... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
’’آج تو آپ نے ہیبرون بہت گھوم لیا ؟‘‘ قادر کے لہجے میں ایک طنزیہ سی چھیڑ خانی تھی۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ ’’ بطور سیاح یہ میرے لیے واقعی بہت انوکھا تجربہ تھا‘‘۔وہ اس جواب سے محظوظ ہوا اس نے اپنی حتمی رائے ظاہر کی کہ لوگ چونکہ یہاں بسوں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں فوجیوں کے جلو میں آتے ہیں انہیں ہیبرون کا کوئی اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔یہ کیسی سیاحت ہے ،اس نے اپنے مشاہدے کو احتجاج میں اس اعلان کے ساتھ بدلا کہ اسے شدید بھوک لگی ہے لہذا اس سے پہلے کہ میں کوئی اور مطالبہ دید و شنید کروں ،پیٹ پوجاکرنا لازم ہوگیا ہے ۔
میں نے بھی کہا جو پہلا دھابہ ملے وہاں کھانا کھائیں گے۔ہم پہاڑوں میں سے گزر رہے تھے، اب سڑک پر کسی بستی کا کوئی نشان نہ تھا۔الخلیل کے اس بھونچال سے گرزنے کے بعد اب میری طبعیت میں عجب شانتی تھی۔ اس نے جب یہ پوچھا کہ میں کیا کھانا پسند کروں گا تو میں نے بھی جواب دیا کہ پھیکے بے لطف عربی کھانے کھا کر میری طبیعت بے زار ہوگئی ہے ،مجھے تو پیٹ میں دھوم مچاتی مرچوں والے کھانے کی طلب ہے۔قادر میرے مطالبے پر گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر اچانک پوچھنے لگا کہ کیا میں اصلاً پاکستانی ہوں۔مجھے اس کے اس سوال پر تاؤ آگیا اور میں نے اسے کہا کہ اگلی مرتبہ جب ملیں گے تو میں برتھ سرٹیفیکٹ ساتھ رکھوں گا۔نہیں مجھے ایک بات یاد آرہی ہے یہاں سے پانچ کلو میٹر دور حلحول کا قصبہ ہے۔چند سال پہلے تک وہاں پاکستانی کھانے مل جاتے تھے۔یہ کسی پاکستانی کا ہوٹل تھا۔مجھے لگا کہ ہوٹل اورمیرے مطالبے نے اسے بہت دور ماضی میں کہیں دھکیل دیا ہے۔
اس انجان محل و وقوع میں پاکستانی ہوٹل اور وہ بھی کسی پاکستانی کا ،یہ ایسا انکشاف تھا کہ میں اپنی سیٹ پر نیم دراز حالت سے اُچھل کر بیٹھ گیا۔اس کے چہرے پر نگاہیں گاڑ کر یہ اطمینان کرنا چاہا کہ واقعی وہ ہوش و حواس میں ہے۔میں مزاق نہیں کررہا۔ میں یہاں بہت عرصے پہلے آیا تھا۔یہ حلحول کاقصبہ ایسا نہیں کہ سیاح یہاں آئیں۔مجھے پتہ نہیں وہ پاکستانی اب تک زندہ ہے کہ نہیں۔وہ جب بھی کافی عمر رسیدہ تھا۔اس کا یہ انکشاف مجھے ایک ایسی غلط فہمی لگی جس پر میں نے پیشگی ہنسنا شروع کردیا۔میری یہ حرکت اسے ایک آنکھ نہ بھائی لیکن اس نے اپنی برہمی پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ وہ زندہ ہوا تو تمہیں پاکستانی کھانا مل جائے گا۔ میں نے بھی اس کے جھوٹ کو گھر پہنچانے کے لیے کہا کہ 65 ممالک کی سیر کے بعد اگر کسی پاکستانی سے مجھے مل کر خوشی ہوگی تو وہ آج اور اسی قصبے حلحول میں ہوگی ۔ابھی چلو،فوراً چلو۔ آج کی شام اپنے پاکستانی کے نام
قادر کو جانے کیوں خیال آیا کہ میری زندگی میں اب تک کے تجربات اور تحیرّات ناکافی ہیں ۔بہانہ طعام کا تھا مگرجو داستان اب کھلنے والی ہے اس کا اندازہ تو اس بے چارے کو بھی نہ تھا وہ نادانستگی میں مجھے ہیبرون سے لے کر ایک ایسے دریائے محبت میں اُتر گیا جو ایسا پایاب (کم گہرا جس میں پاؤں زمین کو لگ جائیں) بھی نہ تھا۔
حلحول، ہیبرون سے پانچ کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ایک سوئی سی بستی،صاف ستھری ، کچھ سوگوار سی۔یہاں ٹریفک بہت کم اور بازار کچھ چپ چپ سے تھے۔لوگ بھی گھروں سے بہت کم باہر دکھائی دے رہے تھے۔ وہ کار سڑک کنارے کھڑی کر کے کسی کا پتہ پوچھنے چل پڑا۔ میں سستانے اور باہر کا جائزہ لینے کے لے کار سے نکل آیا ۔ فضا میں ایک پہاڑی مقام کی سی سوندھی خوشبو تھی۔ایک لڑکا انگور بیچ رہا تھا ۔ میں نے دو شیکل کے خرید لیے۔یہاں حلحول کے پھل اور انگور پورے فلسطین میں بہت مشہور ہیں۔میرے منہ میں وہ ایک شیرینی بن کر گھل گئے۔
اتنی دیر میں قادر نظر آیا اس کا چہرہ دمک رہا تھا گویا اسے وہ گم گشتہ تابوت سکینہ مل گیا ہو جسے یہودی ڈھونڈ رہے ہیں۔ آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ میں بہت ہی نصیب دار ہوں وہ تمہارا پا کستانی ہم وطن بوڑھا ابھی تک بقید حیات ہے ۔اس نے میری خوش قسمتی کا سہرا ایک بوڑھے کے سر باندھا جس کے بارے میں وہ کھوج لگانے نکلا تھا۔مجھے اس کے لہجے کی کھنکھناہٹ بہت بھلی لگی۔یہاں حلحول میں پاکستانی ، میں سوچ میں پڑ گیا۔اس وقت وہ دکان پر بھی موجود ہے آؤ اس کے پاس چلیں۔ہم ایک پہاڑی ڈھلوان سے اتر کر نیچے آئے تو سڑک کے اختتام پر وہاں ایک مطعم تھا۔کھانے کا ہوٹل یعنی مطعم ابو داؤد ۔ یہاں سے ساری وادی کا خوب صورت نظارہ دیکھا جاسکتا تھا۔ مطعم سے کباب ،حمس اور نان کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔
مطعم میں داخل ہوتے ہی میری نگاہیں اس پاکستانی چہر ے کو ڈھونڈنے میں لگ گئیں جس کی دید کے لیے مجھے یہاں لایا گیا تھا۔ کاؤنٹر پر ایک ادھیڑ عمر کا پھرتیلا عرب بیٹھا تھا جو طعام سے متعلق گاہکوں کے بلوں کی رقم کا لین دین کررہا تھا۔عین اس کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ میں سر جھکائے گویا کہ حالت مراقبہ میں ایک بوڑھا بیٹھا تھا۔قادر نے ہماری آمد کا اعلان باآواز سلام سے کیا۔کاؤنٹر پر بیٹھے مالک نے بہت خوش مزاجی سے ہمارے سلام کا جواب دیا اور ہمیں نشست اختیار کرنے کی دعوت دی۔قادر نے میرے اندازے کے مطابق اسے عربی میں کہا کہ میں ایک پاکستانی ہوں اور وہ مجھے اس کے والد سے ملانے لایا ہے۔یہ سن کر اس نے بوڑھے مرد کی جانب ابّی کہہ کر آواز لگائی۔قادر کہاں چوکنے والا تھا اس نے مصرعہ طرح لگایا کہ وہ ان سے ملانے کے لیے پاکستان سے ایک بڑے خاص مہمان کو لایا ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ دنیا کو کوئی اداکار ان جذبات کی عکاسی کرسکتا ہے جو اس وقت اسے بوڑھے کے جھریوں زدہ چہرہ پر انوار پر بادل بن کر چھا گئے۔ بے یقینی ، اضطراب ، طرب بے اختیار وہ کونسا رنگ تھا جو اس چہرے پر ان ساعتوں میں نمایاں نہ ہوا ۔ وہ بہت تیزی سے اپنی نشست سے اٹھ کر میری جانب بڑھتے چلے آئے۔یقین جانیے باپ کی انہیں کیفیات بے پایاں کا کچھ رفیق تو ان کا صاحبزادہ وہ کاؤنٹر پر بیٹھا غریب سیٹھ بھی تھا۔جس کے باپ کو یہ نعمت غیر مترقبہ یوں اچانک ملی تھی۔
بڑے میاں نے میرے پاس آن کر السلام علیکم کہا اور میرے جواب کے بعد دوسرا سوال میری وطنیت پر داغ دیا۔اس کی برسوں سے گنگ اردو زبان پر عربی لب و لہجہ غالب آچکا تھا۔میرے مثبت جواب پر انہوں نے مجھے گلے لگایا ۔ اس گلے لگنے میں اس باپ کی شفقت کا رنگ چھایا ہوا تھا جو بہت عرصے بعد اپنے گم شدہ بیٹے سے ملا ہوا۔انہوں نے سب متجسس ناظرین مطعم کے سامنے اعلان کیا کہ وہ نصف صدی کے بعد پہلی مرتبہ کسی ہم وطن سے مل رہے ہیں۔ان کی آواز کپکپارہی تھی۔ آنکھیں اشک بار تھیں اور مسرت دیدنی۔چار سو ایک نعرہ مرحبا بلند ہوا۔بیٹے نے فوراً ایک ٹیبل صاف کراکر نسبتاً ایک خاموش کونے میں ہمیں بٹھادیا۔قادر نے ہم دونوں کو چھوڑ کر اپنے کھانے پینے کا اہتمام کیا اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے عربوں کی ایک ٹولی میں گھس گیا۔
ایسے مواقع پر پاکستانیوں کا جو اگلا سوال ہوتا ہے وہ متوقع تھا اور جب انہوں نے میرے شہر کانام پوچھا تو میرا فی الفور جواب تھا ’’راولپنڈی ‘‘ ۔ چچا غالب کو کلکتے کے ذکر پر جو تیر دل میں لگا تھا( کلکتے کا جو تونے ذکر کیا اے ہم نشین۔۔اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے) کچھ وہی حال ان بزرگوار مشفق کا ہوا۔آنسووں کی ایک جھڑی بہہ نکلی جو ان کی سفید ریش کو چمکاتی ہوئی نم کرگئی۔ان کا آبائی تعلق راولپنڈی کے علاقے ٹینچ بھاٹا سے تھا اور نام تھا ر اجہ ممریز ۔اس دوران میں ان کا صاحبزادہ عربی کافی کی دو پیالیاں لے آیا۔اسے اپنے باپ کی نازک جذباتی کیفیت کی بہت فکر تھی۔جب اسے میری جانب سے یقین ہوگیا کہ ہر چیز قابو میں ہے تو وہ مسکراتا ہوا چل دیا۔
راجہ ممریز نے جو کہانی مجھے سنائی وہ عشق کی ایسی داستان ہے کہ دنیا کا بہترین فلم ساز اس پر سن فلاور، دی ٹرمینل، دی نوٹ بک یا دی تھیف آف دی بک قسم کی فلم بناسکتا ہے۔ اس قصہ ہیر رانجھا کو سنتے ہی پنجابی ایک دفعہ اور لٹ گئے آپ کو تو یاد ہی ہوگا کہ اردو کے ایک پرانے شاعر انشا نے کہا تھاع
ان کی کہانی ان کی زبانی سنتے ہوئے مجھے کئی دفعہ لگا کہ میرے نیچے سے کبھی کرسی تو کبھی زمین سرک گئی ہے اور میں فضا میں کسی ہپناٹائژڈ لمحے میں معلق ہوگیا ہوں۔اس داستان الم ناک کا آغاز سن ساٹھ کی دہائی میں ہوا۔راجہ جی کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ وہ خود بھی ایک عام سے نوجوان تھے۔ان کاوہاں نان کاری بازار میں مصالحوں کا تھوک کا کاروبار تھا۔یہ راجہ جی کی دنیا نہ تھی۔وہ ہمہ وقت باہر جانے کے خواب دیکھتے تھے،ادھر ادھر سے پیسے جمع کرکے والد صاحب سے سفر کی اجازت مانگی تو انکار ہوگیا۔وہ باز نہ آئے، لگے رہے لیکن والدین جب ٹس سے مس نہ ہوئے تو ایک دن چپ چاپ انہیں بتائے بغیر برطانیا کے لیے روانہ ہوگئے۔ برطانیا جانے کے لیے سن ساٹھ کی دہائی میں ویزہ مطلوب نہ ہوتا تھا ۔ ارادہ یہ تھا کہ چند ماہ بعد گھوم پھر کر آئیں گے تو ان کا شوق اور والدین کا غصہ دونوں ہی ٹھنڈے پڑ چکے ہوں گے۔(جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...