... loading ...
سال 77 ماہ اکتوبر کے دم توڑتے ایام تھے۔اسلام آباد کی خنکی میں ایک کوٹ یا سینٹ مائیکل کا سوئٹر پہن کرہمارا سول سروس کا دوست احمد حسین باجوہ جسے ہم کوتاہ قد ہونے کے باعث نکاّ باجوہ کہتے تھے۔ وہ بھی خود کو اداکار راجیش کھنہ سمجھنے پر آمادہ ہوجاتا تھا۔ اس وقت وہی مشہور ہیرو تھے۔ جنرل ضیاالحق خیر سے قوم سے نوے دن میں انتخابات کرانے کا اپنا پہلا وعدہ توڑ چکے تھے۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آب پارہ سے کچھ پرے ایم این اے ہاسٹل میں ہم نووارد آٹھ دس افسران کو سر چھپانے کا آسرا ہوگیا تھا۔ہر دوپہر ہم جمع ہوجاتے تھے کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھاتے۔ گھنٹوں بحث کرتے اور کم تنخواہ میں خوش رہتے تھے۔
ایک دن ہم پانچ افسر دوپہر کو جمیل کے پاس پہنچے۔ خیال تھا کہ کھانا کھائیں گے اور میلوڈی سنیما میں فلم دیکھیں گے۔ وہ وزارت مذہبی امور میں سیکشن افسر تھا۔مقابلے کے امتحان کے بجائے سیاسی بھرتی تھا،نکالے جانے کے خوف سے ان دنوں اسلام آباد کی گمنام بیوروکریسی کا حصہ بن گیا تھا ورنہ اس کی منزل تو ایف آئی اے تھی۔بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے اس میں وہ اکڑ فوں نہ تھی کیوں کہ اس کے سیاسی مہربان و مربی خود بھی دم دبائے بھاگے پھرتے تھے۔ ان دنوں وزارت مذہبی امور کا دفتر ایک ایسے بنگلے میں تھا جو بمشکل دو کنال کا اور نسبتاً ایک کم ٹونی علاقے میں تھا۔
جمیل اس دوپہر ہراساں اور سر پکڑے بیٹھا تھا۔وزارت خارجہ نے اسی صبح حضرت امیر خسرو کے عرس کے لیے بھارت کی منظوری کی اطلاع دی تھی۔ یہ منظوری اس حاکمانہ اصرار کے ساتھ سی ایم ایل اے یعنی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (C.M.L.Aجنہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا یونس پنجابی میں کملا بمعنی پاگل کہتا تھا) کی جانب سے موصول ہوئی تھی کہ چونکہ مارشل لا لگنے کے بعد یہ پہلا خیر سگالی وفد ہوگا لہذا اسے ہر قیمت پر جانا چاہیے۔وقت کی کمی کو بہانہ نہ بنایا جائے۔ پچھلے سال سے موجود درخواستوں کی وجہ سے پرائیوٹ ممبران جن کی تعداد ساٹھ کے قریب بنتی تھی انہیں اطلاع دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان کے لیے سات آٹھ سرکاری افسرانِ رابطہ کہاں سے مہیا کیے جائیں۔محکموں کو لکھا جائے تو بہت دیر ہوجائے گی۔
ریلوے کے پختون افسر شفیق نے تجویز پیش کی کہ ہفتے بھر کی بات ہے۔اگر وزارت خرچہ اٹھائے تو افسرانِ رابطہ تو اس کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اس خرچے میں آج کا کھانا اور فلم بھی شامل ہوگی۔میکن جو ہم سب میں جگاڑو تھا اس نے جمیل کو سجھاؤنی دی کہ سیکرٹری صاحب کے پاس ہمارے ناموں کی منظوری کا نوٹ بناکر لے جاؤ۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے نام ڈی ۔ او لیٹر بناکر سیکرٹری کا نام تو جانے کیا تھا مگر انہیں این ایچ جعفری ہونے کے ناطے سب ہی افسران Never Happy, Never Healthy, Never Helpful جعفری کہتے تھے۔بہت تگ و دو کے بعد پتہ چلا کہ ان کا اصل نام نور الحسن ہے ۔بہت قالین طبع ( یہ اس پیاری سی ریسرچ افسر چن جی کی اصطلاح تھی جس کی اسکالرشپ پر بیرون ملک روانگی وہ دو دفعہ مسترد کرچکے تھے )اکاؤنٹس گروپ کا ہونے کے ناطے ڈی ایم جی والے ان سے بہت دل گرفتہ اور رنجور رہتے تھے۔پانچ دس اعلی عہدوں پر وہ کسی نان ڈی ایم جی افسر کی تعیناتی جس میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری فنانس، پرنسپل سیکرٹری صاحبان اور خود سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا عہدہ شامل تھا، ایسے ہی سمجھتے تھے جیسے مسجد میں کسی سور کا داخل ہوجانا۔
این ایچ جعفری فائلوں پر ایسے پھونک پھونک کر قلم چلاتے جیسے غریب نابینا فقیر ریز گاری گنتا ہو۔ سیکریٹری صاحب نے منظور کردیا اور خط پر بھی دستخط کردیے تو مذہبی امور میں تعینات پختون جوائنٹ سیکرٹری صاحب کو اس سلسلے میں ہماری تجویز پر شفیق کے ذریعے اعتماد میں لیا گیا کہ وہ فون پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں تعینات خفیہ ایجنسی والے پختون برگیڈئیر فضل کریم سے این ایچ سے منظوری لے کر نوٹیفکیشن جاری کردیں۔خط کل صبح دستی طور پر مل جائے گا۔ہم اس نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد لاہور پہنچ گئے کہ ہندوستان روانہ ہوجائیں۔
لاہور میں ہماری ایک عزیزہ کو اصرار ہوا کہ فیروزہ ان کی بچپن کی دوست ہے۔بے چاری کو جاپانی کرنکل شفون کی ساڑھیوں کا بہت شوق ہے وہ ہم لے جائیں۔بے چاری کو تازہ طلاق ہوگئی ہے۔بہت اداس ہے۔دیکھو گے تو دیکھتے رہ جاؤگے ایسی حسین ہے۔تازہ مطلقہ عورتوں کے متعلق سیانے کہتے ہیں کہ ان سے ذرا بچ کر رہا کرو یہ Bounce Back پر ہوتی ہیں اور بقول فراز ع
ہم نے جمیل کو یہ بتایا تو اس کے دماغ میں یہ کاروباری نکتہ آیا کہ کسٹم سے بچنے کے لیے ان سادہ لوح زائرین کے سامان میں ایک ایک کرکے بیس پچیس جاپانی سلک اور شفون ساڑھیاں یہ سمجھا کر رکھ لیتے ہیں کہ یہ مزار کے لیے چڑھانے کی سرکاری چادریں ہیں۔عرس والے دن وہ ان سے لے کر چڑھادے گا۔ چادریں دہلی میں بیچ کر عیاشی کریں گے۔ کراچی سے آئے ہوئے ایک آدھ زائر نے اعتراض کیا تو اس نے یہ کہہ کر اسے ڈرایا کہ اس کانام آئندہ کسی وفد میں شامل نہیں کیا جائے گا کیوں کہ وہ گفتگو میں بہت بے احتیاط ہے اور زیارتوں سے زیادہ فلمیں دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہے۔اس کی بیگم کے بکس میں تین ساڑھیاں بطور چادر دیکھ کر کسٹم والے نے اعتراض کیا تو بیگم پھٹ پڑی اور جتلانے لگی ’’ اے لو کیا بولی جاریا ہے سمجھ نہیں رہیا کہ جو ہم خود پہنیں وہی مزار پہ چڑھاویں۔ـ‘‘
روانہ ہوئے تو مرحلہ بہت آسان تھا۔امرتسر تک بس لے گئی۔ دہلی جانے کے لیے ٹرین میں سوار ی کے مرحلے میں یونس کو پلیٹ فارم پر جو دو سکھ ملے وہ بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تھے۔اسے رلاتے رہے کہ ان کے خوابوں کا آج بھی ہر حوالہ صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ٹوبہ واقعی اتنا اچھا قصبہ ہے تو کہنے لگا کہ نہیں لعنت بھیجو ۔رونا اس بات پر آیا کہ تیس سال ہونے کو آئے مگر اس طرف کے پنجابیوں نے بھی Growکرنا چھوڑ دیا ہے۔
پرانی دلی میں ہمیں ایک پرانے سے کیمپ میں ٹہرایا گیا۔نگرانی کے لیے بھارت کے جو افسر خفیہ متعین کیے گیے تھے۔انہوں نے اپنا تعارف مہیت شکلا فرام چندی گڑھ کہہ کر کرایا تو سرگودھے کے سکندر صاحب نے اس سے پنجابی بگھارنا شروع کردی۔جس پر وہ سلیقے سے دامن چھڑاکر ایک طرف ہوگئے۔شام کو جب ہم دوست بستی نظام الدین کھانے کے لیے جارہے تھے تو وہ بھی ہمیں ٹیل (Tail) کررہے تھے۔ جب نگاہ پڑی تو ذرا لجانے لگے۔ہم نے سکندر صاحب کو بتادیا تھا اپنے پاجامے اور انگریزی کے حساب سے یہ گجراتی بابو ہیں۔ہم نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گجراتی میں کہا کہ ’’گجراتی ہو تو بلاوجہ پنجابی بننے کا کیا فائدہ۔افسر افسر سے جھوٹ تھوڑی بولتا ہے۔ہم بھی سرکاری کام سے تمہاری سرکار کی منظوری سے آئے ہیں تو اس نے بہت آہستہ سے بتایا کہ اس کا نام رگھوپٹیل ہے اور وہ ہم پر نگرانی کے لیے مامور ہے‘‘۔کھانے کی دعوت دی تو بے چارہ ضد کرنے پر شامل طعام ہوگیا۔ عمر رسیدہ آدمی تھا،ریٹائرمنٹ میں سال بھر باقی تھا۔ہم نے کہا اپنے مین مقصد کے علاوہ ہمارا کام تاریخی مقامات کی سیر، ہوٹلوں میں کھانا کھانے چاؤڑی بازار اور چاندنی چوک کی سیر فلم کبھی کبھی اور ستیم شیوم سندرم دیکھنا ہے۔اگلے دن جمیل نے زائرین سے وہ ساڑھیاں لے کر رگھو پٹیل کے حوالے کردیں کہ انہیں بیچ کر پانچ فیصد کمیشن خود رکھ لے ۔اسی رقم میں سے چالیس چادریں بل سمیت لے آئے۔رگھو پٹیل کی مرضی تھی کہ کچھ کمیشن اس میں سے بھی رکھ لے مگر جمیل اڑگیا کہ وہ سرکار کا پیسہ ہے۔ اس میں وہ بے ایمانی نہیں ہونے دے گا اس پر اس کا ساڑھیوں کی فروخت میں منافع کا کمیشن دس فیصد کردیا گیا۔
سوچئے سن ستتر میں بیوروکریسی کا کیا معیار تھا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ اسی وزارت میں غریب حاجیوں کو ڈی ایم جی افسر راؤ شکیل اور مولوی وزیر نے چاروں ہاتھوں سے لوٹا۔جمیل کو ساڑھیوں کی فروخت میں بھارتی روپے میں ڈبل قیمت ملی تو اس کا شماردھیرو بھائی پٹیل (مکیشن اور انل امبانی کے والد) کے ہم پلہ مالدار افراد میں ہونے لگا۔
ہمیں یہ رگھو پٹیل ہی کی کارستانی لگتی ہے کہ عرس پر جب اندرا گاندھی کے صاحبزادے آنجہانی سنجے گاندھی تشریف لائے تو وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر سیدھا ہم افسروں کی جانب لے آیا۔ہم سے رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے گھر ایک دن چھوڑ کرصبح کی چائے پر بلالیا۔ چلتے ہوئے یہ رگھو بھائی پٹیل ہی تھے، جنہوں نے بہت واضح طور پر سنجے گاندھی کو باآواز بلند جتلایا کہ’’ صاحب ٹرانسپورٹ‘‘ جس پر انہوں نے کہا
Don’t worry. I will send the car. we have only one car so it has to make two trips.
آپ کو یاد ہو گاکہ دیوی گوڑا ،نرسہماراؤ کے بیٹوں اور راجیوکے علاوہ کسی بھارتی وزیر اعظم پر کرپشن کے کوئی الزام نہیں لگے جبکہ ہمارے ہاں تو لیاقت علی خان کے مختصر دورانیے کے بعد جو بھی آیا وہ کرپشن کے معاملے میں مرے کو مارے شاہ مدار نکلا ہے۔شام کو اپنے آپ کو شامل کر کے فیر وزہ کو بااہتمام حجت سامنے رکھ کر ستییم شیوم سندرم کی تین ٹکٹیں بک کرالیں تھیں۔ باقی ساتھی بغیر ویزہ آگرہ روانہ ہوگئے تھے موڈ تو ہمارا بھی بہت تھا مگر مجھے اور جمیل کو انہوں نے یہ کہہ کر روک لیا کہ میں گجراتی ہونے کے ناطے کوئی چانس نہ لوں اور جمیل تو وفد کے لیڈر ہیں، لہذا ان کی غیر موجودگی کو ان کا عملہ نوٹ کرلے گا۔کیا خبر اس عملے کا کوئی رکن کسی اور ادارے کو بھی رپورٹ کررہا ہو۔فیروزہ کو ساڑھیاں ملی تو مچل گئی کہ کھانے پر لے جائے گی۔ہم نے اس شرط پر کھانے کی دعوت قبول کی کہ وہ ہمارے ساتھ فلم دیکھے گی ۔ فلم کا نام سن کر دویدا میں پڑگئی۔کچھ دیر دیکھنے کے بعد ہماری عزیزہ نیلوفر کے نام سے کہنے لگی OK I trust Neelo پٹیل صاحب نے بہت مارا ماری کرکے اس کی اچانک شمولیت کی وجہ سے چوتھے ٹکٹ کا بندوبست کیا تھا ،جب سنیما میں ہم داخل ہورہے تھے تو پٹیل نے زینت امان کا قد آدم نیم عریاں پوسٹر دیکھ کر انگریزی میں بہت زور سے ارشاد کیاNo one should ever trust me ever for Zeenat Aman.
تیسرے دن ہم ایک صفدر جنگ مارگ (ہندی بمعنی روڈ) پر اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ اندرا گاندھی کی اس رہائش گاہ کو ان کے صاحب زادے راجیو نے (جو ان کے قتل پر وزیر اعظم بنے تھے )اپنی والدہ کے نام سے موسوم ایک یادگاری عجائب گھر میں تبدیل کردیا تھا۔صفدر جنگ روڈ پر سرکاری بنگلوز کا ایک سلسلہ ہے۔ ایک نمبر میں اندرا گاندھی رہتی تھیں سات نمبر میں پرمود مہاجن بعد میں رہائش پذیر ہوئے ۔وہ بی جے پی کے سیکرٹری جنرل تھے لیکن انہیں ان کے بھائی نے گولی مار کر ہلاک کردیا تو اسے ایک صفدر جنگ مارگ کو بھی منحوس سمجھا جانے لگا۔
ہندوستان کے سبھی سابق وزرائے اعظم کو ٹائپ آٹھ بنگلہ سرکار کی جانب سے تحفے میں ملتا ہے۔ یہ ہندوستان میں اعلیٰ ترین سرکاری رہائش گاہ سمجھا جاتا ہے ۔من موہن سنگھ بہت بعد میں انیس نمبر بنگلے میں رہائش پذیر ہوئے۔اندرا گاندھی اور ان کا خانوادہ اسی رعایت سے یہاں قیام پزیر تھا گو الیکشن میں دھاندلی کے الزام میں سن 1975 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کا لوک سبھا کا انتخاب راج نرائین صاحب کی
انتخابی عذر داری کو تسلیم کرتے ہوئے ناجائز قرا دے دیا تھا۔اس فیصلے کا بھیانک پہلو یہ تھا کہ اندرا گاندھی صاحبہ چھ سال تک لوک سبھا کی ممبر بننے کا انتخاب تو لڑ سکتی ہیں مگر بددیانتی ثابت ہونے کی وجہ سے اس اثناء میں کسی سرکاری عہدے کی اہل نہیں ہوسکتیں۔
دوبارہ انتخابات ہوئے تو سن 1977 میں موصوف نے انہیں رائے بریلی یوپی سے شکست دی۔1980-84 میں البتہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئی تھیں،وہ چار سال وزیر اعظم رہیں اسی دوران انہیں اکتوبر میں اپنی اسی رہائش گاہ کے عقب میں واقع کانگریس کے ہیڈ کوارٹر ایک اکبر روڈ پرپیدل جاتے ہوئے دو سکھ گارڈ ستونت سنگھ اور بیونت سنگھ نے قتل کردیا تھا ۔اب اس چھوٹی سی پگڈنڈی پر جہاں وہ ہلاک ہوئیں شیشے اور کرسٹل کا ایک ایسا راستہ بنادیا گیا جو بہتے دریا کا شاعرانہ منظر پیش کرتا ہے۔
سنجے گاندھی نے سفید ایمبیسڈر کار بھیجی تھی۔اسلام آباد میں چونکہ ان دنوں ڈپٹی سیکرٹری بھی ویگن سے آیا جایا کرتے تھے،سرکاری گاڑی تو دور دراز کی بات ہے بلکہ قدرت اﷲ شہاب صاحب تو صدر کا سیکرٹری ہوتے ہوئے بھی رکشہ پر ایسے ہی آتے جاتے تھے جیسے اب بڑے سیکرٹری چارٹر جہازوں پر باہر کی کھیپ لگاتے ہیں۔کار کو دو پھیرے کرنے پڑے کیونکہ ہم کل چھ افسر تھے،رگھو بھائی پٹیل اور ان کا انسپکٹر بھی لازمہ تھے۔ یوں کل آٹھ مسافر بنے۔ہمیں لگا کہ ان کے بودو بو باش اور زندگی میں واقعی سادگی ہے۔صفدر جنگ روڈ پر سرکاری رہائش گاہوں کی قطار ہے۔اندرا گاندھی یہاں مقیم تھیں۔پہلے وفد کو ایک افسر نے بہت غیر رسمی انداز میں خوش آمدید کہا ۔ لان میں رکھی کرسیوں پر بٹھادیا۔اسی دوران میں ان کے ٹوائلٹ کی صفائی شروع ہوگئی اور لان کی نالیوں سے گندگی کا ایک ایسا طوفان بہہ نکلا کہ دماغ کی جھلیوں تک پر ورم آگیا۔تھوڑی دیر میں دوسرا گروپ بھی آگیا تو ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا۔سنجے گاندھی کا دور دور تک پتہ نہ تھا اور پٹیل صاحب کمرے کے باہر ہی رک گئے تھے۔کمرے کا فرنیچر پرانا، فرش پر بچھی بڑی سی دری قدرے میلی،کھڑکیاں بڑی، پردے ندارد۔ہمیں بیٹھے کچھ ہی لمحات ہوئے ہوں گے۔(آپ کو جو فرنیچر اور صفائی اس تصویر میں دکھائی دیتی ہے وہ ان دنوں موجود نہ تھی۔)
اسی رہائش گاہ میں اب ایک بورڈ پر اندرا گاندھی کے سات اہم قومی فیصلے درج ہیں۔ایمرجنسی کا نفاذ اس میں چھٹے نمبر پر ہے۔ باقی اہم فیصلوں میں بنگلہ دیش کا قیام۔بنکوں کو قومیانا ،غریبی ہٹاؤ پروگرام اور 1977 میں لوک چناؤ کا اعلان۔اچانک ایک بڑے سے بسکٹ کے رنگ کے کتے( انگریزی میںGreat Dane )کی رفاقت میں محترمہ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی داخل ہوئے۔وہ بہت باوقار خاتون تھیں۔انہیں اپنے وجود کا، اپنی طاقت کا بہت احساس تھا اور یہ احساس ان کے ارد گرد ایک ہالہ ، ایک حصار سا کھینچ دیتا تھا۔ہندوستان میں گورا رنگ خال خال دکھائی دیتا ہے وہ دونوں ماں بیٹا بہت اجلی رنگت اور بہت سادہ سماجی مزاج کے حامل تھے۔سنجے میں ہمیں پہلی ملاقات سے بہت جلد بازی دکھائی دی جب کہ مسز اندرا گاندھی میں اس طاقتور ہستی کا ٹہراؤ تھا جو اپنی باری کا تحمل سے انتظار کرنا جانتی ہو۔
ان کی خود اعتمادی سے خوف آتا تھا۔کتا کمرے میں چکر لگا رہا تھا اور اندرا گاندھی سنجے سے آہستہ آہستہ کچھ سرگوشیاں کر رہی تھیں۔کتے کے قد و قامت سے سیکشن افسر سکندر خوف زدہ ہوگیا تھا، اس نے دبے لفظوں میں جب ریلوے کے افسر شفیق کو کہا کہ میں اپنی ساری زندگی اینا وڈا کتا کدی نئیوں ویخیا (میں نے ساری زندگی میں اتنا بڑا کتا نہیں دیکھا) جس پر شفیق نے کہا۔فکر نہ کر اسلام آباد وچ تیرا اے گلہ جلدی ختم ہوجائے گا۔اندرا گاندھی نے سکندر کا خوف بھانپ لیا اور کتے کو انگریزی میں Duke. You Now Go Away کہا تو وہ کمرے سے رنجور ہوکر چلا گیا۔اسی دوران سنجے نے ہم سے معدزت کی کہ چکمہ گلور کرناٹک سے کچھ لوگ آئے ہیں ایک وفد کی صورت میں۔اپ امی سے بات کرو۔ہم پھر ملیں گے۔اندرا گاندھی نے سب سے سوال کرکے تفصیلی تعارف حاصل کیا۔ پاکستان کی سول سروس پر کئی سوالات کیے۔ وہ اپنی سول سروس سے بھی کچھ زیادہ خوش نہ تھیں مگر انگریزی میں کہنے لگیں کہ ان کے پاس جو رپورٹ اور بیرونی دوروں میں تاثرات جمع ہوتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ پاکستانی سول سروس اب بھی اس انگریز راج والے مائنڈ فریم میں ہے ۔لوگوں سے دور ہے۔اس میں وژن اور لیڈر شپ کا وہ معیار نہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے لیے لازم ہوتا ہے۔انہیں لگا کہ بات کچھ کڑواہٹ کا شکار ہوگئی ہے تو مسکراکر کہنے لگیں چلو فوجی حکومت کی وجہ سے ایک لمبے عرصے کے لیے تم لوگوں کی جان کمزور اور کنفیوژڈ سیاست دانوں سے چھوٹ گئی۔ اپنی سول سروس کے بارے میں جمیل کے سوال کے جواب میں وہ کہنے لگیں کہ ہاں ہمارے ہاں علاقائیت بہت زوروں پر ہے۔ ساؤتھ نارتھ تقسیم بھی بہت دیکھی جاسکتی ہے مگر چونکہ ہمارے ہاں سیاسی نظام ایک تسلسل اور عدالتی نظام پر عزم اور خود سے بہت باضمیر ہے ، ہمارا پریس بھی بہت قابل اوربے رحم ہے ( خود سے بہت باضمیر اوربے رحم والے الفاظ پر ان کے پتلے سنگدل ہونٹوں پر ایک دبی سی طنزیہ مسکراہٹ آگئی تھی ) لہذا بیوروکریسی کی علاقائیت دہلی آن کر مرکزی پالیسی کی تابع ہوجاتی ہے۔میرے بدترین نقاد بھی ان کے نزدیک میرے ناپسندیدہ دور( ایمرجنسی۔۔دیکھا ان کے الفاظ کا انتخاب) میں بڑے ترقیاتی پروگراموں پر تعصب، کرپشن اور جنتا دشمنی کا الزام نہیں لگا سکتے۔ہم نے انہیں مشرقی پاکستان پر آڑے ہاتھوں لیا تو وہ کہنے لگیں کہ ہم بھارت سے محبت کے خواب کیوں دیکھتے ہیں۔ہمارے عزائم تو گلوبل ہیں۔ہمارا خواب تو Empire of Ashoka and More ہے ۔ہم نے کہا کیا اس میں تھائی لینڈ، تبت بھی شامل ہیں تو کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں :
lets put Norway in your list too.. If that be soon You wud be my first governor there
(تمہاری اس فہرست میں ناروے شامل کرلیتے ہیں ایسا ہوا تو تم میری جانب سے وہاں پہلے گورنر ہوگے)
ہم نے انگریزی میں کہا
On the contrary My Mom wud love me to see as first Pakistani Muslim Governor of Mahrashtra
میری والدہ کا خواب ہے کہ میں مہارشٹرا کا پہلا پاکستانی مسلمان گورنر بنوں۔
Ah a Mother’s Dream
ہائے ایک ماں کا خواب۔انہوں نے ناگواری سے بھنویں سکیڑ کر دبے دبے سے طنزیہ لہجے میں جملہ کسا
Legitimate Though
(جائز تو ہے نا)
Indeed. As long as it stays a dream
ہمارے دل میں بہت آیا کہ کہہ دیں کہ کشمیر اور ہمارے والدین کا جوناگڑھ اور کاٹھیا واڑ ہمیں لوٹا دیں اور اشوکا ایمپائر کو اٹاری تک ہی سمیٹ کر رکھیں۔
ان کی اس بے شک اور اس بے شک میں ایک اداسی اور اپنے خواب جو انہوں نے سنجے گاندھی کے حوالے سے دیکھے تھے، وہ سبھی شامل تھے۔ انہوں نے اس موقع پرکھڑے ہوکر سنجے گاندھی کو لان میں دیکھا اور وہ انہیں کھڑکی میں دیکھ کر اس طرف آگیا، وہ کہہ رہا تھا کچھ بڑی امید لے کر آئے ہیں۔چکمہ گلور کی بعد میں ان کی زندگی میں بڑی اہمیت ہوگئی۔ وہ یہاں سے1978 میں انتخاب جیتیں۔ اس انتخاب کے بعد ان کے لیے دو سال بعد جنوری کے عام انتخابات جیت کروریز اعظم بننا آسان ہوگیا ۔لیکن ٹھیک چھ ماہ بعد سنجے گاندھی ایک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے۔چلتے وقت انہوں نے سوال کرنے کے لیے اکسایا تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کے خاندانی پس منظر،ان کے امتیازی حوالوں اور ان کی شہرت اور تجربات کی روشنی کو سامنے رکھتے وقت کیا وہ بھی کسی سے متاثر ہوتی ہیں۔وہ کہنے لگیں کہ کچھ دن پہلے سنجو بابا نے بھی مجھ سے یہی سوال پوچھا تھا تو وہی جواب آپ حضرات کے لیے بھی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس سے آپ کچھ سیکھ نہ سکیں نہ کوئی ایسا ہے جسے آپ کچھ سکھانہ سکیں۔ملاقات ختم ہوئی،باہر نکل کر ہم نے پہلے تو اکبر روڈ پر لذیذچاٹ کھائی اور بعد میں کریم جواہر ہوٹل پر بادامی قورمہ اور زعفرانی کھیر اور کمپلمنٹری مسالہ چائے۔وہاں ایک صفدر جنگ مارگ پر تو کسی کو چائے پلانے کا خیال تک نہیں آیا تھا۔
بہت بعد میں لیو کوان یو ۔سنگاپور کے مرد بے مثال نے مسز اندراگاندھی کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہی ہمارے بھی تاثرات ہیں یوں بھی پاکستان میں بڑے آدمیوں کی آواز میں آواز ملا کر بڑا بننا آسان عمل سمجھا جاتا ہے اندرا گاندھی ہندوستان کی بہت سخت گیر خاتون وزیر اعظم تھیں۔وہ عورت ضرور تھیں مگر نسوانیت ان کے قریب سے بھی نہ گزری تھی۔وہ مارگریٹ تھیچر سے زیادہ بے رحم تھیں۔ہمیں لگا کہ اس دن وہ سول سروس کے ممبرز ہونے اور ان کے صاحبزادے کے لائے ہوئے مہمانوں کی مناسبت سے دو مقامات عالیہ سے ہم سے مخاطب تھیں۔ایک کنٹرولنگ وزیر اعظم،ایک فتح یاب دشمن اور کبھی کبھار ایک مادر مہربان۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...