وجود

... loading ...

وجود

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

هفته 27 اگست 2016 دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


حلحول، فلسطین

حلحول، فلسطین


سرجن کاشف مصطفیٰ کو پچھلے دنوں کچھ پیشہ ورانہ مصروفیتوں کی وجہ سے بین الاقوامی مسافتوں سے دو چار ہوناپڑا۔ کوپن ہیگن ڈنمارک میں دو عدد تدریسی اوپن ہارٹ سرجریوں کے درمیان بمشکل مہلت ملی تو یہ قسط قلم بند ہو سکی۔ اس قسط میں مذکور راجہ ممریز اور ان کے اہل خانہ اور ان سے متعلقہ مقامات کی تصاویر بغرض احتیاط وتحفظ خود ان کی درخواست پر شائع نہیں کی جارہی ہیں۔ پچھلی قسط میں ذکر تھا کہ راجہ صاحب کی داستان حیات سن کر مجھے بھوک اور وقت کا کوئی احساس ہی نہ رہا۔ داستاں ختم ہوئی تو عبدالقادر وہاں پڑے تخت پر لمبی تانے سوچکا تھا۔ ریسٹورنٹ گاہکوں سے خالی ہوچکا تھا لیکن راجہ جی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ انہیں میزبانی کے باب میں کوتاہی کا احساس ہوا آنکھ سے آخری آنسو پونچھتے ہوئے بھرائی آواز میں معذرت کی کہ انہوں نے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں مجھے کھانے کا توپوچھا تک نہیں۔ درد اب جاکے اٹھا چوٹ لگے دیر ہوئی، والا معاملہ تھا۔ ان کے سوال کی بازگشت میں۔ ان کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے۔ ان کے اور اپنے شہر پنڈی اور ان کے علاقے ٹے نچ بھاٹا کو یاد کرتے ہوئے میر ے دماغ میں، میرے دوست، میرے مترجم دیوان صاحب کاسنایا ہوا، جون ایلیا کا وہ شعر گونج رہا تھا ع

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم میری آخری محبت ہو

میں وہ بدنصیب ایسا اہل دل اور اہل وطن تھا جو ایک مدت بعد راجہ صاحب کو ملا تو وہ اپنی داستان حسرت سنا سنا کے روئے۔ اس واردات اشک باری و مقام آہ فغاں میں میری بھوک مٹ گئی اور ان کی میزبانی کوتاہی کے بستر پر سسکیاں لے کر منہ ڈھانپے پڑی رہی۔ داستان دل کا معاملہ وہی ہے کہ چاہے وہ کتنی بھی پرانی ہو بقول مصطفیٰ زیدی :کہنے والے کے لیے سب سے نئی رہتی ہے

راجہ صاحب نے جب مجھے کھانے کا پوچھا تو مجھے ایسا لگا کہ میری رال اندر ہی اندر کہیں ٹپک پڑی ہے۔ راجہ صاحب نے میری اشتہاکو یوں اور بھی آتش شوق سے ہم کنار کیا کہ انہوں نے ہم پنڈی والوں کا پسندیدہ کھاجا کیا ہے۔ وہ مُصر تھے کہ یہ سب پکوان عمر عزیز کے اس حصے میں بھی میرے لیے خود ہی تیار کریں گے۔ سچ مانیے تو میرے لیے اب اس پیشکش سے انکار کا کوئی جواز نہ بچا تھا۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو سامنے سرخ اور نارنجی سورج پہاڑی ڈھلوانوں پر ادھر ادھر بکھرے گھروں پر سے اپنی آخری کرنیں سمیٹ رہا تھا۔ ان گھروں کے برآمدوں میں اور دالانوں میں ا ب دھیمے دھیمے قمقمے ٹمٹما رہے تھے۔ انگوروں کے باغات میں البتہ جگنو ؤں کے جھرمٹ دکھائی دے رہے۔ حلحول تاریخ کے گمنام صفحات میں سانس لیتا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت اس سے لاتعلق اور ناآشنا ہے۔ مجھے جانے یہ خیال کیوں گھیرے بیٹھا ہے کہ میں یہاں شاید دوبارہ کبھی بھی نہ آ پاؤں۔ میرے جیسے من موجی، جسے شہر شہر گھومنے کا بہت اتفاق ہوتا ہے، یہ سوگوار کیفیت کم ہی اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ آج کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

حلحول کے انگور

حلحول کے انگور


اس سوگواری کا سودا میں نے تجسس میں عین اس وقت کرڈالا جب راجہ صاحب مجھے چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف بڑھنے لگے۔ میرے اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہاں کوئی تاریخی عمارت یا مقام دل چسپی ہے تو راجہ صاحب نے ایک مانوس سی حیرت کا اظہار کیا۔ ایسی حیرت جو ہر پنڈی والے کو اس وقت ہوتی ہے جب اس سے کوئی اپنا کوئی انہونا سوال کرے۔ راجہ صاحب کا بھی خیال تھا کہ حضرت داؤد کو یروشلم اور گرد و نواح کی بستیاں بسانے کا مشورہ شاید میں نے دیا تھا۔ وہ حیرت سے فرمانے لگے کہ کیا مجھے یہ نہیں معلوم کہ حضرت یونس علیہ السلام کا مزار اسی شہر میں ہے۔

میں نے اس موقع پر اپنی رائے ظاہر کی کہ حضرت یونسؑ کا معاملہ ایسا ہے کہ تین مقامات پر آپ کی تدفین ظاہر کی جاتی ہے۔ ایک تو موصل کے پاس نینوا میں، دوسرا مشہد جو اسرائیل کا ایک قصبہ ہے اور تیسرا یہ ہمارا حلحول۔

حضرت یونس علیہ السلام کے مقبر ہ عالی کے حوالے سے پچھلے دنوں کچھ تصاویر اور دل خراش مناظر میں نے میڈیا پر دیکھے تھے۔ اسے داعش نے موصل عراق کے قریب برباد کردیا تھا۔ میں نے جب ان مناظر کو ذہن میں حوالہ بنا کر پوچھا تو ایک اچھے پاکستانی کی طرح وہ دامن بچا گئے اور کہنے لگے تاریخ کا تو مجھے کوئی پتہ نہیں مگر سب لوگ کہتے ہیں کہ مسجد یونس یہاں ہے اور آپ کا مدفن بھی۔ یہاں سے وہ زیادہ دور نہیں اگر ہیبرون کی سیاحت نے مجھے تھکا نہیں دیا تو میں وہاں جاسکتا ہوں۔ تب تک کھانا تیار ہوجائے گا۔ میں نے جھٹ پٹ اجازت لی اور چل پڑا۔

حلحول کی خاموش گلیوں پر سر شام ہی ایک خاموش سی سوگواری نے چادر ڈال دی تھی۔ ہوا میں خنکی بھی تھی۔ سارے اسرائیل اور فلسطین میں یہ وہ واحد مقام ہے جہاں سردیوں میں تواتر سے برف پڑتی ہے۔ اپریل کی اس شام میں چٹکیاں لیتی خنکی تھی۔ چندسو میٹر چلنے کے بعد میرے سامنے کہیں سے خود بخود مسجد یونس نمودار ہوگئی۔ مسجد کے اندر داخل ہونا بہت خوشگوار تجربہ تھا، امام صاحب اگر مجھے ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل پر سوار ڈربن جنوبی افریقہ یابرمنگھم کی کسی شاہراہ پر ہفتے کی رات ملتے تو بغیر گٹار کے بھی راک اسٹار لگتے۔ مجھے سے ملے تو بہت خوش ہوئے۔ یہاں بہت ہی کم سیاح آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہو۔ مغرب کی نماز کی امامت سے فارغ ہوکر وہ مجھے مسجد کے کونے میں ایک مقبر ے کے پاس لے گئے۔ فاتحہ خوانی سے فارغ ہوکر میں نے راجہ صاحب والا سوال ان سے بھی کرڈالا۔ وہ کہنے لگے دنیا میں صرف دو مزارات کو مستند سمجھو، حضرت ابراہیمؑ اور ہمارے آقائے دوجہاں محمد مصطفیٰ ﷺ کی مسجد نبوی میں آرام گاہ۔ باقی سب مقابر کے بارے میں اس قدر تضادات ہیں کہ حاضری کا موقع ملے تو عزت سے فاتحہ پڑھو، جو مسلمان پر ایسے موقعے پر فرض ہے۔ دوسروں کے جذبات اور عقیدت کا احترام کرو اور چپ چاپ رخصت لو۔ اسی میں عافیت ہے۔ میں نے اس موقع پر اپنی رائے ظاہر کی کہ حضرت یونسؑ کا معاملہ ایسا ہے کہ تین مقامات پر آپ کی تدفین ظاہر کی جاتی ہے۔ ایک تو موصل کے پاس نینوا میں، دوسرا مشہد جو اسرائیل کا ایک قصبہ ہے اور تیسرا یہ ہمارا حلحول۔ میرا خیال ہے کہ چونکہ وہ نینوا کی بستی( جو اس وقت بابل اور اب عراق میں واقع ہے) میں بغرض تبلیغ دین اسلام بھیجے گئے تھے۔ لہذا یہ بات ممکن نہیں کہ وہ یہاں آئے ہوں۔ میرے اس معترضانہ مشاہدے کو انہوں نے بہت خاموشی سے سنااور پھر کمال آہستگی اور شائستگی سے یوں گویا ہوئے کہ ممکن ہے انہیں وہاں اﷲ کے عذاب کی آمد کی اطلاع دی گئی ہو۔ وہاں کے لوگ بہت سرکش و باغی تھے۔ وہاں کا طبقۂ اشرافیہ آپ کی غربت اور بے چارگی کو بہت تحقیر سے دیکھتاتھا، ان کو بہت ایذا بھی پہنچاتا تھا۔ اسی لیے وہ چل پڑے ہوں۔ قصے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ کہ وہ تیونس کی جانب بحری راستے سے چلے جائیں، اُن کا اپنا فیصلہ تھا۔ اﷲ کی جانب سے ابھی یہ حکم نہیں آیا تھا۔ اﷲ نے ان کی اس کشتی کو مبتلائے طوفان کردیا۔ اس زمانے میں یہ رسم تھی کہ اگر سمندری کشتی کسی طوفان کا شکار ہوجائے تو لوگ تیروں کے ذریعے فال نکالتے تھے کہ کہیں مسافروں میں کوئی ایسا مسافر تو نہیں جو مالک سے جان چھڑا کر خیانت اور چوری کرکے بھاگ رہا ہو۔ اسے کشتی سے سمند رمیں پھینک دیا جاتا۔ حضرت یونس ؑکا نام ہر مرتبہ فال نکالنے پر جب سامنے آیا تو ان ناخداؤں کا یہ باور کرنا مشکل تھا کہ وہ مجرم ہیں کیوں کہ ان کی اور دیگر مسافروں کی اکثریت آپ کے تقوے اور اعلیٰ کردار سے بخوبی آگاہ تھی۔ امام صاحب نے میری جانب بہت غور سے دیکھا اور فرمانے لگے نیک لوگ اگرکوتاہی یا حکم عدولی کرتے ہیں تو ان کی سزا عام آدمی سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ اس طرح کے افراد کی کوتاہی کے مضمرات اور بگاڑ عام آدمی کی کوتاہی اور حکم عدولی سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ معاشرہ اس کی وجہ سے بہت اتھل پتھل کا شکار ہوتا ہے۔

حضرت یونس علیہ السلام کے مزار کا اندرونی منظر

حضرت یونس علیہ السلام کے مزار کا اندرونی منظر


بآلاخر انہیں کشتی سے پھینک دیا گیا اور ایک بڑی مچھلی شاید وہیل نے انہیں نگل لیا۔ وہ اس کے پیٹ میں کتنے دن رہے اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ کم از کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن بتائی جاتی ہے۔ وہاں ان کا ورد بس آیت کریمہ تھی جو سچی توبہ کا سب سے پہلا اعتراف ہے۔ اﷲ کو اس توبہ استغفار پر رحم آگیا اور انہیں مچھلی نے جافا کے پاس ساحل پر آن کر باہر اُگل دیا۔ اس وقت ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مچھلی کے پیٹ میں قیام کی وجہ سے آپ کی جلد وہاں موجود تیزابیت نے جھلسا دی تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پر فضا مقام تک آن پہنچے۔ یہ جو مقبرہ ہے اسی کمرے میں ہے جہاں آپ نے سال بھر قیام کیا تھا۔ یہیں پر آپ کی خوراک کے انتظام کے لیے کدو کادرخت بھی اُگا دیا تھا۔ ان کا زیادہ تر وقت عبادت میں گزرتا تھا۔ سال بھر کے قیام کی وجہ سے ہی قصبے کو حل (قیام) حول (سال بھر)کہتے ہیں۔

امام صاحب کہنے لگے کہ صحت یاب ہوکر وہ نینوا لوٹ گئے تھے۔ واپسی کا سفر ان کے لیے بہت خوشگوار ثابت ہوا۔ ان کی قوم اپنی پرانی روش ترک کرکے دین الہی کو اپنا چکی تھی۔ اﷲ نے ان پر اپنی مہربانیوں کا باب پھر سے کھول دیا تھا۔ یہاں تاریخ کو ایک دو شاخہ چبھ جاتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں عمر کا باقی حصہ انہوں نے اپنے لوگوں میں ہی گزارا، یہیں آپ کا وصال ہوا اور یہیں وہ مزار تعمیر ہوا جسے داعش نے موصل میں ڈائنامیٹ سے اڑا دیا۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ وہ واپس یہاں حلحول لوٹ آئے تھے۔ یہی ان کا مدفن سمجھا جاتا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اگر یہ مزار انہیں کا ہے اور یہ تعویز موجود ہے تو ان کی اصل قبر کہاں ہے؟

کمرے کے نیچے ایک بہت بڑا غار ہے۔ وہ گویا ہوئے۔ اس تک رسائی ناممکن سی ہے۔ شاید وہ مقبرہ وہاں ہو۔


میں نے امام صاحب کا اس سیر حاصل تعارف پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور معطم ابو داؤد کی جانب لوٹ آیا۔ یہاں اس وقت گاہکوں کی بھرمار تھی۔ قادر صاحب راجہ صاحب کے بیٹے کے اسسٹنٹ منیجر گلا سنبھالے بیٹھے تھے۔ مجھے ان سا لوگوں کے دل میں جلد گھر کرنے کا ہنر نہ آیا۔ راجہ صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہم نے اپنی پرانی مخصوص نشستیں سنبھالیں۔ ویٹر بھاگم بھاگ مٹی کی دہکی ہوئی دو بڑی ہانڈیاں اٹھا لایا۔ ڈھکن ہٹے تو اندر سے خوشبو بن کر راولپنڈی برآمد ہوگیا۔ میرے مشام جاں روشن ہوگئے۔ چکن کڑھائی پر پتلے کترے ہوئے ادرک کے ٹکڑے۔ ہری مرچیں اور تازہ ہرا دھنیا۔ ساتھ ہی دال ماش جو اگر کھانے میں شامل نہ ہو تو ہم پوٹھوہاری سات کورس کے ڈنرسے بھی بھوکے ہی اٹھ آتے ہیں۔ نان بھی بالکل ہمارے جیسے تھے۔ اﷲ اﷲ کیا مہربانیاں ہوئیں۔ کھانا ختم ہوا تو قادر چھوٹے بچوں کی طرح پہلو میں آن کر بیٹھ گیا کہ اب لوٹ چلیں اندھیرا چھا گیا ہے۔ راجہ صاحب نے بھی اس کی انگریزی سن لی وہ تو بہت عمدہ انگریزی بولتے ہیں۔ وہ میرا ہاتھ تھام کر بولے جانے کی باتیں جانے دو۔ میری داستان تو سن لی پاکستان کا کوئی احوال نہیں ہوا۔ میرے پنڈی کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا، کیسی محفل ہے کہ ابتدا ہی نہیں۔ میرا شہر مجھے بھول گیا تو کیا !ہم نہ اسے بھلا سکے۔ میں نے ان کی یہ فرمائش سن کر قادر کو کہا کہ یہاں نہ میری بیوی، نہ میرے بچے۔ ہوٹل میں کوئی میرا منتظر بھی نہیں لیکن تمہاری ضد ہے تو چلتے ہیں۔ راجہ صاحب نے کچھ ایسی ملتجی نگاہوں سے قادر کو دیکھا کہ وہ بھی دھوپ میں رکھی برف بن گیا۔ فون کرکے بیگم کو بتایا کہ یہاں حلحول میں وہ اپنے کسی بھولے بسرے کزن کے پاس رات کو قیام کرے گا۔ دس بارہ سال بعد بیوی کو میاں کی اورفرشتوں کو مولوی کے رزق کے کوئی فکر نہیں رہتی۔ سو وہ بھی خوش ہوئی ہوگی۔ قادر نے کزن کے گھر کا راستہ لیا اور راجہ صاحب میرا بازو تھام کر مجھے اپنے گھر لے چلے۔ تین کمروں کے گھر میں وہ اپنے دو عدد بڑے بیٹوں اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا گھر ایک چھوٹی سی پہاڑی چوٹی پر واقع ہے۔ گھر پہنچتے ہی انہوں نے اپنے الخلیل، بیت عمر، حلحول میں بکھرے ہوئے خانوادے کے دیگر افراد کو فون پر بلوالیا۔ وہ بھی ایک کے بعد ایک آناً فاناً پہنچ گئے۔ کون تھا جو نہ آیا ہو، بہوئیں، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں۔ مجھے بھی ایسا لگا میرے اپنے گھر کے لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ دس بجے تک وہ سب رخصت ہوگئے تو ہم برآمدے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے ایسا لگا کہ ان کے ہاتھ میری صورت میں الہ دین کا جن ہاتھ لگ گیا ہے جو ان کے لیے پلک جھپکتے ہی پنڈی طشتری پر اٹھا لائے گا۔ ان کے ذہن میں پنڈی کے حوالے سے سوالات کا ایک طوفان تھما ہوا تھا۔ جو کچھ یادوں میں سمایا تھا، سب ہی نکال کر میرے سامنے رکھ دیا، وہ افراد اور مناظر تو سبھی بدل گئے۔ اب ان کو کہاں سے ڈھونڈیں۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ کچھ افراد جن کا وہ پوچھ رہے تھے وہ میری پیدائش سے پہلے ہی کہیں ادھر ادھر ہوگئے۔

میرے بڑوں سے میں نے کچھ کا سر سری سا احوال سن رکھا تو سو بیان کرتا رہا تاکہ ان کے دل خوش فہم میں پنڈی کے بارے میں جو یادیں باقی ہیں وہ میری بے احتیاطی سے کہیں نادانستہ طور پر چکنا چور نہ ہوجائیں۔ جب وہ تذکرہ چھیڑتے تو میں گاہے بہ گاہے سوالات یا تجزیے کا ہلکا سا تڑکا لگا دیتا تھا۔ میری ایک ہی کوشش تھی کہ ان کے خوابوں اور خیالات کا پنڈی میری حق گوئی اور بے باکی کیوجہ سے کہیں ان سے نہ چھن جائے۔

اگلی صبح میری آنکھ کچھ دیر سے کھلی۔ بہت دیر تک یقین نہ آیا کہ میں کہاں آرام فرما ہوں۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو قصبہ حلحول بھی میری طرح اونگھ ہی رہا تھا۔ راجہ صاحب نے میرے لیے خصوصی طور پر ناشتے پر پراٹھے بنوائے۔ ناشتہ ختم ہوا تو قادر بھی طلوع ہوگیا۔ رخصت ہوئے تو راجہ ممیریز آف ٹینچ بھاٹا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ انہیں اپنا چھوٹا بھائی راجہ سلطان یاد آگیا اس کا بابو محلے میں موٹر سائیکلوں کا شو روم ہے۔ ان کا حکم تھا کہ پنڈی پہنچ کر میں اسے ضرور ڈھونڈوں اور جب میں سرکاربری امام جاؤں تو ان کی جانب سے چادر ضرور چڑھاؤں۔ میں نے سب وعدے پورے کرنے کی بات کی اور نیم خوابیدہ حلحول سے چل پڑا۔ یروشلم کے راستے میں میری سوچوں کو کوئی کنارہ نہیں مل پارہا تھا۔ ہر مسافت کا انجام زندگی بھر کی جدائی نہیں ہوتا مگر تقدیر اگر کوئی رکاوٹ کھڑی کردے تو کوئی ویزہ کوئی پاسپورٹ کوئی سواری اس کے دوسرے پار نہیں جاسکتی۔ (جاری ہے)

مسجد حضرت یونس علیہ السلام

مسجد حضرت یونس علیہ السلام


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر