... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
لندن پہنچ کر راجہ جی کو وطن عزیز کی کچھ زیادہ فکر نہ رہی ۔گھر سے لائی ہوئی جمع پونجی جلد ہی وہاں سیر و تفریح کی نذر گئی۔اب کیا کریں! سو ملازمتوں کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔نوکریوں کا وہاں ان دنوں ویساکال نہ تھا ،جیسا اب ہے۔ انگریز مالدار تھے ۔ہمارے ہاں سے جو دولت لوٹ کر لے گئے تھے وہ اب تک چل رہی تھی۔ٹونی بلیئر جیسے Losers اور مکار افراد ابھی تک وہاں وزیر اعظم نہ بنے تھے۔ راجہ صاحب کبھی ایک نوکری پکڑتے تو کبھی دوسری ، اوریوں گزارا ہونے لگا۔جیب بھاری ہوئی تو حضرت کو پیرس دیکھنے کا شوق چرایا۔وہاں سے بیلجئم اور پھر ہالینڈ،یہاں تک کہ سارا یورپ کھنگال ڈالا۔
اسی دوران قسمت سے ان کی ملاقات لندن میں ایک اردنی رئیس زادے جمال سے ہوگئی۔وہ اردن کے ایک بڑے تاجر گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔لندن میں اسے اپنے لیے ایک قابل بھروسا نگران (کیئر ٹیکر) کی ضرورت تھی جو وہاں لندن میں اس کا گھر بار سنبھال سکے۔جمال نے معقول مشاہرے کے عوض راجہ جی کو اپنے ہاں ملازم رکھ لیا اور دونوں کی خوب نبھنے لگی۔
دو برس بعد جب تعلیم مکمل کرکے جمال نے واپسی کا رخت سفر باندھا تو راجہ جی کو بھی ساتھ ہی رکھ لیا۔وہاں ان کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ان کے اردن میں کئی مقامات پر تعمیراتی پروجیکٹس چل رہے تھے راجہ صاحب جگہ جگہ گھومتے رہتے۔ حج کیا۔ شام دیکھ آئے۔ایک دن جمال اور انہیں کاروبار کے سلسلے میں حلحول کے پاس ایک قصبے بیت العمر آنا پڑا تب حلحول اور بیت العمر دونوں ہی مملکت اردن کا حصہ تھے۔ وہاں پہنچے تو شام ہوگئی تھی۔جمال میاں تو اپنے جائیداد اور رشتہ داروں سے معاملات نمٹا نے میں لگ گئے۔ حضرت راجہ صاحب کو سگریٹ کی طلب نے ستایا تو آگ لینے نکل کھڑے ہوئے ۔ اس تگ و دو میں حضرت موسیؑ کی طرح پیغمبری تو نہ ملی مگر بیوی مل گئی ۔قیام گاہ سے کچھ دور ایک ڈھلوان سے نیچے اُترے تو سورج غروب ہورہا تھا۔ علاقہ پہاڑی تھا اور منظر دلفریب۔
راستے میں کسی سے ماچس مانگ کر سگریٹ سلگایا۔ایک درخت کے نیچے کسی پتھر پر سستا نے بیٹھے تو سامنے نگاہ پڑی۔ایک چھوٹے سے مکان کی بالکونی میں ایک نسوانی سایہ سر سرارہا تھا۔کچھ دیر بعد پردے کے پیچھے سے وہ نکل کر سامنے بالکونی میں آیا تو وہ ایک دلکش و دل فریب دوشیزہ تھی۔ دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں تو راجہ جی کی دنیا وہ دنیا نہ رہی۔پورے فلسطین اور اردن میں بیت العمر کی حسیناؤں کی دھوم ہے۔ سارے عرب میں اپنے حسن کے حوالے سے مشہورخود ملک شام والیاں بھی انہیں اپنے سے حسین مانتی ہیں۔ہمیں اس تذکرے سے یہ خوف ہوگیا ہے کہ جس طرح سیالکوٹ اور شیخوپورہ کے فربہ اندام آڑھتی اور تھوک بیوپاری سوات، قندھار ، چترال کی حسیناؤں کو ایکسپورٹ کے نئے آرڈروں اور بڑھتی ہوئی خوشحالی سے دوسری بیوی بنانے پہنچ جاتے ہیں وہ اس راز دروں کو جاننے کے بعد بیت العمر کا رخ نہ کرلیں۔
راجہ جی کا دل جس حسینہ نے چرایا ،وہ بی بی تو ان سب سے بڑھ کر تھی۔ایسا لگتا تھا کہ انسان بن گئی ہے کرن ماہتاب کی۔نگاہ ہٹانے کی تاب کس کو تھی۔اس کی پہلی نظر کیا اثر کرگئی کہ ایک بجلی گری اور راجہ صاحب ختم شد۔وہ بالکونی میں پردہ ٹھیک کرنے آئی تھی اور راجہ ممریز خان ٹے نچ بھاٹا والوں کی زندگی خرا ب کر گئی ۔مسکراہٹ کا جو تاثر اس کے چہرے پر پھیلا تھا وہ اس کی دلی کیفیات کا بھی عکاس تھا۔ ہمارے جیسا کوئی ہوتا تو کہہ دیتا کہ اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی ، سوچو تو سہی، جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا۔ راجہ ممریز کی زندگی کا اگر آپ مشاہدہ کریں تو اس میں اپنے مرکز سے بچھڑ جانے کی بہتVULNERABILITY تھی۔
اس رات تو راجہ جی مانو انگاروں پر سوئے۔اس بے چاری کا حال بھی ـ’’چاند میں کچھ خیال کرتے ہیں۔۔ میرؔ صاحب کمال کرتے ہیں‘‘ والا ہی ہوگا۔مگر عورتوں کے معاملے میں اور خاص طور پر مریخ اور زہرہ پر بسی عرب عورتوں کے بارے میں باہو شاہ صاحب کا دامن تھام کر ، دل دریا سمندروں ڈونگے، کون دلاں دیاں جانے ہو کو ہی آخری خبر سمجھیں۔عاشق لوگ تو رملے کملے ہوتے ہیں دنیا بڑی سیانی ۔سو حضرت راجہ جی اگلے دن اس مقام اسی پتھر پر اسی و قت موجود تھے۔ ہماری جرات نہ ہوئی کہ پوچھ لیتے حالانکہ دیوآنند کی فلم تیرے گھر کے سامنے ان دنوں ہی ریلیز ہوئی تھی ممکن ہے راجہ صاحب گنگنا بھی رہے ہوں کہ اک گھر بناؤں گا تیرے گھر کے سامنے۔چند لمحے گزرے تھے کہ وہ دوشیزہ بھی پھر بالکونی میں آگئی ۔ دونوں کادل کوئی وائی فائی کنکشن سے جڑا تھا۔اب کہ اس طرف سے بھی نگاہوں میں آشنائی اور قبولیت کا پیغام تھا۔اسی دعوت رفاقت کو راجہ جی نے جو ان دنوں اپنی بھرپور جوانی کے ایام کا لطف لے رہے تھے اور۔دل سے قبول کیا ممکن ہے وہ بھی ہمارے جیسے خوبرو بھی ہوں ۔وہ بیبیاں جو انگلستان میں ہمارے ساتھ پڑھتی رہی ہیں یا ہم پیشہ رہی ہیں۔ آپ ان سے تصدیق کرسکتے ہیں ۔ہم ان دنوں ایسے نہ تھے جیسے اب لوگوں کے پھٹے، پرانے ، سیاہ ،شکستہ دل جوڑ جوڑ کر ہوگئے ہیں ۔شام کے شہر حلب یعنی Aleppo جیسے۔راجہ جی کہ لیے اس بی بی کو اپنی بیوی بنانے کا فیصلہ عمر کے حساب سے کچھ مشکل نہ تھا۔دل آجائے تو مڑتے نہیں۔ کم بخت مرد ہوتے ہی ایسے ہیں ہمارے کچھ ہم عمر دوست آج بھی بے چینی سے ایشوریا رائے کی طلاق کا انتظار کررہے ہیں۔ہماری بات کو خاتون ہونے کے ناطے بہت دل پر نہ لیں۔ پنڈی کے سب مرد ایسے نہیں ہوتے۔ایک راجہ جی تھے ۔ایک ہم ہیں، ہماری بیگم گواہ ہیں۔
جس دن انہیں عمان لوٹنا تھا اس دن راجہ جی نے اپنی پریم کتھا سیٹھ جمال کو سنا ڈالی۔جمال کا معاملہ وہی تھا جو شکوہ جواب شکوہ کے وقت علامہ اقبال کا تھا کہ ع
جمال کے دل پر راجہ جی کی داستان الفت نے عجب رنگ جمایا۔اس نے روانگی میں ایک دن تاخیر کی اور اگلے دن عرب روایات کے مطابق تحفے تحائف سے لدا پھنداگاؤں کے مکھیا کے ساتھ لڑکی کے گھر رشتہ لے کر پہنچ گیا۔باپ کم بخت کو پہلا اعتراض تو یہی تھا کہ ممریز ٹینچ بھاٹا ۔راولپنڈی کا ہے عرب نہیں۔اس کے اگاڑی پچھاڑی کا بھی کچھ پتہ نہیں۔جمال نے ٹوپی تو باپ کے قدموں میں نہیں رکھی مگر اس غریب پر ذاتی ضمانتوں اور اپنے تعلقات کا ایسا بوجھ ڈالا کہ وہ پسیج گیا ۔ ایک شرط منوانے سے پھر بھی باز نہ آیا ۔دولہے میاں اپنا Period of Probation پورا ہونے تک یہاں بیت العمر میں ہی رہیں گے ۔جب تک لڑکی والے ان کے چال چلن کے حوالے سے شکیبا نہیں ہوجاتے ۔ تب تک یہاں ٹکے رہنا ہے ۔ایک دفعہ یہ اطمینان قلب ان کی معصومہ اور اس کے والدین کو ہوگیا کہ وہ بھلا مانس ہے وہ اس کے بعد انہیں جہاں جا کر گھر بسانا ہو اس کی اجازت دیں گے۔ایک ہفتے بعد وہ سب عمان سے بارات لے کر آئے اور راجہ ممریز خان کا نکاح ہوگیا۔یہ 1966 کا موسم خزاں تھا۔ راجہ ممریز کے سسر کا ہوٹل یہی ہے جہاں ہم بیٹھے ہیں مطعم ابو داؤد۔وہ ان کا ہاتھ بٹانے میں لگ گیے۔ان کے انگور کے باغات بھی تھے۔راجہ جی میں بہت خوبیاں تھیں سسرال والے تو کیا اب سارا قصبہ ان کی شرافت اور رکھ رکھاؤ کے گن گاتا تھا۔دس ماہ گزرے تو اللہ نے انہیں احمد میاں سے نوازا ۔یہ وہی حضرت ہیں جو کاؤنٹر پر بیٹھے ہیں۔راجہ جی کا منصوبہ تھا کہ بیٹے اور بیوی کے ساتھ راولپنڈی پہنچیں گے تو ناراض والدین کا دل چاند جیسی پیکرشرافت بہو اور گلابی اجلے پوتے کو دیکھ کر پرانے گلے شکوے بھول جائے گا۔مدتیں ہوئیں وہ گھر چھوڑنے کے بعدخط لکھتے تھے تو پنڈی سے اس خط کا کوئی جواب بھی نہ آتا تھا۔تقدیر کے ہاں کچھ اور فیصلے لکھے تھے۔1967ء میں جنگ لگ گئی بیت العمر اور حلحول اردن سے چھن گئے۔ان پر اسرائیل قابض ہوگیا۔راجہ ممریز پاکستانی سے اسرائیلی ہوگئے۔نہ جہاں میں کوئی اماں ملی۔سرحدوں پر ایسے پہرے لگ گئے کہ وطن ہی بدل گیا۔اردن کا وہ علاقہ جہاں وہ رہتے تھے وہ اسرائیلی مملکت کا حصہ بن گیا۔ جمال سیٹھ کا وطن اردن ہوگیا تو ان سے بھی رابطہ نہ رہا۔تقدیر کے زلزلے نے راجہ جی کے سب پرانے رشتے برباد کر ڈالے۔سسر کا بھی کچھ عرصے میں انتقال ہوگیا۔لے دے کہ ایک سالا تھا اسے اسرائیلی فوجیوں نے کسی غلط فہمی کی بنیاد پر گولیوں سے بھون ڈالا۔ سارا سسرال ختم ہوگیا۔ سسر کا کاروبار تنہا انہیں سنبھالنا پڑا ۔راجہ صاحب کے چار بیٹے ہیں تین بیٹیاں۔ بیگم اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں۔وطن واپس آن کر اولاد کو راولپنڈی دکھانے کا خواب اب گم گشتہ سرحدوں، امیگریشن حکام کی سرد مہری اور ان پر طاری بڑھاپے کی تھکاوٹ کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔پرانی جینز والی یادیں باقی ہیں۔
پنڈی کی وہ سن ساٹھ کے دنوں کی نیم اندھیری گلیاں دور کہیں دلوں میں اب بھی اپنے ٹمٹماتے قمقموں سے روشن ہیں۔راجہ صاحب اپنے لڑکپن کے ساتھیوں کے والدین کے ڈر سے چھپتے چھپاتے گھر لوٹنے کے مناظر نہیں بھولے۔سردیوں کے ایام میں انہیں یاد ہے کہ وہ چھت پر اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ دھوپ سینکا کرتے تھے۔ماں کے ہاتھ کا آلو گوشت اور توے سے اتارے ہوئے گرم پھلکوں کے لقمے اب بھی ان کے ہر ذائقہ ٔ طعام پر حاوی ہیں۔وقت مگر بہت ظالم ہے۔اب راجہ جی ایک فلسطینی ہیں۔ جس عورت کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا وہ بھی بے وفا نکلی۔ تین برس ہوتے ہیں ان کو داغ مفارقت دے کر ملک عدم کی راہی ہوگئی۔ راجہ جی اسے اس کا بھی دوش نہیں دیتے ۔ اسے کینسر نے بستر علالت پر لا پٹخا تھا۔ ورنہ وہ تو ایک پیکر وفا و حیا تھی۔وہ یوں چھوڑ کر جانے والی نہ تھی۔
اب راجہ جی کی بس ایک ہی تمنا ہے کہ موت آئے تو اپنی شریک حیات کے پہلو میں انہیں بھی دفنا دیا جائے۔
راجہ صاحب کی داستان حیات سن کر مجھے بھوک اور وقت کا کوئی احساس ہی نہ رہا۔داستاں ختم ہوئی تو عبدالقادر وہاں پڑے تخت پر لمبی تانے سوچکا تھا۔ریسٹورنٹ گاہکوں سے خالی ہوچکا تھا لیکن راجہ جی کی آنکھیں آنسووں سے بھر چکی تھیں ۔انہیں میزبانی کے باب میں کوتاہی کا احساس ہوا آنکھ سے آخری آنسو پوچھتے ہوئے بھرائی آواز میں معذرت کی کہ انہوں نے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں مجھے کھانے کا تو پوچھا تک نہیں۔درد اب جاکے اٹھا چوٹ لگے دیر ہوئی، والا معاملہ تھا۔
ان کے سوال کی بازگشت میں ،ان کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے۔ان کے اور اپنے شہر پنڈی اور ان کے علاقے ٹے نچ بھاٹا کو یاد کرتے ہوئے میر ے دماغ میں، میرے دوست، میرے مترجم دیوان صاحب کاسنایا ہوا ،جون ایلیا کا وہ شعر گونج رہا تھا ع
(جاری ہے)
خصوصی وضاحت
راجہ ممریز ، ان کے اہل خانہ اور ان سے متعلقہ مقامات کی تصاویر کو احتیاطاً شائع کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...