کر مجھے معافی مانگنے میں اور جلدی سے کمرے کا رخ اختیار کرنے میں ہی عافیت دکھائی دی۔شاور لے کر کپڑے تبدیل کرکے میں جب ٹیرس پر آیا تو دن ابھی اپنے شباب پر تھا۔میرا دل نہ چاہا کہ میں یہ عرصہ اس کمرے میں گزار کر وقت ضائع کروں اُنہیں لمحات میں مجھ پر یہ کوتاہی عیاں ہوئی کہ میں نے یہاں کی اہم ترین عمارت دیوار گریہ تو ابھی تک نہیں دیکھی۔یہ سوچنا تھا اور اگلے دس منٹ میں خاکسار یروشلم مکی سڑکوں پر موجود تھا۔ دیگر شہروں کی نسبت یروشلم میں ایک اپنائیت ہے۔میں اس کا نفسیاتی تجزیہ کروں تو اس کے عوامل میں فلسطینیوں کی خود داری،دلبری، مجبوری،مظلومیت کے ساتھ ساتھ اس شہر کی وقت کے ساتھ مسلسل ہم آغوشی اور تاریخی بہاؤ کا بھی بہت ہاتھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے یہاں کے لوگوں سے ایک فطری میلان محسوس ہوتا ہے۔۔یروشلم نے مجھے دوست کے گلی محلے اور بیٹھک کی مانند اپنا لیا ہے۔ یوں تو ہر شہر کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔آپ کی طبیعت کے سُر اس شہر کے مزاج سے مل جائیں تو یہ احساس یگانگی محسوس ہوتا ہے۔
مجھے اور میرے دوست اقبال دیوان کو نیویارک کی جدیدیت ، دولت اور امارت میں ایک شور اور آپ کو دبوچ لینے والی خصلت کا احساس ہوتاہے۔ لندن بہت گستاخ اور نسل پرست ہے اور برسلز کا ذائقہ بیمارکے سوپ جیساہے ۔ان سب سے ہٹ کر یروشلم ایسا ہے کہ جیسے لڑ کی میکے میں آگئی ہو یا بھٹکا ہوا داد محمد یونان سے خجل خوار ہونے کے بعد واپس پنڈ دادن خان آگیا ہو۔یہاں تکلف برطرف ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس کی ہواوں کا ہر جھونکا آپ کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔آج اس کی تنگ گلیوں سے گزرا تو اس میں ایک عجب سی اپنائیت کا احساس ہوا۔میں نے اس کی تین بڑی نشانیاں ازبر کرلی ہیں۔ یہ تینوں حیرت ناک طور پر مذہبی عمارات ہیں۔ایک تو ہماری اپنی مسجد اقصیٰ ہے دوسرا کلیسہ آلام ہے اور تیسری وہ آہوں سے تپتی ہوئی اوراشک ہائے عصیاں سے تر دیوار گریہ۔یہ ایک دوسرے کی ضد میں سب کی سب ایک کلو میٹر کے دائرے میں گھسی ہوئی ہیں۔شہر والوں نے سوچا ہے کہ اہل عقیدت خود ہی تقدیس کے شیرے میں لتھڑے اور اپنے جنون کی راستی پر مُصرانہیں ڈھونڈ لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نشاندہی کے لیے کوئی بورڈ کہیں نصب نہیں۔قربتوں میں دوری کا یہی ادراک بے پایاں ہے جو میرے سفر نامے کا عنوان بنا ہے۔میں نے بھی قانون کی مناسبت سے جس میں ایک اصطلاح ADVERSE POSSESSION طویل جبری قبضہ استعمال ہوتی ہے جسے مناسب قانونی اہلیت نہ ہونے پر عدالت بادل ناخواستہ قابض کے حق کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔ یہ قبضہ سر دست مملکت اسرائیل کا ہے۔ اہل یہود کو اپنے اصل دشمن عیسائی اتنے بُرے نہیں لگتے جنہوں نے ان کی بستیاں تاراج کردی تھیں۔ قیمتی خزانے لوٹ لیے تھے۔ ان کا داخلہ یروشلم میں مدتوں ممنوع قرار د ے رکھا تھا ،کیوں کہ وہ تو وطن چھوڑ کر یورپ ،آسٹریلیا ، کینیڈا اور امریکابھاگ رہے ہیں مگر فلسطینی اور عرب مسلمان ان کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے اسے اپنا مرکزی نقطۂ حوالہ بنایا ہے۔
اس ایک کلومیٹر میں پتھریلی ، بل کھاتی اوپر نیچے ہوتی گلیوں کا جو جال ہے وہ ایک عام سیاح کے لیے بہت اُلجھاؤ کا باعث ہوسکتا ہے مگر ایک دفعہ محلِ وقوع سے آشنائی ہوجائے تو کھیل بچوں کا ہوجاتا ہے۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں کیسے ؟دمشق گیٹ سے آپ سیدھے چلتے چلے آئیں تو ایک سہ راہا آجاتا ہے۔دھیان رکھیں یہ پہلا سہ راہا ہے۔بائیں جانب مڑجائیں تو مسجد اقصیٰ آجاتی ہے۔دائیں ہاتھ کا مڑنا آپ کو کلیسۂ آلام تک لے جائے گا اور سیدھے چلتے جائیں تو دیوار گریہ آپ کا راستہ روک لے گی۔
کلیسۂ آلام Church of Sepulchre کے ارد گرد حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مسجد اقصیٰ کے محافظ تھوڑے اور جذبۂ ایمانی سے لیس ہیں۔ مگردیوار گریہ کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کے احاطے میں داخل ہونا ایسا ہے گویا آ پ سندھ یا پنجاب پولیس کے آئی جی صاحب کے دفتر یا نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہورہے ہیں ۔جا بجا فوجی ، ہر طرف دھاتی کھوجی(metal detectors)۔سادہ لباس، رنگیں ادا غنچہ دہن ،شیریں سخن خفیہ پولیس کی Kerv Maga میں سیکھی سکھائی سیاح نما حلف یافتہ کارکنان بقول چچا غالب ع اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
آزمائش اور احتیاط کے ان سب مراحل سے گزر کر میں ایک بڑے سے احاطے میں آن پہنچا۔اس احاطے کے سامنے سیدھے ہاتھ کی جانب یروشلم کے یہود کا علاقہ ہے اور بائیں جانب دیوار گریہ۔یہاں سیاحوں کے درمیان اسرائیلی خفیہ پولیس کے اہل کار یوں گھل مل گئے تھے جیسا ہماری طرف کی عورتوں کی آنکھ میں کاجل۔بہ لباس درست فوجی ان کے علاوہ تھے۔
دیوار گریہ کی زیارت پر کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں لیکن ہفتے والے دن جو اہل یہود کا یوم السبت ہے، اس دن صرف یہود ہی یہاں آسکتے ہیں۔ مشتاقان دید کے لیے ستر پوشی کی شرط البتہ ہمارے مدرسوں والی ہے۔ٹی شرٹ اور نیکروں میں مرد اور عورتیں دونوں ہی نہیں آسکتے ،عورتیں ٹخنوں کے اوپر والے اسکرٹ پہن کر نہیں آسکتی ہیں۔آدھی آستین مرد کی ہو یا عورت کی ، دونوں پر پابندی ہے۔سر ڈھانپنا دونوں کے لیے لازم ہے۔
سعودی عرب اور ایران کی طرح ان کے شرطے (مذہبی پولیس ) بھی بہت سنگ دل اور حجت ناآشنا ہیں۔وہ تو بھاولپور کے آموں پر قربان جائیے کہ پاکستان میں بچت ہوگئی اور بقول اس وقت صدر بننے والے غلام اسحق خان کے جنرل صاحب کا جہاز ہوا میں ’’پٹ ‘‘گیا۔ ورنہ بقول قیوم نظر
ان کے شرطوں میں ایک یہ زمین بھی نئی نکلی ہے کہ ان مذہبی پولیس والوں میں چاق و چوبند خواتین بھی حفاظت دین یہود کے لیے بھرتی کی گئی ہیں۔مجال ہے ان کی دید بانی اور دیدہ دلیری سے کوئی بچ کر اپنی مرضی کا لباس پہن کر یہاں آجائے۔بحث کی ان کے پاس بھی گنجائش نہیں۔لباس درست نہیں تو دید کا یارا بھی نہیں۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں تو پولیس کے جو اسپیشل یونٹوں میں چن چن کر تیری میری بیبیاں بھرتی کی گئی ہیں وہ نقلی برانڈز کے پرس اور چشمے لگا کر اصلی ہتھیاروں سے سیاست دانوں کے اپنے جیسے بیٹوں کی حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے ۔ ان کے محافظین خصوصی کی پوسٹنگ اگر یہاں دیوار گریہ پرہوتی اور ان کی ڈیوٹی کے دوران میں یہودی عقیدے کے مطابق دیوار کے اس پار سے کانا دجال آکر دنیا کو تہس نہس کردیتا تو اپنے سیاسی تعلقات کے نشے میں سرشار ان پولیس والیوں کو اس کی آمد کی اطلاع بھی سما ٹی وی کے خبر نامے سے ملتی۔
اہل یہود کے ہاں دیوار گریہ سب سے مقدس مقام تصور کیا جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت داؤد علیہ السلام کی آمد سے ایک ہزار سال پہلے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔اسے بابل کے بادشاہ نے تعمیر کے 586 سال بعد برباد کردیا، ستر سال بعد یہودی کچھ آسودہ حال ہوئے تو پھر سے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کا آغاز ہوا۔یہاں ان کے بادشاہ ہیرڈ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی آمد سے انیس برس قبل بہت توسیع اور ترقی کا کام کیا۔اس کے بعد روم کے بادشاہوں کی جانب سے ایک اور عذاب نازل ہوا اور اس کو لوٹ کر تاراج کردیا گیا۔ان کا تابوت سکینہ بھی اسی دوران غائب ہوگیا۔موجودہ دیوار چونکہ اس احاطے کی بیرونی دیوار تھی، لہذا اسے درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔یہودیوں کے لیے وہ اس ہیکل سلیمانی کی آخری نشانی ہونے کی وجہ سے مقدس ترین مقام بنی ہوئی ہے۔
جب رومی یہاں حکمران بن گئے اور بعد میں یہ حکمران لادینیت چھوڑ کر عیسائیت کو اپنا بیٹھے تو انہوں نے یہودیوں پر بہت سختیاں کیں،یروشلم سے انہیں نکال باہر کردیا گیا۔ انہیں اس شہر میں سال بھر میں صرف ایک دفعہ آنے کی اجازت ملتی تھی۔اس محرومی پر یہودی بہت دل گرفتہ و گریہ ہوتے تھے۔ سال میں ایک دفعہ یہاں آتے تو دیوار کو لپٹ کر روتے تھے۔ عیسائی حاکمین اور ان سے وابستہ افراد کے لیے یہ بہت قابل تمسخر و تضحیک موقع بن جاتا۔انہوں نے ہی اس دیوار کو دیوار گریہ کا نام عطا کیا۔ خود یہودی اسے دیوارِ گریہ نہیں کہتے۔وہ اسے اپنی عبرانی زبان میں ’’ کوتل ‘‘ مغربی دیوار کا نام دیتے ہیں۔اس کی دراڑوں میں وہ اپنی دعائیں اور تحریری مطالبات اور منتیں اڑس دیتے ہیں۔یہ اب ایک اچھا خاصا بین الاقوامی کاروبار ہے۔وہ یہودی جو یہاں پہنچ نہ پائیں وہ ای میل کے ذریعے یہ دعائیں اور منتیں بھجوادیتے ہیں جو ان کی جانب سے یہاں اڑس دی جاتی ہیں۔میری تحویل میں بھی میرے ایک یہودی کرم فرما کی دی ہوئی ایک ایسی ہی منت ہے۔مجھے اسے کسی مناسب مقام پر ٹھونسنا ہے۔
جب میں ایسے ایک مقام کے قریب رکاوٹیں عبور کرکے پہنچا تو آہ و بکا اور عزا داری کا ایک عجب منظر تھا ، توریت کا باآواز بلند ورد جاری تھا۔اسی تگ و دو میں مجھے ایتھوپیا والے حضرت شائم آمون دکھائی دے گئے۔وہ بھی دیوار سے لپٹے ہوئے تھے۔ میں بہت خاموشی اور احترام سے ان کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا۔وہ اپنا سیاہ چہرہ دیوار کی جانب کیے دیوانہ وار کبھی آگے ہوتے تو کبھی پیچھے۔اِنہی حرکات میں ذرا توقف ہوا تو ان کا چہرہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھا۔ لمحے بھر کا توقف کیے بغیر انہوں نے با آواز بلند میری مذہبی رواداری، کشادہ دلی اور وسیع المشربی پر مسرت کا بے پایاں و بے حساب اظہار کیا ۔ وہ جتانے لگے کہ قدامت پسندمسلمان یہاں نفرت کے مارے نہیں آتے اور روشن خیال ڈر کے مارے۔ سو میں ان کے اپنے اندازے اور بیانیے کی رو سے کہیں درمیان میں بے خانماں حیرت و حسرت کا مارا، برباد کھڑا ہوں ساحل پہ۔(جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...