... loading ...
“شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی ‘مولوی’ تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!”
جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، اس کی اصل ہمارے ہاں نہیں۔ اس لیے ہم ابھی شعریات کی طرف نہیں جاتے، اور آنجناب کے قول زریں میں ذوق کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حس کے دشت میں ذہن کے بگولوں سے رستگاری ذوق کے چشمے پر ہوتی ہے۔ ذوق، معنی کو ذہن اور فہم کی گرفت سے آزاد کر کے نفس اور طبیعت کی تحویل میں دے دیتا ہے۔ ذوق، فوارۂ معنی کو صرف دیکھ لینا نہیں ہے، بلکہ اس سے سرشار ہونا بھی ہے۔ ذوق معنی سے نسبت و تعلق کا ایسا وجودی انداز ہے، جو نہایت قیمتی مذہبی معنویت لیے ہوئے ہے۔ زبان غیب و شہود کا برزخ ہے، اور اس برزخ کا مجرد صورتوں سے اٹ جانا مذہبی انفس کی موت کا باعث بنتا ہے۔ ذوق، معنی کے انداز حضوری کو زندہ رکھنا ہے۔ ایمان، حقیقت سے زندہ تعلق کا نام ہے اور اس انداز حضوری کی کمک کے بغیر اسے باقی رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر زبان میں صورتوں کے لگڑبگوں کی بہتات ہو جائے تو ایمان آلاتی اور میکانکی ہو جاتا ہے، اور یہ میکانکیت قانون جیسی ہوتی ہے۔ ہم شاعری کو کسی سنگھاسن پر نہیں بٹھاتے، لیکن یہ ایک قیمتی چیز ہے جو معنی کے انداز حضوری کو زندہ رکھنے میں معاون ہوتی ہے۔ شاعری فی نفسہٖ مقصود نہیں، اور نہ ”شاعری کا ذوق“ سے مراد شاعری کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ آج کے دور میں جب لفظ و معنی سے انسانی شعور اور نفس کی تمام فطری نسبتوں پر تیشے چلائے جا رہے ہیں، شاعری کا یہ وظیفہ بہت کچھ مذہبی معنویت لیے ہوئے ہے۔
”مولوی“ اور ”عالم“ دونوں کا تعلق معروفاً علم و تعلیم سے ہے، اور اگر علم و تعلیم سے ہے تو بنیادی طور پر لفظ و معنی سے ہے اور ان کی انسانی شعور سے نسبتوں سے ہے، اور تعلیمات سے ہے اور اجازت ہو تو کہہ لوں کہ فکر سے بھی ہے۔ اِدھر پرانے زمانے میں ”مولوی“ بھی عالم ہی کو کہتے تھے، لیکن کچھ زمانے سے ان میں تغایر بہت بڑھ گیا ہے، اور ‘مولوی’ کے معنی میں سلبی پرتیں داخل ہو گئی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ‘مولوی’ کے معنی خاصے متعدی ہو گئے ہیں جس سے ‘عالم’ کے ساتھ ساتھ کئی اور لفظوں کو بھی شدید خطرہ ہے۔ ہماری ناقص رائے میں یہاں ‘مولوی’ سے مراد ایسا آدمی ہے جو لفظوں کی باربرداری کرتا ہو۔ جب صرف گردان ہی کا ٹوکا چلتا رہ گیا ہو، تو لفظوں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں، اور دھڑ ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جب معنی ہی بے گھر ہوئے جاتے ہیں، ذوق کہاں باقی رہ سکتا ہے۔
‘عالم’ عموماً ایسے صاحب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو دینی روایت یعنی ہدایت کا علم رکھتا ہو، اور اسے لوگوں تک منتقل کرنے کے ذہنی اور کرداری وسائل سے بہرہ ور ہو۔ ذہنی وسائل میں فہم اور کرداری وسائل میں ذوق کو اولیت ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسے عہد میں جب ہماری تہذیب کی عظیم الشان علمی روایت کی تمام تشکیلات غتربود ہو چکی ہیں، اور ہم نے علم کا معنی از سر نو ابھی طے کرنا ہے، ‘عالم’ کا معنی بھی نزاع کا شکار ہو گیا ہے۔ گزارش ہے کہ ہدایت لازمانی ہے، اور علم زمانی۔ ہمارے عظیم الشان اسلاف کا اصل کارنامہ یہی تھا کہ انہوں نے لازمانی اور زمانی کی تمام تہذیبی، تاریخی، علمی اور ذہنی نسبتوں کو نبھاہ کے دکھایا اور اب یہ صورت حال نہیں ہے۔ آج کل عموماً ‘عالم’ کا لفظ ایک ایسے شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو ہدایت کا روایتی علم تو رکھتا ہو، لیکن ہمعصر علم سے کوئی نسبت نہ رکھتا ہو۔ اب یہاں ایک سخت سوال درپیش ہو گیا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کا عصری علم معتبر نہ ہو، اس کے غیر عصری اور لازمانی علم کے معتبر ہونے کے کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟ اگر یہ ضد کی جائے کہ ایسا ممکن ہے کہ عصری علم کے مکمل غیرمعتبر ہوتے ہوئے غیر عصری علم معتبر ہو سکتا ہے تو آدمی یہی کہہ سکتا ہے کہ وقت دعا ہے۔ یہ موقف ایسے ہی کہ ایک آدمی لاہور میں ہو تو سائیکل دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے، لیکن ساہیوال میں اسے سائیکل دکھایا جائے تو نہیں پہچان پاتا۔ ایسی حالت میں دعا ہی سہارا لیا جا سکتا ہے۔
پھر علم کی صرف حقیقت سے ہی نسبتیں نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ سے طاقت اور علم کی نسبتوں کو بھی ایک علمی اور فکری مسئلے کے طور پر زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اب طاقت اور علم کی نسبتوں کو دانستہ نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اور عین اسی گھپلے کی حالت میں عالم اور طاقت کے تعلق کو دینی ضرورت کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس تشویشناک موقف کے ہوتے ہوئے ‘عالم’ کی تہذیبی اور روایتی معنویت دباؤ کا شکار ہو گئی ہے اور اس کے معنی کا ازسرنو تعین لازمی ہو گیا ہے۔
علم اور فکر کا بنیادی تعلق ذہن میں احتوائے معنی سے ہے۔ جبکہ ذوق نفس اور ذہن دونوں میں احتوائے معنی کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ معنی کے جدید نظریات جہاں منتہی ہوتے ہیں، وہاں مذہبی معنی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتے۔ ذوق نوعاً مذہبی معنی کے قبیلے سے ہے، اور انسانی انفس میں اس سرزمین کو تروتازہ رکھتا ہے جہاں مذہب کا شجر اگتا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر شاعری اور شعری ذوق کی مخالفت کرنا آشیانے میں بیٹھ کر آشیانہ دار شاخ کو کاٹنے کی حماقت اور خودکشی کے برابر ہے۔
ذوق کی بنیاد پر مولوی اور عالم میں فرق کرنا قدرے آسان بھی ہے اور عام فہم بھی۔ لیکن اگر مذہبی تعلیمات کی بجائے علم اور فکر کے مباحث کو بنیاد بنایا جائے تو ہماری آج کی صورت حال میں مولوی اور عالم کے فرق کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے...
اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ای...
دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے وا...
"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت ...
سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات د...
ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعن...
احمد جاوید تنہ نا ھا یا ھو تنہ نا ھا یا ھو گم ستاروں کی لڑی ہے رات ویران پڑی ہے آگ جب دن کو دکھائی راکھ سورج سے جھڑی ہے غیب ہے دل سے زیادہ دید آنکھوں سے بڑی ہے گر نہ جائے کہیں آواز خامشی ساتھ کھڑی ہے لفظ گونگوں نے بنایا آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے رائی کا دانہ یہ دنیا کو...
اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ...