... loading ...
میرا سوال سن کر بابا جی مسکرائے اور دایاں کندھا اُچکاکر آنکھ کو قدرے دباتے ہوئے گرد ن نفی میں ہلا دی ، میں جواب کا منتظر تھا ، بابے نے عینک اتار کر سامنے بچھی میز پر دَھری، دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں ملنا شروع کر دیں گویا تاریخ کے اوراق کو پلٹنے کیلئے بینائی کی کند چُھری پر دھار لگا رہے ہوں۔ انتظار کوفت کا سبب تھا ۔میرے جسم کے سارے مسام آلۂ سماعت بنے بیٹھے تھے میں دونوں کہنیاں میزپر ٹکائے ہاتھوں کی رِحل بنا کر اس پر ٹھوڑی ٹکائے ہمہ تن گوش تھا ۔
’’دراصل اِسے گرفتار بھی میں نے ہی کیا تھا ، گرفتاری میں کشور ناہید اور ایس ایم طارق نے مدد کی تھی ، انہوں نے اسے گرفتاری دینے پر راضی کیا تھا ، پھر چند ماہ یہ جیل میں رہا اسی دوران بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں ایم کیو ایم نے زبردست کامیابی حاصل کی اور وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ نے اسکی رہائی کا حکم دیدیا تھا ۔‘‘
بابے کی آنکھیں چمکنے لگیں انہوں نے یکدم ہی تاریخ کی پٹاری کھول ڈالی۔
ٹہرئیے پہلے آپ کو بابے سے متعارف کراتا چلوں۔ یہ بابا جی ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں ، انہوں نے سول سروس 80کے اوائل میں جوائن کی اور بطور ایس ڈی ایم اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ۔ انہوں نے ملازمت کا بڑا حصہ کراچی میں ہی گزارا ،اہم عہدوں پر تعینات رہے اور چند سال قبل ہی ریٹائر ہوئے ہیں ۔ اب ان کے وہی مشاغل ہیں جو فرصت کے ایام میں سرکاری بابوں کے ہوا کرتے ہیں ۔نہایت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں اور بہت وسیع مطالعہ رکھتے ہیں ۔ میری بابا جی سے بڑی نیاز مندی ہے، ہم اکثر ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ تھڑے پر ’’چائے خوانی‘‘ کیا کرتے ہیں ۔ آج موضوع الطاف حسین تھے۔ 22اگست کی سہ پہر کراچی پریس کلب میں انکی تقریر اور اس کے بعد کی صورتحال ہماری گفتگو کا محور تھا۔ہمارے مشترکہ دوست جنہیں میں انکی لیاقت کے اعتراف میں علامہ کہا کرتا ہوں۔ ان کا خیال تھا کہ اب شہر میں بدامنی کی بڑی لہر آئے گی ، باباجی نے اس خدشے کو مسترد کر دیا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ اب ایم کیو ایم وہ نہیں رہی جو 80اور 90کی دہائی میں تھی ، میرے دماغ میں اچانک خیال کُدبُدایا ، میں نے باباجی سے پوچھا کہ سنا ہے الطاف حسین کو چھڑانے کیلئے ایک بارکراچی سینٹرل جیل توڑ ی گئی تھی ۔ہزاروں لوگوں نے جیل کے باہر جمع ہوکر جیل کی دیوار گرادی تھی۔ اس پر بابا جی نے تاریخ کی گرد جھاڑنا شروع کی ۔
’’الطاف حسین ایم پی او کے تحت بند تھے، غوث علی شاہ کی جانب سے رہائی کے احکامات آجانے کے بعد جیل میں ریلیز آرڈربھیجا گیا تو الطاف حسین نے انتظامیہ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ انتظامی افسران ملنے پہنچے تو اس نے 88افراد کی فہرست انہیں تھما دی کہ انہیں بھی میرے ساتھ ہی رہا کرو۔افسران وہ فہرست لیکر حکام ِ بالا کے پاس گئے تو ناموں کی چھان پھٹک شروع ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے اکثریت کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہ تھا ۔وہ عادی جرائم پیشہ افراد تھے، ان میں سے سب سے اہم نام شبےّرا کا تھا جو شاہ فیصل کالونی کا بدمعاش تھا اور اس پر گلوکار مہدی حسن کے بیٹے آصف مہدی کے دو ساتھیوں کے براہِ راست قتل کا الزام تھا ۔ اس مقدمے کا چالان منظوری کیلئے میرے پاس ہی لایا گیا تھا اور آصف مہدی کی سفارش اداکار عمر شریف کے بڑے بھائی عثمان جامی نے کی تھی کہ اسکی حفاظت کا بندوبست کیا جائے، اسے شبےّرا سے خطرہ ہے جس کے بعد شبےّرا پکڑا گیا تھا اور جیل میں تھا ۔‘‘
باباجی سانس لینے کیلئے رکے ، میز پر رکھی پانی کی بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا ۔ دھیمے دھیمے چند گھونٹ بھرے اور خالی گلاس واپس میز پر رکھ دیا ۔ عینک اٹھائی واپس ناک پر جمائی اور خالی نگاہوں سے میز کو تکنے گلے ۔ میں مضطرب ہو گیا ، میں نے بابا جی پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔ وہ سنتے رہے اور اثبات میں سر ہلاتے رہے، پھر گویا ہوئے ۔
’’اس فہرست میں شامل تمام لوگ رہا کرنے پڑے ، آسان طریقہ یہ تھا کہ حکومت ان تمام کے خلاف قائم مقدمات سے دستبردار ہو گئی ، یہ ایک طرح کا محدود این آر او تھا ، جس دن یہ سب رِہاہو رہے تھے، افسران پھر الطاف حسین سے ملنے جیل گئے لیکن وہاں بات چیت لمبی ہوتی چلی گئی ، اس اثناء میں جیل کے باہر لوگ جمع ہونے لگے ، رفتہ رفتہ بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے ، مجھے وائر لیس پر وہاں پہنچنے کا حکم ملا ، موقع پر پہنچ کر میں نے کمشنر کراچی شاہد عزیز صدیقی کو بتایا کہ یہاں بہت لوگ ہیں اور کوئی بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے ، کمشنر نے کہا کہ جو صحیح سمجھو وہ کر و مگر صورتحال قابو میں رکھو اور الطاف حسین کو کسی طرح راضی کرو کہ جیل سے باہر آئے ۔‘‘
باباجی نے وقفہ لیا مگر پھر فوراً رواں ہوگئے ۔
’’میرے ذہن میں جاوید میانداد کا نام آیا ، انکی الطاف حسین سے بہت دوستی تھی ، وہ ایف بی ایریامیں رہائش پزیر تھے ، میں نے فوراًان سے رابطہ کیا اور سینٹرل جیل کے باہر پہنچنے کی درخواست کی ،جب تک وہ پہنچے خاصی بے چینی رہی ، لوگ نعرے بازی بھی کرتے رہے ، انہیں میں نے صورتحال سمجھا کر اندر بھیجا، وہ کچھ دیر بعد واپس آئے تو قدرے مایوسی سے کہا سر وہ تو باہر آنے کو تیار ہی نہیں ، بولتا ہے میرے خلاف جھوٹے کیس بنائے گئے تھے ، اب جیل کی دیواریں توڑوتو باہر آؤں گا ، اس پر مجبوراً میں نے جاوید میانداد سے مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ سبزی منڈی کی طرف جانے والے گیٹ کے برابر سے تھوڑی سی دیوار توڑی جائے اور اتنی جگہ بنائی جائے کہ ایک گاڑی وہاں سے گزر سکے ، سو جیل کے عملے کو لگایا گیا ، دیوار ٹوٹنے کے بعد جاوید میانداد نے الطاف حسین کو سمجھا بجھا کراپنی پجیرو میں بٹھایا اور ٹوٹی ہوئی دیوار سے گاڑی گزار کر انہیں نائن زیرو لے گئے ۔‘‘
میں حیرانی سے سنتا رہا ، کچھ دیر کی مزید گپ شپ کے بعد نشت برخاستن کے مرحلے تک آپہنچی اور ہم نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی ۔راستے بھر میں اس واقعے کے تناظر میں الطاف حسین کی ذہنیت کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کرتارہا ۔میں یہی نتیجہ اخذ کر سکا کہ الطاف حسین ان لوگوں میں سے ہیں جن کی نظر میں ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر اس کائنات میں اور کچھ بھی نہیں ، ادارے ، اصول ، قانون ، ضابطے سب فضول ہیں ۔وہ ذہنی طور پر خود کو ایسی جگہ پاتے ہیں جہاں باقی سب کی کوئی حیثیت ہی نہیں بچتی ،رہ گئی ریاست وہ توکچھ بھی نہیں جب بھی موقع ملے وہ اسے نیچا دکھانے سے چُوکیں گے نہیں ۔
گھر پہنچا تو ٹی وی چینلز کی اسکرین پر شوں شوں کرتے بریکنگ نیوز کے پنچز دیکھے ۔ فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحن گرفتار ۔ رات گئے تک مختلف گرفتار یوں اور نائن زیرو پر تالا لگائے جانے کی مزید خبروں نے ہیجان پھیلائے رکھا ۔ اگلے روز جو ہوا سب ہی جانتے ہیں تفصیل میں جانا غیر ضروری ہے ۔ سوال وہی ہے جس کا جواب سب کو چاہئے ، کیا ایم کیو ایم الطاف حسین سے واقعی لاتعلق ہو گئی؟۔ اس سوال کا جواب کھوجنے کیلئے فاروق ستار کے ماضی کو بھی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہو گااورتاریخ کوئی عذر تسلیم نہیں کرتی۔ زیادہ دور کی بات نہیں گزشتہ سال کراچی میں پانی کے شدید بحران پر احتجاج کرتے ہوئے فاروق ستار نے زِچ ہو کر کہا تھا ’’پانی کا بحران علیحدگی پر منتج ہو سکتا ہے ‘‘۔ ان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے پھر پاکستان کو مردہ باد کہہ دینے سے ایسی کون سی قیامت ان پر گزر گئی ہے، یہ سمجھ سے باہر ہے ۔ بات صاف ہے وہ گزشتہ کئی ماہ سے ریاستی اداروں سے رابطے میں ہیں اور اندرونِ خانہ صلاح کاری کرتے رہے ہیں کہ’’الطاف حسین فیکٹر’’ ایم کیو ایم سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ۔وہ بڑی ’’چَتُرائی‘‘ سے حکام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ انکا کوئی نیا گروپ بنا لینا سود مند نہیں ، وہ خود ہی راندۂ درگاہ ہو جائیں گے ،کارکن ان کے پیچھے نہیں آئے گا لہذا یہیں رہنے دیا جائے تووہ ’’کام کے بندے‘‘ ہیں مگر درپردہ دلی خواہش ان کی بھی یہی ہے کہ کسی طرح الطاف حسین سے جان چھوٹ سکے صرف وہی نہیں ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود ساری قیادت ہی لندن قیادت سے بیزار بیٹھی ہے ۔انہیں لگتا ہے کہ لندن میں بیٹھے لوگ موج کر رہے ہیں ، ندیم نصرت آٹھ ہزار پاؤنڈز تنخواہ لیتے ہیں ، مصطفی عزیز آبادی 5ہزار پاؤنڈز، ندیم نصرت کو پارٹی نے 6لاکھ پاؤنڈز کا نیاگھر بھی دلایا ہے ، وہاں بیٹھے لوگ پارٹی فنڈز میں خورد بُرد بھی کرتے ہیں اور یہاں موجود قیادت صرف رگڑا کھاتی ہے۔ایک فارسی کہاوت ہے کہ بلّی بھی چوہے کو خدا واسطے نہیں مارتی بلکہ اپنے پاپی پیٹ کیلئے مارتی ہے ، اب یہ بیچارے کب تک اپوزیشن میں بیٹھے رہیں ۔
الطاف حسین کی تقریر کے بعد ریاستی اداروں نے ان پردباؤ ڈالاکہ اب الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ لوہا گرم ہے چوٹ لگائی جائے تو انہوں نے اپنی دیرینہ خواہش پر عمل شروع کیا ، فاروق ستار کی دوراندیشی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے براہ راست الطاف حسین پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ اب ایم کیو ایم کے فیصلے پاکستان میں ہی ہوں گے۔واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ’’سفارتکارانہ ‘‘ صلاحیتوں کے ذریعے خود الطاف حسین کو بھی قائل کر لیا کہ فی الوقت پارٹی کی بقاء کیلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔میں بھی بند ہو جاؤں گا تو پارٹی کون چلائے گا ، ریاستی طاقت کے آگے پارٹی کچلی جائے گی لیکن الطاف حسین بھی کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے ایک طرف تو انہوں نے صحت کاکارڈ کھیلااور چوراہا گھما کر فاروق ستار کی دبے لفظـوں میں حمایت کی لیکن ساتھ ہی انکی ایماء پر لندن میں بیٹھے ایم کیو ایم کے قائدین نے فاروق ستار کے دعوے سے پیدا ہو نے والے تاثر کو مسترد کر دیا۔گویا مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی ’’سب راستے روم کو ہی جاتے ہیں ‘‘۔ ایم کیو ایم پاکستان میں ڈاکٹر فاروق ستار کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور اسی ایم کیو ایم کے منشور میں لکھا ہے کہ اس کے بانی و قائد الطاف حسین ہیں لہذا فاروق ستار کے گول مول اعلان پر بغلیں بجانے والے یہ نہیں جانتے کہ یہ اقدام ایک ’’آئی واش ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ اسے ’’بیل آؤٹ پیکج‘‘ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا لیکن صرف ایم کیو ایم ہی مورودِ الزام کیوں ہو، کیا مسلم لیگ(ن) میں اتنی ہمت ہے کہ وہ کرپشن کے الزامات میں گردن تک دھنسے اپنے قائد نواز شریف سے برأت کا اعلان کر دے ، کیا پیپلز پارٹی بھٹو کے داماد سے لاتعلقی اختیار کر سکتی ہے جب کہ خود بھٹو کے بیٹے کے خون کے چھینٹے بھی ان کے دامن پر ہوں بالکل نہیں ۔ وجہ شخصیت پرستی کا وہ مرض ہے جو ہماری رگوں میں پوری طرح سرایت کر چکا ہے۔ تغیر و تبدّل قدرت کا فلسفہ ہے ، قدرت نے اسی سے حیات نو منطبق رکھی ہے مگر ہم شاید اس پر یقین نہیں رکھتے ورنہ ساری قوم جنرل راحیل شریف کی توسیع پر اس طرح یک آواز نہ ہوتی بلکہ بحیثیت ادارہ فوج کی صلاحیتوں پر بھروسا کرتی اور امید رکھی جاتی کہ جو بھی نیا سپہ سالار آئے گا وہ بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملک کے مفاد میں استعمال کر ے گا ۔
ہم سب ہی اداروں پر نہیں افراد پر یقین رکھتے ہیں اور جب تک شخصیات کے بجائے اداروں کو پروان چڑھانے کا کلچر فروغ نہیں پاتا۔ الطاف حسین سے جان چھڑانا ممکن نہیں کم از کم اسکی زندگی میں تو نہیں ۔جب تک شخصیات پوجی جاتی رہیں گی ممالک اُن کے مقابلے میں چھوٹے پڑیں گے اور مردہ باد کے مکروہ نعرے گونجتے رہیں گے۔(جاری ہے)
ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا آج ہم پچھتا رہے ہیں، ہم حکومت چھوڑ دیں یہ کہنا بہت آسان ہے جو بھی وعدے ہم سے کیے گئے پورے نہیں ہوئے۔ ایک انٹرویو میں وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ جو مسائل آ رہے ہیں اس کی وجوہات ب...
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما کامران خان ٹیسوری سندھ کے اچانک گورنر تعینات کر دیے گئے۔ گورنر سندھ کے طور پرعمران اسماعیل کے استعفے کے بعد سے یہ منصب خالی تھا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد مرکز میں پی ڈی جماعتوں کو حمایت دینے کے ...
یہ تصویر غور سے دیکھیں! یہ عمران فاروق کی بیوہ ہے، جس کا مرحوم شوہر ایک با صلاحیت فرد تھا۔ مگر اُس کی "صالحیت" کے بغیر "صلاحیت" کیا قیامتیں لاتی رہیں، یہ سمجھنا ہو تو اس شخص کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ عمران فاروق ایم کیوایم کے بانی ارکان اور رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ اُس نے ایم کیوای...
متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ عمران نے پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ نے ان کے شوہر کو بھلا دیا ہے۔ متحدہ کے شریک بانی ڈاکٹر عمران فاروق کی 12ویں برسی پر شمائلہ عمران نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ یا رب میرے لیے ایسا دروازہ کھول دے جس کی و...
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں کامران ٹیسوری کی ڈپٹی کنوینئر کی حیثیت سے بحالی پر کئی ارکان ناراض ہوگئے، سینئر رہنما ڈاکٹر شہاب امام نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ ڈاکٹر شہاب امام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو میرا تحریری استعفیٰ جلد بھیج دیا جائیگا۔ انہوں نے...
بانی متحدہ الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری ہوگئے۔ برطانوی عدالت میں بانی متحدہ پر دہشت گردی پر اکسانے کا جرم ثابت نہ ہوسکا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بانی متحدہ کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے دو الزامات کا سامنا تھا، دونوں الزامات 22 اگست 2016 کو کی جانے والی ...
انسداد دہشت گردی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) قیادت کی اشتعال انگیز تقاریر اور میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیس کی سماعت ہوئی۔ مقدمے کے چشم دید گواہ انسپکٹر ہاشم بلو نے ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار اور دیگر کے خلاف گواہی دے دی۔ رینجرز کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رانا خالد حسین ...
کنگ اپون تھیم کراؤن کورٹ میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے سے متعلق اشتعال انگیز تقاریر کیس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف دلائل مکمل کر لیے گئے، عدالت فیصلہ کرے گی کہ الطاف حسین کو سزا سنائی جائے گی یا الزامات سے بری کردیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بانی ایم کیو ایم...
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کی کراچی میں احتجاجی ریلی کے دوران شیلنگ سے زخمی ہونے والے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کو پولیس نے گرفتا ر کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی قانون کے خلاف وزیر اعلی ہاس کے باہر دھرنا دیا جس کے بعد پولیس کی جانب سے ریل...
پاکستان میں سب سے زیادہ منظم جماعت سمجھے جانے والی ایم کیوایم ان دنوں انتشار کا شکار ہے۔ جس میں ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے رہنما ایک دوسرے کو ہر گزرتے دن اپنی اپنی تنبیہ جاری کرتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات میں ایم کیوایم لندن کے برطانیہ میں مقیم رہنماؤں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکس...
لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما ندیم نصرت کو بانی تحریک نے جو ٹاسک سونپا ہے وہ اس میں کس قدر کامیاب رہیں گے اور کئی دھڑوں میں تقسیم ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہے ؟ سیاسی مبصرین و تجزیہ کاروں کے ایک بڑے گروہ کی رائے یہ ہے کہ ندیم نصرت اپنے ٹاسک کو اس وقت تک پورا نہیں کرسکیں گے ج...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...