... loading ...
دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ
اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے واقف ہے نہ اس دنیا سے جس میں وہ اپنے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش میں ہے۔ ان احوال کے ساتھ ہونا، کرنا سب لاحاصل اور بے معنی ہے۔ بلبلے کا دریا کی مخالفت کرنا مضحکہ خیز ہے، ذرے کی مٹی سے بغاوت لایعنی ہے، تو لمحے کا تاریخ کو للکارنا المناک ہے۔ یہ بلبلہ، یہ ذرہ، یہ لمحہ نہ اپنی اصل سے آگاہ ہے، نہ وہ اس انجام سے باخبر ہے جس کی طرف وہ بڑھ رہا ہے، اور اس کے احوال اس قدر دگرگوں ہیں کہ شاید اسے اپنی اصل و انجام جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ لیکن یہ کون ہیں؟ اچانک سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ہم ہی ہیں، اور یہی بلبلہ، یہی ذرہ، یہی لمحہ اب ہمارا تعارف ہے، کیونکہ ہمارا تعارف اس قدر مشکل اور انہونا ہوتا جا رہا ہے کہ اس کے لیے ایسے ہی غیرمعمولی اور غیر روایتی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔
بلبلہ زندگی کا استعارہ ہے، اور ہم اپنی اصل حیات سے منقطع ہیں۔ ذرہ وجود کا استعارہ ہے اور ہم اپنی اصل ہستی سے ناواقف ہیں، اور لمحہ کچھ بننے کا آوازہ ہے اور ہم عمل سے تہی ہیں۔ اس قول زریں کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جا سکتا ہے، اور وہ ہے ”حالت انکار“۔ تو یہ حالت انکار کیا ہوتی ہے؟ اس کی تعریف بہت سادہ ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان اپنے تجربے سے بھی کوئی سبق لینے کی اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ حالت انکار میں انسان ذہن اور علم کی سطح پر تصورات کو سمجھنا اور ان میں امتیاز کرنا تو دور کی بات ہے، اپنے انفرادی اور اجتماعی تجربے کی معنویت کو جاننے سے بھی عاری ہو جاتا ہے۔ حالت انکار فرد پر بھی آتی ہے اور قوموں پر بھی۔ حالت انکار خودفراموشی سے سینچی ہوئی احمقانہ ہٹ دھرمی اور اپنے فطرتی اور تاریخی حالات سے ذہن کے مکمل انقطاع میں ظاہر ہوتی ہے۔ حالت انکار میں انسان اپنی داخلیت کی کینچلی میں مستقل پناہ گزیں ہو جاتا ہے۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا:
جیسے مثال کے طور پر شام میں معاشرے کی مکمل تباہی ہمارا اجتماعی تجربہ ہے۔ اس پر رونا دھونا عام ہے، جو صاف ظاہر ہے کہ ہماری دردمندی کا اظہار ہے۔ لیکن قوموں کی ذمہ داری صرف ماتم و گریہ زاری اور تجہیز و تکفین تک محدود نہیں ہوتی۔ یہ ایک سیاسی صورت حال ہے جس کی جڑیں تاریخ میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ذہن اس صورت حال کے بامعنی علمی تجزیے، اس تجزیے سے پیدا ہونے والے موقف اور اس موقف پر بننے والے سیاسی عمل کا کوئی امکان رکھتا ہے؟ ہم زیادہ سے زیادہ وعظ کر سکتے ہیں، دہائی دے سکتے ہیں، اور نظریۂ سازش کا نعرہ بلند کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تو کوئی اور چیز ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ شام میں ایک ناقابل تصور المیہ لحظہ لحظہ تشکیل پا رہا ہے، لیکن اس پر کام کی کوئی بات کیا ہمارے میڈیا، سائبر اسپیس، علوم وغیرہ میں کہیں نظر آتی ہے؟ ناظرین کی حالات سے واقفیت ناچیز سے کہیں بڑھ کر ہے، سب کچھ ان کے سامنے ہے۔ یہ ہماری تہذیبی حالت انکار کا واقعاتی اظہار ہے۔
اقوام اور معاشروں کی حالت انکار کے اول آثار علم میں ظاہر ہوتے ہیں اور وہیں اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ معاشرے کے اجتماعی شعور کا تاریخ سے متعلق اور ہم قدم رہنے کا واحد ذریعہ عقلی اور تجربی علوم ہیں۔ تاریخ اس قدر سفاک ہے کہ عقلی اور تجربی علوم کے بغیر مذہبی علوم کی کوئی معنویت بھی باقی نہیں رہنے دیتی، اور اپنی دھاک سے ان کی بھی اپنی مرضی پر تشکیل کر لیتی ہے۔ اپنی غیرمعمولی حالت انکار کی وجہ سے آج ہم ناہنجار بلبلوں، نابکار ذروں اور نافرجام لمحوں کا مجموعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ قول زریں ہماری اجتماعی حالتِ انکار کو خوفناک طریقے پر نمایاں کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ ہماری گزارش ہے کہ اپنے تہذیبی ورلڈ ویو کی بازیافت اور اس میں رہتے ہوئے عقلی اور تجربی علوم کی طرف واپسی اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ اپنے کلچر اور مذہبی علوم کو تاریخ اور جدیدیت کی مرادات پر ڈھالتے چلے جانے سے حالت انکار مزید گہری ہوئی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں چیزوں کو ویسے دیکھنے اور سمجھنے والا ذہن عطا فرمائے جیسی وہ ہیں، اور تاریخ سے نبردآزما ہونے والا کردار عطا فرمائے۔ آمین
اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے...
اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ای...
"شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!" جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، ا...
"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت ...
سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات د...
ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعن...
احمد جاوید تنہ نا ھا یا ھو تنہ نا ھا یا ھو گم ستاروں کی لڑی ہے رات ویران پڑی ہے آگ جب دن کو دکھائی راکھ سورج سے جھڑی ہے غیب ہے دل سے زیادہ دید آنکھوں سے بڑی ہے گر نہ جائے کہیں آواز خامشی ساتھ کھڑی ہے لفظ گونگوں نے بنایا آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے رائی کا دانہ یہ دنیا کو...
اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ...